"KDC" (space) message & send to 7575

پاکستان میں بڑی سیاسی تبدیلی کا امکان

الطاف حسین کی متنازع تقریر نے متحدہ قومی موومنٹ کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ الطاف حسین کی تمام تقاریرکا برطانوی اور پاکستانی قوانین کی روشنی میں جائزہ لے رہی ہے۔ الطاف حسین رینجرز اہلکاروں کے خلاف سخت زبان استعمال کر رہے ہیں، وہ عسکری قوتوں اور ڈی جی رینجرزکو کراچی میں آپریشن کے بجائے کشمیر میں جا کر لڑنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اشتعال انگیز تقاریر کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اخبارات نے اسے شائع کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ محمد انور جو ایم کیوایم کے بانی تھے، انہیں سویت یونین کے پولٹ بیوروکی طرز پر طبی اور نفسیاتی مسائل کی آڑ میں ایم کیوایم سے فارغ کر دیاگیا ہے۔ ان کی صاحبزادی کاکہنا ہے کہ ان کے والدکی صحت اورکمزور یاد داشت سے متعلق خبریں غلط ہیں۔ محمد انور نے ایم کیوایم کو پس پردہ رہ کر منظم کیا تھا اور1992 ء کے نامساعد حالات میں بھی اسے سنبھالے رکھا۔ اب چونکہ بھارت سے فنڈنگ کے حوالے سے انہوں نے برطانوی پولیس کو حقائق سے آگاہ کر دیا ہے اس لیے الطاف حسین نے انہیں سوشلسٹ نظریہ کے انداز میں پارٹی سے الگ کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد الطاف حسین کا زوال اس طرح شروع ہوگیا ہے جیسے مصرکے صدر جمال عبدالناصرکا1967ء میں مشرق وسطیٰ کی جنگ میں شکست کے بعد اپنے دست راست فیلڈ مارشل حکیم عامرکو سبکدوش کرنے کے بعد ہوا تھا۔
چودھری نثار علی خان نے جو مواد برطانوی حکومت کو فراہم کیا ہے اسے بھی سکاٹ لینڈ یارڈکا خصوصی کرائم یونٹ دیکھ رہا ہے۔ بادی النظرمیں یوں نظر آ رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے بانی اور معمار محمد انورکی سبکدوشی کے بعد پاکستان میں رابطہ کمیٹی کے وہ ارکان جو اب اربوں روپے میں کھیل رہے ہیں اور جن کی پراپرٹی دبئی، کینیڈا اور برطانیہ تک پھیلی ہوئی ہے اور جو نیٹو کے اسلحہ کی چوری میں ملوث رہے ہیں، وہ اپنے آپ کو محمد انورکی جگہ پر دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد بھی ایم کیوایم کا نیا قائد بننے کی دوڑ میں شامل ہیں کیونکہ انہیں ملک کے چاروں صوبوں میں پذیرائی حاصل ہے اور وہ مہاجرکمیونٹی کے مفادات کے ضامن بننے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ روزنامہ دنیاکے ممتاز کالم نگار افتخارگیلانی نے اپنے ''مکتوب دہلی‘‘ میں بھارت کی خفیہ ایجنسی''را‘‘ کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ کشمیری رہنمائوں شبیر احمد شاہ، پروفیسر عبدالغنی لون، میر واعظ عمر فاروق، عسکری کمانڈر فردوس بابر بدر اور دیگرکشمیری رہنما ان سے براہ راست رابطے میں رہے۔ اس کتاب میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین، مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید، ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی بھی خوب خبر لی گئی ہے۔
راقم کی میر واعظ عمر فاروق سے اسلام آباد میں14 دسمبر 2012ء کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی تھی جب وہ خصوصی خطاب کے بعد وی آئی پی لائونج میں موجود تھے۔ ان کے بعد راقم نے بھی خطاب کیا تھا۔ میں نے میر واعظ عمر فاروق سے مختصر ملاقات میں پوچھا تھاکہ کیا انہوں نے شیخ عبداللہ کی سرگزشت''آتش چنار‘‘کا مطالعہ کیا ہے؟ انہوں نے بڑی معصومیت سے نفی میں جواب دیا۔ میں نے ان سے کہاکہ کشمیر کی تحریک آزادی کا پس منظرجاننے کے لئے یہ کتاب سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے اپنی وفات سے چند مہینے پہلے یہ کتاب مکمل کی تھی اس لیے یہ ان کا نزعی بیان ہے۔ اس کتاب میں میر واعظ محمد یوسف کا خصوصی ذکرہے۔ اب را کے سابق سربراہ نے اپنی کتاب میں میر واعظ محمد یوسف کے صاحبزادے میر واعظ عمر فاروق کا اسی انداز میں ذکرکیا ہے۔
راؤ عبدالرشید نے اپنی تصنیف میں آزاد کشمیرکے حوالے سے اہم انکشافات کرتے ہوئے لکھا کہ صدر سکندر مرزا پاکستان میں مارشل لاکا نفاذکے لئے راہ ہموارکر رہے تھے۔ ان کے کہنے پر خان آف قلات کے ذریعے قلات میں بغاوت کرانے کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ سکندر مرزا نے اپنے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب اورکشمیری رہنما چودھری غلام عباس کے ذریعے آزاد کشمیر میں بھی حالات خراب کرنے کی سازش کی تھی۔ آزاد کشمیرکے صدر سردار ابراہیم سے بالا بالا کشمیر لبریشن موومنٹ کے چودھری غلام عباس نے صدر سکندر مرزا کو یقین دلایا کہ وہ دس لاکھ کے لگ بھگ رضاکار تیارکرکے سیز فائر لائن کراس کرکے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوںگے۔ چودھری غلام عباس مطلوبہ تعداد جمع کرنے میں ناکام ہوگئے اور صدرکے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر نوازش اور قدرت اللہ شہاب کی سازشی تھیوری ناکام ہوگئی۔ 
نواب آف قلات کے ذریعے قلات میں بھی نام نہاد بغاوت کا ڈرامہ رچاکر بلوچستان میں فوجی آپریشن کا منصوبہ بنایا گیاتھا۔ اس میں نواب آف قلات کو مغربی پاکستان کے گورنر مشتاق احمد گور مانی کو سبکدوش کرکے گورنر بنانے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ سکندر مرزاکی دونوں سکیمیں ناکام ہوگئیں۔ قارئین اندازہ لگائیں کہ ہمارے نام نہاد سیاستدان اعلیٰ عہدوں کے لالچ میں کیسی سازشیں کرتے رہے۔ اب کراچی میں حالات ٹھیک کرنے کا مشن آگے بڑھ رہا ہے اور الطاف حسین اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لئے کراچی میں خانہ جنگی کروانے کے لئے تا مرگ بھوک ہڑتال کی تحریک شروع کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے بڑی دانشمندی سے افواج پاکستان کوکئی محاذوں پر مصروف کر رکھا ہے۔ سندھ میں ان کو آصف علی زرداری کے مشورے سے ایم کیو ایم سے الجھا دیا ہے جبکہ بلوچستان اور فاٹا میں انہیںحکومتی حمایت حاصل نہیں ہو رہی۔ نواز شریف کے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ذاتی خوشگوار تعلقات ہیں اور دوسری جانب وہ خصوصی خوشامدی گروپ کے سحر سے باہر نہیں نکل رہے۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ آنے سے وزیر اعظم کو نیا مینڈیٹ مل گیا ہے۔ پہلے میاں شہباز شریف وزیر اعظم کو خوشامدیوں سے بچا رہے تھے، اخباری اطلاعات کے مظابق ان کے خطرناک مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اب یہ ذمہ داری چودھری نثار علی خان نبھا رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ وزیر اعظم کو ریڈ زون میں داخل نہ ہونے دیں تاکہ وہ ایک بار پھر12 اکتوبر کے انجام سے دوچار نہ ہو جائیں جبکہ ان کے خوشامدی مشیر انہیں عسکری قوتوں سے متصادم ہونے کی سعی کر رہے ہیں۔
عمران خان کی عدالتی جنگ میں ناکامی، متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف آپریشن ، مسلم لیگ (ق) کے غیر فعال ہونے ، سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف مقدمات اور پیپلز پارٹی کی ہمالیہ جیسی کرپشن کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی قیادت کا خلا پیدا ہو چکا ہے جوکسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ ادھر دنیا کی چھ بڑی طاقتوں نے ایران کی مشرق وسطیٰ میں بالا دستی قبول کر لی ہے۔ گزشتہ برس فعال ہونے والی چاہ بہاربندگاہ تیزی سے کام کر رہی ہے اور بھارت اس پر اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں اقتصادی راہداری منصوبے کے صرف بینڈ بجائے جا رہے ہیں، ابھی تک ہم یادداشتوں کے سحر سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔ آصف علی زرداری ، وفاق کے نادان مشیر اور ایم کیوایم کراچی آپریشن کو سیاست کی نذرکرنے کے لئے میڈیاکا سہارا لے رہے ہیں۔ عزیر بلوچ ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا، منظور قادر عرف کاکا ملک سے فرار ہو چکا ہے اور علی حسن زرداری اربوں روپے کی مبینہ بدعنوانی کے الزام کی زد میں ہے۔ گویا حکومت ریڈ زون میں داخل ہو چکی ہے کیونکہ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ساتھیوں میں ایسے نام نہاد رہنما شامل ہیں جو پاکستان کی اربوں ڈالرکی رقوم بیرون ملک پہنچا چکے ہیں اور اپنے مفادات کے بچاؤ کے لئے ملک کو بحران میں مبتلا کر رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف ہر اس ملک کا دورہ کر رہے ہیں جہاں انہیں پاکستان میں دہشت گردی اور مالی لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کا کھوج مل رہا ہے۔ عسکری قیادت ان عناصر کو دبئی، لندن اور دوسرے ممالک سے پکڑکر عوام کی عدالت میں پیش کرنے میں مصروف ہے۔ میگاکرپشن کے خلاف مہم اس اندازسے چلا یا جا رہا ہے کہ آصف زرداری اور ان کے حواری عوامی ہمدردیاں حاصل نہ کر سکیں۔ ایم کیو ایم کو اپنے جرائم پیشہ ساتھیوں کی فہرست رضاکارانہ طور پر افواج پاکستان کو فراہم کر دینی چاہئے۔ پاکستان میں اب مہاجر کے نام پر سیاست کرنے کا وقت گزر چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں