"KDC" (space) message & send to 7575

پنجاب سندھ بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرائیں!

خیبرپختون خوا میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد قابل تعریف ہے لیکن امن و امان کے حوالے سے صورت حال افسوس ناک رہی۔ الیکشن کمیشن 11مئی 2013 کے انتخابات کے حوالے سے تحریک، احتجاج اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی بناء پر دباؤ میں رہا۔ مزید برآں الیکشن کمیشن کو لاجسٹک سپورٹ فراہم نہیں کی گئی، ریٹرننگ افسران کا تعلق صوبائی سروسز سے تھا‘ جس کی وجہ سے انہوں نے الیکشن کے دوران مسائل بڑھا دئیے۔ پولیس پر ان کا کنٹرول برائے نام تھا اور بیوروکریسی حکمران جماعت اور اتحادی جماعتوں میں تقسیم ہو گئی۔ اپوزیشن اتحاد کے ورکروں نے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے جواب میں حکمران جماعت کے ورکروں نے بھی وہی راہ اختیار کی۔ یوں بلدیاتی انتخابات میں تشدد ہوا اور تقریباً 11 کے لگ بھگ لوگ جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا موقف قانونی حقائق کے برعکس ہے کیونکہ امن و امان اور مثالی ماحول پیدا کرانا صوبائی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔
انتظامی امور پر وزیراعلیٰ کی گرفت کمزور رہی۔ امن و امان کی بد ترین صورت حال‘ صوبائی حکومت پر شدید تنقید کا باعث بنی۔ جس طرح الیکشن ہوئے اس کی توقع نہیں تھی۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی بھی ادراک نہ کر سکی کہ صوبے میں بیورو کریسی منقسم ہے‘ مخالف اتحادی محاذ نے حکومت کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ صوبائی حکومت کے ایما پر ایف سی کو تعین کیا جا سکتا تھا۔ صوبائی حکومت کا یہ موقف کہ امن و امان الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی اور الیکشن کمیشن کا یہ کہنا کہ حکومت کی ذمہ داری تھی‘ درست نہیں۔ حالات خراب نہ ہوتے اگر ماضی کی روایات کی طرح الیکشن کمیشن اور صوبائی حکومت کے درمیاـن ہم آہنگی ہوتی۔ بلدیاتی نظام کا قانون صوبائی اسمبلی کے 124 ارکان نے بنایا اور 41 ہزار سے زائد نشستوں پر 84 ہزار امیدواروں نے مقابلہ میں حصہ لیا۔ اس مشکل ترین صورت حال پر الیکشن کمیشن کنٹرول نہ برقرار رکھ سکا‘ ریٹرننگ افسران لاتعلق رہے‘ انہوں نے الیکشن کمیشن کی معاونت ہی نہیں کی اور اپنے فرائض سے لاپروائی برتی۔ خیبرپختون خوا کا بلدیاتی ایکٹ انتہائی پیچیدہ ہے‘ اس نظام کے تحت ہونے والے بلدیاتی انتخابات بیک وقت غیر جماعتی، براہ راست، جماعتی اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے یہ سارا گورکھ دھندہ عام فہم نہیں۔ ایک ہی وقت میںووٹر کو سات مختلف رنگوں کے بیلٹ پیپرز کے ذریعے مختلف سطح کے امیدواروں کو منتخب کرنا تھا۔ ایک ووٹ کاسٹ ہونے میں کم از کم آٹھ منٹ لگنے کے امکانات تھے جس کے باعث مجموعی طور پر پولنگ کی شرح عام انتخابات کے مقابلے میں کم دیکھنے میں آئی، جو امیدوار پولنگ شروع ہونے سے قبل پہنچ گیا، اس کی پارٹی کے چانس زیادہ رہے۔ آٹھ منٹ میں ایک ووٹ کاسٹ ہونے پر ایک بوتھ پر 90 کے لگ بھگ ووٹ 9 گھنٹے میں کاسٹ ہوئے۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت پرانی یونین کونسلوں کی تقسیم کرکے شہری علاقوں میں نیبرہڈ اور دیہی علاقوں میں ویلیج کونسل تشکیل دی گئیں۔ یوں نظر آتا ہے کہ جنرل تنویر نقوی کا مسترد شدہ فارمولا پرویز خٹک کے ہاتھ لگ گیا۔ جنرل نقوی نے جب پاکستان میں بلدیات کا نظام متعارف کرایا تو انہوں نے ترکی اور سپین سمیت بے شمار ممالک سے لوکل گورنمنٹ نظام کے فارمولے منگوائے تھے۔ ان کے تعمیر نو بیورو سیکرٹریٹ میں سینکڑوںکی تعداد میں ایسے کئی نمونے ریٹائرڈ افسران نے صوبائی حکومت کے حوالے کر کے مشاورتی فیس حاصل کی ہو گی۔ اسی طرح صوبے میں ہر یونین کونسل کی سطح پر اقلیتی امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوا۔ بیشتر اضلاع میں بیشتر یونین کونسلوں میں ان کی آبادی اور امیدوار نہ ہونے کے باعث یہ نشست خالی رہی۔ اسی لئے اقلیتی برادری کو اس پر شدید تحفظات ہیں اور ان کے ایک وفد نے راقم سے ملاقات بھی کی تھی؛ چنانچہ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
خیبرپختون خوا میں بلدیاتی نظام کا جو ایکٹ صوبائی اسمبلی کی منظوری سے نافذ ہوا۔ وہ دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر ہے۔ اس ایکٹ کی 59,58 اور 60 شقیں خصوصاً قابل توجہ ہیں کیونکہ ان شقوں کے تحت وزیراعلیٰ نے صوبے کے 32 محکموں کے اختیارات ضلعی کونسلوں کو تفویض کر دئیے ہیں جب کہ پنجاب اور سندھ کے نظام پسماندہ ہیں۔ لیکن بلدیاتی نظام کے قوانین میں میئر، چیئرمین یا ضلعی ناظم کسی بھی ضلعی افسر کو تبدیل کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ ایسے معاملات کا فیصلہ لوکل کمیشن کے ذریعے کریں گے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ تین چار ماہ تک پنجاب اور سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات ہونا ہیں۔ پنجاب جغرافیائی و سیاسی لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے، اس لئے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بناناہوگا۔ بلدیاتی انتخابات حکومتوں کے اقتدار کو مزید مضبوط بناتے ہیں اور ان کے اقتدار کو وسعت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح عوام جمہوری سیٹ اپ میں سٹیک ہولڈر بنتے ہیں کیونکہ اقتدار سے عوام کا جتنا مفاد وابستہ ہوگا جمہوریت اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ جب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے موثر احتجا جی تحریک سے ارباب و اختیار کا اقتدار چند گھنٹوں کا مہمان تھا تو اس وقت پارلیمنٹ کے 1200 کے لگ بھگ جن میں سینٹ ، قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان شامل تھے، یک جا ہوکر نواز حکومت کو محفوظ راستہ دکھایا۔ اب ذرا بلدیاتی حکومتوں کی جمہوری طاقت کی طرف آتے ہیں، خیبرپختون خوا میں 42 ہزار نشستوں پر انتخابات منعقد ہوئے یعنی پہلے اس صوبے میں جمہوریت سے وابستہ افراد کی تعداد صوبائی اسمبلی کے ارکان کی صورت میں 124تھی‘ اب بڑھ کر تقریباً 42 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ پنجاب میں تقریباً 70 ہزار نشستوں پر انتخابات ہوں گے اور سندھ میں بھی یہ تعداد تقریباً 55 ہزار ہوگی اور بلوچستان میں10 ہزار کے لگ بھگ بلدیاتی جمہوری ارکان ہیں۔ گویا جمہوریت کی ٹرین کو چلانے والوں کی تعداد ایک لاکھ 75 ہزار ارکان تک پہنچ جائے گی۔
پنجاب میں وزیر اعلیٰ نے ہر ڈویژن کی سطح پر کمیٹی یا بورڈ مقرر کر دیا ہے جو بلدیاتی ارکان کو مالی اختیارات تفویض کرے گا کیونکہ پنجاب کے بلدیاتی نظام میں پرنسپل/ اکائونٹنگ آفیسر ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر گریڈ 17 کے افسروں کو رکھا گیا ہے جس سے بلدیاتی نظام‘ بیوروکریٹ (ڈپٹی کمشنر) کا محتاج ہوگا۔ جب بلدیاتی انتخابات کے بعد ادارے اپنے اپنے محکموں کا چارج سنبھالیں گے تو اختیارات پر تنازع اور تصادم کا امکان ہوگا۔ چاروں صوبوں میں آئین کے آرٹیکل 142-A کے تحت اختیارات کے لیے تصادم کی گھنٹیاں بجتی سنائی دے رہی ہیں۔ ملک کی سول سوسائٹی اور میڈیا جب ان کو بے اختیار ہونے کے طعنے دیں گے تو پھر اداروں کے مابین جنگ شروع ہو جائے گی۔
صوبہ خیبر پختون خوا کے 24 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہو گئے، بلدیاتی انتخابات کے سرکاری نتائج کا اعلان 7 جون کو ہو گا۔ بلدیاتی انتخابات میں بعض جگہوں پر خواتین کو حق رائے دہی سے ایک بار پھر روک دیا گیا۔ پشاور کی نواحی آبادیوں، صوابی اور نوشہرہ میں کئی مقامات اور بونیر، لوئر دیر، اپر دیر میں بھی خواتین ووٹ کے حق سے محروم رہیں، اقوام متحدہ نے صوبہ میں خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں بھی ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی شدید مذمت کی اور کہا ہے کہ خواتین جمہوریت کا ناگزیر حصہ ہیں۔
کے پی کے بلدیاتی انتخابات کو خونیں قرار دیا جا سکتا ہے، اتنی بدانتظامی، لڑائی جھگڑے اور انسانی جانوں کا ضیاع مئی 2013ء کے عام انتخابات کے دوران پورے ملک میں بھی نہیں ہوا تھا، البتہ 1998ء میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے دوران ضلع بولان، نصیر آباد میں 50 کے لگ بھگ افراد قتل ہوئے تھے جن میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے والد غلام غوث رئیسانی سابق گورنر بلوچستان بھی قتل ہوئے۔ خیبر پختون خوا میں انتخابات کے دوران جو بد نظمی دیکھنے میں آئی وہ صوبائی حکومت کی نا اہلی کے باعث ہوا اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک یہ کہہ کر بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ انتظامیہ اور پولیس الیکشن کمیشن کے ماتحت تھی۔
24 ستمبر کو سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں، الیکشن کمیشن اور مذکورہ دونوں صوبوں کی حکومتیں خیبر پختون خوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بد نظمی و بے ضابطگیوں کا باریک بینی سے جائزہ لیں۔ ایسے اقدامات اور انتظامات کئے جائیں کہ خیبر پختون خوا میں ہونے والی بد نظمی اور بے ضابطگیوں کا اعادہ نہ ہو سکے۔ ان خرابیوں سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ پنجاب و سندھ میں بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار کرائے جائیں‘ جیسا کہ 2002ء اور 2005ء میں کروائے گئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں