"KDC" (space) message & send to 7575

کیا یہ بحث ہونی چاہیے؟

سندھ میں دہشت گردی، کرپشن اور دیگر سنگین جرائم کے خلاف جاری آپریشن کے لئے‘ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے رینجرز کے دائرہ کار کو صرف کراچی تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اس مدت میں توسیع بھی صرف ایک ماہ کے لئے ہے، اس فیصلے کی بنیاد پر سندھ کے باقی پانچ ڈویژنوں حید آباد، سکھر، میر پور خاص، لاڑکانہ اور بھنبھور کے لئے رینجرز کے خصوصی اختیارات ختم ہو گئے‘ یعنی عملی طور پر صوبہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور یوں مستقبل میں کراچی صوبہ بنانے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس فیصلے کے بعد رینجرز کو کراچی میں تو مزید ایک ماہ کے لئے انسداد جرائم کی خاطر چھاپوں، گرفتاریوں، تفتیش اور 90 دن تک ملزمان کو تحویل میں رکھنے کا اختیار مل گیا، مگر باقی پورے صوبے میں جرائم کی روک تھام یا ان کا کردار مبینہ طور پر یک لخت ختم کروا دیا گیا، جب کہ سندھ کے دیگر اضلاع خصوصاً بالائی سندھ میں رینجرز نے دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان میں ملوث افراد کے خلاف مؤثر کارروائیاں کی ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے اس فیصلے کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی؛ البتہ اس فیصلے نے بالائی سندھ کو کرپٹ عناصر کے سپرد کرا دیا۔ زرداری صاحب نے چند دن پہلے پراسرار اشاروں پر مبنی جو خطاب کیا تھا‘ انہوں نے اُس کی روح کے عین مطابق‘ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر لیے ہیں۔ 
سندھ کے مظلوم عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا جرائم صرف کراچی میں ہو رہے ہیں اور صوبے کے باقی عوام دہشت گردوں، ڈاکوؤں، لٹیروں، اختیارات کے ناجائز استعمال میں ملوث بد عنوان حکام اور نوکر شاہی کی ظالمانہ کارروائیوں سے محفوظ و مامون ہیں۔ رینجرز آپریشن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدام کے طور پر حکومت سندھ کی مکمل تائید و حمایت سے‘ قانون نافذ کرنے والے سول ادارے غیر موثر ہو جانے کے بعد شروع کیا گیا تھا؛ لہٰذا وہ پاک فوج سے محاذ آرائی کی دبئی پالیسی ترک کریں اور اسے قومی مفاد میں اپنے منطقی انجام تک پہنچنے دیں۔ اسے متنازع بنا کر عوام میں امتیازی سلوک کا احساس پیدا کرنے نیز جرائم کے خاتمے کے عمل کو نقصان پہنچانے اور یو ں اپنی شخصیت کو مزید مشتبہ بنانے سے گریز کیا جائے۔ ایک سال پہلے تک وطن عزیز کے بعض علاقے دہشت گردی اور بدامنی سے دوچار تھے لیکن پاک فوج نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی قیادت میں صورتحال کو بڑی حد تک بدل دیا ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ وطن عزیز کے منظر نامے سے رینجرز اور افواج پاکستان کو نکال دیں تو ہر طرف تباہی و بربادی کی داستانیں رقم ہونے لگیں گی، انتہاپسند دہشت گرد‘ را کے ایجنٹ اور جرائم مافیا ہمارا گھیراؤ کر لیں گے۔ شمال مغربی اور جنوبی افق خونریزی سے دوچار ہو جائے گا۔ 
وفاقی حکومت‘ صوبہ سندھ کے اس عجیب و غریب رویے سے نالاں نظر آرہی ہے‘ جو سندھ حکومت نے‘ اٹھارویں ترمیم کا حوالہ دے کر رینجرز کے اختیارات میں ایک ماہ کی توسیع اور صوبائی انتظامیہ کا معاملہ صوبائی اسمبلی میں پہنچانے کے لئے اختیار کیا ہے۔ اب آصف علی زرداری کی حکمت عملی کے تحت افواج پاکستان کے کردار پر صوبائی اسمبلی میں بحث یا اس پر تنقید یا اس کے کردار کا تعین کرنا غیر آئینی ہو گا۔ رینجرز مسلح افواج کا حصہ ہیں اگر وزیراعلیٰ قائم علی شاہ‘ ان کی کابینہ، سپیکر اور ارکان اسمبلی نے صوبائی اسمبلی کے فلور پر رینجرز پر تنقید کرنے کی کوشش کی تو وہ آئین کے آرٹیکل 63(1) G کے تحت ہمیشہ کے لئے نا اہل ہو جائیں گے۔ سندھ حکومت کا رویہ اور اقدامات صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیں گے۔ ممکن ہے کہ سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان اپنا دامن بچانے کی حکمت عملی کے ساتھ کارروائی میں حصہ لیں‘ لیکن ایم کیو ایم نے آرمی اور رینجرز پر شدید تنقید کی تو مسلح افواج کی جانب سے سندھ اسمبلی کی نا اہلیت کا ریفرنس سپریم کورٹ میں بھجوایا جا سکتا ہے‘ حالانکہ سندھ حکومت کو ادراک ہونا چاہئے کہ رینجرز وفاقی فورس ہیں اور اس کی تعیناتی کے متعلق بحث و مباحثہ صرف اور صرف قومی اسمبلی میں ہی ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ اپنی کھربوں روپے کی کرپشن کو بچانے کے لئے سندھ اسمبلی میں مسلح افواج کے خلاف تقاریر کروا کر صوبہ میں آئینی بحران پیدا کرنے کے در پے ہیں۔
وفاق اور سندھ دونوں حکومتیں چیف جسٹس ناصر الملک کی17 اگست کو ریٹائرمنٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ وہ ریٹائرمنٹ سے قبل 2013ء کے عام انتخابات کے بارے میںانکوائری کمیشن کے ذریعے ہونے والی تحقیقات کی رپورٹ جاری کریں 
گے اور آئینی ترامیم کے حوالے سے فیصلہ بھی‘ جس کے ذریعے فوجی عدالتوں کے مستقبل کا تعین ہوگا اور اس ضمن میں فیصلہ چیف جسٹس کا انفرادی نہیں بلکہ فل کورٹ اور عدالتی/ انکوائری کمیشن کے فیصلے ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ نے دونوں فیصلے محفوظ کر لئے ہیں۔ دونوں معاملات انتہائی اہم‘ اور ان کے فیصلوں کے قومی سیاست پر دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ تین رکنی عدالتی کمیشن کی رپورٹ گزشتہ عام انتخابات میں منظم دھاندلی اور مینڈیٹ چرانے پر تبصرہ کرے گی، جب کہ عدالت عظمیٰ کا 17 رکنی فل کورٹ بنچ فوجی عدالتوں کے بارے میں فیصلہ کریگا۔ جسٹس جواد خواجہ 17 اگست کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے اور 23 روز بعد 10 ستمبر کو ریٹائر ہو جائیں گے، ان کے بعد جسٹس انور ظہیر جمالی پندرہ ماہ تک چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز رہیں گے۔
21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوجی عدالتوں کو سول ٹرائل کا اختیار دیا گیا اور اسی ترمیم کی روشنی میں آرمی ایکٹ میں بھی تبدیلی کی گئی۔ 21 ویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ نے بہت تیزی سے مگر متفقہ طور پر منظور کیا، یہ ترمیم قومی ایکشن پلان کا حصہ تھی اور اسی وجہ سے فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں؛ تاہم فوج اب بھی ان عدالتوں کے قیام کی اتنی ہی خواہاں ہے جتنی وہ 21 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کے قیام کے وقت تھی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا‘ کہ 18 ویں ترامیم کے بعد اب یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں پہنچانا ضروری ہے، بد نیتی پر مبنی ہے کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ نے بھی صوبائی حکومت کی مکمل حمایت کی ہے اور وزیر اعلیٰ ان کرپٹ افسروں کے خلاف جو آصف علی زرداری کے اردگرد بیٹھے ہیں‘ کارروائیوں کو روکنا چاہتے ہیں۔ آصف علی زرداری کے غصہ کی اصل وجہ رینجرز کی وہ رپورٹ ہے جس میں 230 ارب روپے کی کرپشن کی بات کی گئی ہے جس میں سندھ حکومت کے بڑے بڑے نام اور کچھ طاقتور وزراء بھی شامل ہیں۔
سندھ قومی ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس کے بعد اب نئی صورت حال سامنے آئی ہے۔ زرداری صاحب نے دو رخی پالیسی اختیار کرتے ہوئے بلاول زرداری کو فوجی جرنیلوں کے ساتھ ملاقات کے لئے بھیجنے یا پھر جرنیلوں کی جانب سے بلاول زرداری سے ملاقات کے لئے رضا مند ہونے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ عدم تصادم کی پالیسی اختیار کی جائے گی۔ اگر ضرورت پڑے تو پیپلز پارٹی کے وہ وزراء جن کے گھروں سے اربوں روپے کی کرنسی برآمد ہوئی ہے ان کی قربانی دے دی جائے اور اس کارروائی کی آڑ میں بلاول، اعتزاز فارمولے کے مطابق پارٹی کے بوڑھے رہنمائوں اور کرپٹ وزراء کی صفائی کرکے پارٹی کا امیج بلند کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ کہ بلاول اب زرداری صاحب کے سحر سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ چھ سے آٹھ مہینے مزید گزر جانے دیں۔ اس دوران رینجرز اور فوج کو سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف مصروف رکھا جائے۔ تب نئے آرمی چیف کے تقرر کی باتیں شروع ہو چکی ہوں گی۔ یہی و ہ راز اور شطرنج کا مہرہ ہے جس کا وزیر اعظم کو علم ہے۔ ماضی میں بھی وہ یہ کھیل کھیل چکے ہیں اور اب نومبر کے مہینے میں اہم فیصلے ہونے کے امکانات پائے جاتے ہیں! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں