"KDC" (space) message & send to 7575

معاشی دہشت گردی

یہ سوال اہم ہے کہ پٹرول کے بحران کے سترہ دنوں کے اندر جو اربوں روپے لوٹ مار مافیا کی جیبوں میں چلے گئے ان کا حساب کون دے گا؟ اگر وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور غیر جانبدارانہ طریقے سے تحقیقات کرواتے اور پھر اس کے نتیجہ میں چند وزراء کو وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے اندازمیں برطرف کرا دیتے تو موجودہ حکومت کی ساکھ مضبوط ہو جاتی۔ اگر اس تحقیقات میںان کی وزارت کو مورد الزام قرار دیا جائے تو ان کے ایمانداری سے اپنی وزارت سے مستعفی ہونے کی صورت میں حقیقی جمہوریت ، شفافیت اور بہترین طرز حکومت کا احساس پیدا ہوتا اور آئندہ کے انتخابات میں یقینی کامیابی کے امکانات پیدا ہو جاتے۔
سینیٹر اسحاق ڈار اگر اپنی جماعت کو آئندہ انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کرانا چاہتے ہیں تو سنجیدگی سے بچتوں کی شرح منافع میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا عمل شروع کر دیں۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی غریب عوام میں مقبولیت کا گراف گرانے کی سازش 2006-2007 ء میں اس وقت کی وزارت خزانہ کی بیوروکریسی نے امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک کے ایماء پر بچتوں کی شرح منافع میں حیرت انگیز کمی کا نسخہ رائج کرکے کامیاب کروائی تھی ۔ اب سٹیٹ بنک آف پاکستان نے 24 جنوری 2015 ء کو اگلے دو ماہ کے لئے زری پالیسی بیان میں شرح منافع 9.5 فیصد سے کم کرکے 8.5 فیصد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے سے بنکوں کے ان بیس ملین اکاؤنٹ ہولڈرز کو جنہوں نے بنکوں میں تقریباً 6ہزار ارب روپے بچت اور معیا ری کھاتوں میں رکھے ہوئے ہیں، نقصان ہوگا، جبکہ بینکوں سے بڑی رقوم کے قرضے لینے والوں کو خصوصی طور پر فائدہ ہو گاجنہوں نے بینکوں سے تقریباً ساڑھے تین ہزار ارب روپے کے قرضے لئے ہوئے ہیں جو تمام بینکوں کے مجموعی قرضوں کا تقریباً 80فیصد ہیں اور قومی بچت سکیموں میں رقوم جمع کرانے والے افراد ریٹائرڈ ملازمین، بیواؤں، یتیموں، معذوروں، پنشنروں اور بزرگ شہریوں کو ان کی رقوم پر کم شرح سے منافع ملے گا۔ چنانچہ ان کروڑوں کھاتے داروں اور قومی بچت سکیموں میں رقوم جمع کرانے والوں کا مفاد مجروح ہو گا۔ یہ بات نوٹ کرنا بھی اہم ہے کہ ایک عمر رسیدہ شہری جس نے 2008ء میں بہبود سرٹیفکیٹ میں 30 لاکھ جمع کرائے تھے، اسے اب تک 42000 روپے ماہانہ منافع ملتا رہا ہے لیکن اب اگر کوئی شہری بہبود سرٹیفیکیٹ میں 30 لاکھ روپے جمع کراتا ہے تو اسے صرف 30800 روپے ماہانہ منافع ملے گا، حالانکہ گذشتہ چھ برسوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں طوفانی اضافہ ہوا ہے۔ شرح سود میں کمی کے بعد منافع کی اس رقم میں مزید کمی ہوگی اور سٹیٹ بنک آف پاکستان کی شرح سود میں کمی کے حالیہ اعلان کے بعد غریب عوام کی بچتوں کے منافعے میں کمی ہو جائے گی۔
آزاد معیشت پر مبنی سٹیٹ بینک کی زری پالیسی ماضی میں بے معنی اور غیر موثر رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اپنی حکومت کی ساکھ میں مقبولیت کے خواہش مند ہیں تو بینک اپنے کھاتے داروں کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کی پابندی کرتے ہوئے کھاتے داروں کو منافع میں شریک کریں اور ماہرین معیشت ڈاکٹر شاہد حسین صدیقی ، ڈاکٹر اشفاق احمد خان اور ڈاکٹر حفیظ پاشا پر مشتمل کمیشن تشکیل دے کر ایک جامع حکمت عملی تیار کروائیں جس سے بچتوں کی شرح منافع میں اضافہ کر کے شرح سود میں کمی سے عام آدمی پر پڑنے والے منفی اثرات سے بچا جا سکے ۔ ملک میں غربت و بے روزگاری میں کمی کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ بچتوں کی شرح بڑھنے سے قرضوں پر انحصار کم ہوگا۔ یہ اہم فیصلے نواز حکومت نے نہیـں کرنے ، کیونکہ ان سے طاقتور طبقوں کے نا جائز مفادات پر ضرب پڑتی ہے جو ان کو انتخابی مہم کے لئے اربو ں روپے کے فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تشہیری مہم پر اربوں روپے کے اشتہارات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چلائے تھے۔ اس جارحانہ تشہیری مہم کا نوٹس بھی نہیں لیا گیا۔ راقم الحروف نے چیف الیکشن کمشنرکو اعدادوشمار اور حقائق پر مبنی ایک ریفرنس بھی بھجوایا تھا کہ جو سیاسی جماعتیں اپنی تشہیری مہم پر اربوں روپے کے اخراجات کر رہی ہیں،ان کے پارٹی اکاؤنٹس کا جائزہ لے کر اور موازنہ کرکے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے، لیکن الیکشن کمیشن نے چشم پوشی اورغفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضابطہ اخلاق کی صریحاً خلاف ورزی پر کارروائی کرنے سے گریز کیا۔
ہم نے من گھڑت نظریات اور مفروضے بنائے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کوئی دوست نہیں۔ جن کو ہم دوست تصور کرتے ہیں ان کے ساتھ ہماری دوستی اور برادرانہ رشتے بھی ہماری خوش فہمی ہیں۔ حقیقت اس کے بر عکس ہے اور بہت تلخ ہے۔ بلوچستان کو علیحدہ مملکت بنانے کے عمل پر بین الاقوا می سر مایہ کاروں نے بلوچستان میں کمند پھینک دی ہے اور سازشی عناصر اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے طاقتور ہائوسز کی بنیاد رکھ رہے ہیں،جن میں مڈل ایسٹ کے بعض ممالک، سنٹرل ایشیاء اور مشرق بعید کے ممالک کے سرمایہ کار شامل ہیں اور بلوچستان کی بعض اہم اور غیر اہم شخصیتوں کو بھی ساتھ شامل کیا جا رہا ہے۔ یمن میں حالیہ خانہ جنگی کے شعلے کی تپش افغانستان اور پاکستان تک محسوس ہونا شروع ہو گئی ہے اور ہماری فرقہ واریت کی سوچ سے اسلامی ممالک عدم استحکام کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں ، جبکہ اسرائیل اور مغربی ممالک اپنی اپنی چالوں میں کامیاب ہو گئے ہیں کیونکہ مسلمانوں کے دل سے روح محمدﷺ چھینی جا رہی ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کوئی دور ایسا انہیں گزرا جب ملک کے معاشی و اقتصادی طور پر مستحکم و مضبوط ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔ البتہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے ادوار کو کسی حد تک مستحکم کہا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری ادوار میں عام طور پر ملک سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے انتشار کا شکار رہتا ہے اور سیاسی عدم و استحکام کی وجہ سے ملک کی معاشی و اقتصادی اور صنعتی و کارباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ جاتی ہیں، نتیجتاً ملک معاشی و اقتصادی لحاظ سے کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان ضروری اصلاحات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہا تو معیشت کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروںکا اعتماد مجروح ہو گا، سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوںگے اور مستقبل میں معاشی ترقی کے اہداف کا حصول دھندلا جائے گا۔ بد قسمتی سے پاکستان کے حالیہ انتخابات میں بھارتی سرمایہ کاروں نے مداخلت کی اور سینیٹ کے الیکشن میں بھی انہی کا سرمایہ استعمال ہونے کی خبریں موصول ہوتی رہیں۔ جنرل راحیل شریف ملک سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔قومی اداروں کو اس طرف بھی دھیان دینا چاہیے کہ پاکستانی سیاست میں بھارتی سرمایہ کاروں کا عمل دخل کس قدر ہے۔ پاکستان کے سابق چیئر مین نیب سیف الرحمن کی خدمات بھی فرنٹ مین کی حیثیت سے حاصل کر نے کی خبریں تواتر سے آتی رہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی مالی بے ضابطگیوںکے حوالے سے شدید تنقید کی زد میں رہے اور ان کے صاحبزادگان کے خلاف بھی اسی انداز میں تذکرہ ہوا،جس طرح سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ہونہار صاحبزادے ارسلان کے بارے میں شور اٹھتا رہا۔ اب عوام وزیر اعظم نواز شریف سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ گوادرسے کاشغر تک راہداری کے قومی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے متنازعہ وزراء کے خلاف مثبت انداز میں کارروائی کریں،کیونکہ پاکستان کی عسکری قیادت مملکت کو بچانے کے لئے آگے بڑھ رہی ہے ، چنانچہ معاشی دہشت گردوں کو گرفت میں لینا بھی ریاست بچاؤ کے زمرے میں آتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں