"KDC" (space) message & send to 7575

عسکری اعلامیہ آئین کے عین مطابق ہے!

گڈ گورننس کے حوالے سے حکومتی پوزیشن عوامی امنگوں کے برعکس ہے۔گڈ گورننس کے حق میں جو دلائل سامنے آ رہے ہیں وہ 1985ء سے حکومت کا دفاع کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست کے تمام آئینی ادارے ایک ہی مشن کا حصہ ہیں جن کے مُتعین دائرۂ کار کی آئین میں صراحت کر دی گئی ہے، ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دیکھنا مناسب نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے31 جولائی2009 ء کو اپنے فیصلے میں واضح کر دیا تھا کہ افواج پاکستان مملکت کے وسیع تر مفاد میں آئین کے آرٹیکلز پر عمل کروانے کی مجاز ہیں۔ پاکستان کی بیڈ گورننس سے امریکہ ، چین اور دوسرے دوست ممالک میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اس پس منظر میں جنرل راحیل شریف کا دورۂ واشنگٹن کئی حوالوں سے اہم ہے کیونکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے نزدیک وہی پاکستان کی سب سے فعال قوت ہیں اور تمام معاملات پر ان کی گرفت مضبوط ہے۔ پاکستان کے کابل، نئی دہلی اور واشنگٹن کے ساتھ تعلقات نازک سطح پر ہیں، اس صورت حال میں جنرل راحیل کے اہم دورۂ امریکہ کے موقع پر گورننس کے حوالے سے حکومت کا بیان درست نہیں تھا۔ ملک کے عوام عمدہ طرز حکمرانی کے خواہاں ہیں اور اس حوالے سے آئی ایس پی آر کا اعلامیہ 98 فیصد عوام کی سوچ کا عکاس تھا۔
ہمارے ہاں برسوں سے جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ بیڈ گورننس کی آڑ میں مختلف مافیاز بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کراچی میں بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو نذر آتش کیا گیا جس میں تقریباً پونے تین سو افراد زندہ جل گئے۔ ماڈل ٹاؤن لاہور میں چودہ افراد کو قتل کر دیا گیا۔ پارلیمنٹ کی ہیومن رائٹس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پولیس کے حوالے سے سب سے زیادہ بربریت پنجاب میں ہو رہی ہے۔ سول انتظامیہ کی حالت یہ ہے کہ بھارتی شہر امرتسر میں میٹرو 9 ارب روپے جبکہ لاہور میں 30 ارب روپے سے تعمیر ہوتی ہے۔ ہمارے سرکاری محکموں کا ڈھانچہ ناکارہ ہو چکا ہے۔ نندی پور پروجیکٹ کے بارے میں ہوشربا انکشافات ہوئے تاہم وزیر اعظم نے اپنے بھائی وزیر اعلیٰ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ملک کی لوٹی ہوئی دولت سے خلیجی ممالک میں بڑے پیمانے پر کاروبار کیا جارہا ہے۔ ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے باعث ملک آگے جانے کی بجائے پیچھے جارہا ہے۔ 1962ء میں سابق صدر ایوب خان نے جرمنی کو بارہ کروڑ روپے قرضہ دیا تھا، آج جرمنی کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں!
شنید ہے کہ وزیر اعظم امریکہ میں قیام کے دوران ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں آگئے اور وہاں پاکستان نژاد با اثر دانشوروں نے ان میں لبرل ازم کی روح پھونک دی۔ یہ وہی نواز شریف ہیں جنہوں نے1997ء کے انتخابات میں دو تہائی سے زیادہ مینڈیٹ حاصل کر کے ملک میں سعودی عرب کی طرز پر حکومت قائم کرنے کے لیے آئین میں 15 ویں ترمیم پیش کی تھی جبکہ لگتا ہے کہ2013ء کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کے ناکام ہونے پر ان کے خاندان میں نوجوان گروپ کے ایما پرروشن خیال لیڈر شپ تشکیل دینے کی خواہش نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی دوستی کے سفیر بننے کے لیے نظریۂ پاکستان کی روح سے بھی انحراف کر چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کے عسکری اعلامیہ پر رد عمل سے ایک تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ اس جواب شکوہ کے مضمرات اور قانونی پہلوئوں کے علاوہ اس کی ٹائمنگ بھی محل نظر ہے۔ اس سے سول ملٹری تعلقات میں توازن کا پہلو متاثر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ گورننس کے حوالے سے فوجی ترجمان کی بات آئین کے مطابق درست تھی لیکن اس پر سول حکو مت کے ایوان میں خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔ وفاقی حکومت کو احساس ہونا چاہیے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج اپنے سیاسی عزائم کو آگے نہیں بڑھا رہی۔ اسے یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ گورننس پر فوج اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس عوام کی ترجمانی کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے گورننس کے دعووں پر سوالیہ نشان سامنے آ رہے ہیں۔ وفاقی وزراء کی کارکردگی کا معاملہ ہو یا حکومتی ایما پر سول افسروں کے رولز آف بزنس کے تحت ذمہ داریاں ادا کرنے کی بات، گڈ گورننس کے دعوے فریب کے سوا کچھ نہیں۔ 
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے عظیم منصوبوں کو مثال بنانا چاہیے۔ یہ ٹرسٹ ایک سال میں دس ہزار سند یافتہ آئی ٹی ٹیکنالوجی کے فارغ التحصیل طلبہ کو نہ صرف خوشحال بنانا چاہتا ہے بلکہ سالانہ اربوں ڈالر کے زر مبادلہ کے ذریعے معیشت کومستحکم کرنے کا بھی خواہاں ہے۔ ان دنوں ملک میںاس ویلفیئر ٹرسٹ کے کار ہائے خیر کی شہرت ہے۔ یہ بہبود کا بین الاقوامی ادارہ ہے جو درجنوں شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے بانی فقیر منش انسان ہیں۔ وہ ملک و قوم کی ترقی کے لیے تنہا میدان میں نکلے تھے مگر اب اہل خیر کی بڑی تعداد نے بھی ان کے ٹرسٹ کو کامیاب بنانے کے لیے بھرپور تعاون شروع کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام وفاقی و صوبائی حکومتوں اور اپوزیشن سے نا امید ہو چکے ہیں۔ جو نیک افراد ملک کی ترقی کے لیے میدان میں نکلے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہر صاحب ثروت کا فرض ہے۔ اس وقت لاکھوں ضرورت مند افراد اس ویلفیئر ٹرسٹ سے مستفید ہو رہے ہیں۔ غریب عوام جو ق در جوق اس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ حقیقت سچ ثابت ہو رہی ہے کہ اگر کوئی کار خیر نیک نیتی سے شروع کیا جائے اور اس میں ذاتی نمود و نمائش مقصود نہ ہو تو اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے۔ یہ ویلفیئر ٹرسٹ پوری دنیا میں کا م کر رہا ہے۔ اس کے بانی مولانا بشیر فاروق قادری کے بزرگ حضرت بابا ذہین شاہ تاجیؒ نے 14 اگست 1973ء کی آئین ساز اسمبلی میں دستور پاکستان کے نفاذ کے وقت اس وقت کے صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر خصوصی دعا کروائی تھی۔ اس روحانی بزرگ کی دعا کا اثر ہے کہ یہ دستور دو مارشل لا ادوار میں محفوظ رہا اور اب بھی فیڈریشن کی مضبوطی کی علامت ہے۔ 
راقم الحروف نے بطور پروٹوکول افسر حضرت بابا ذہین شاہ تاجیؒ کی خصوصی معاونت کی تھی، قومی اسمبلی کی یادگار اور تاریخی تقریب میں ان کے ہمراہ رہا۔ میرا مشورہ ہے کہ وفاقی حکومت کے نظم و نسق سے متعلق اداروں بالخصوص ایڈمنسٹریٹو کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شرکا کے لیے ویلفیئر ٹرسٹ کے اداروں کا دورہ کورس کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ انہیں گڈ گورننس دیکھنے کا موقع میسر آئے۔ حکومت اربوں روپے پروٹوکول اور حکمران جماعت کی تشہیرپر ضائع کر رہی ہے، اگر یہی رقم عام آدمی کی حالت بدلنے پر خرچ کی جائے تو ملک میں گورننس کے حوالے سے انقلاب آجائے اور عسکری اداروں کو پریس ریلیز جاری نہ کرنا پڑے۔ خلفائے راشدین کی درخشندہ مثالیں تو سب جانتے ہیں، کہ قحط کے دنوں میں خلیفۂ وقت کمر پر بوری رکھے غریبوں کے گھر اناج پہنچاتے اور کہتے تھے کہ اگر ان کے ہوتے ہوئے لوگ بھوک سے مر گئے تو خدا کو وہ کیا منہ دکھائیں گے۔ اس کے بر عکس ہمارے وزیر اعظم تاشقند جاتے ہوئے دو گھنٹے فلائٹ میں گزارتے ہیں تو ان کے لیے درجنوں ڈشوں پر مشتمل کھانا تیار کیا جاتا ہے۔ حکمران عوام کی حالت زار پر دھیان نہیں دیتے۔ ایک طرف میڈیا میںکرپشن کی ہوش ربا خبریں آ رہی ہیں اور وزیر اعظم صاحب اپنی ہر تقریر میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے بچا لیے ہیں۔ گویا وہ قوم پر احسان جتاتے ہیں کہ اگر چاہتے تو یہ اربوں روپے ادھر ادھر کر سکتے تھے۔ وہ ملک کے انوکھے وزیر اعظم ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ اگر چاہتے تو اربوں روپے جیب میں ڈال لیتے اور کسی کو پتا نہ چلتا۔ 
نیلم جہلم ، نندی پور، یورو بانڈز پاکستانی تاریخ کے بد ترین سکینڈل ہیں جن پر حکومتی ادارے خاموش ہیں اور صدر مملکت بھی جو فیڈریشن کے آئینی محافظ ہیں، خواب غفلت سے نہیں جاگ رہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام سے وابستہ اس دور کے دو بڑے سکینڈلز ہمیشہ غریب عوام یاد رکھیں گے۔۔۔۔یورو بانڈز اور آئی پی پیز کو راتوں رات کی گئی 480 ارب روپے کی ادائیگی۔جس کی وجہ سے آڈیٹر جنرل رانا بلند اخترکوبر طرف کروایا گیا تھا، لیکن اب آڈٹ رپورٹ بتا رہی ہے کہ اس مکروہ دھندے میں 190 ارب روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں