"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری اور اسمبلیوں کی نشستیں

قومی مردم شماری کسی بھی ملک میں ہر قسم کی معاشی اور سماجی منصوبہ بندی کے لئے ناگزیر ہوتی ہے۔ منتخب ایوانوں میں عوامی نمائیندگی کے لئے اسی کی بنیاد پر انتخابی حلقے تشکیل پاتے ہیں، عوامی مفاد کے تمام اقدامات کے لئے مردم شماری سے حاصل ہونے والی معلومات کلیدی کر دار ادا کرتی ہیں، اسی لئے آئین کی روسے پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری ضروری ہے اور اس کا اہتمام کیا بھی جاتا رہا ہے۔ملک میں مردم شماری 1961,ء1951ء 1982,ء اور1998ء میں ہوئی تھی جس کے بعد 2008 ء میں ہونی چاہئے تھی۔برطانوی ہند میں1911ء 1921,ء 1931, ء اور 1941 ء میں باقاعدگی سے مردم شماری ہوتی رہی اور اس کے نتیجہ میں برطانوی ایکٹ 1911ء کے تحت ہندوستان میں جداگانہ انتخاب کا طریقہ رائج ہوا تھا۔ اسی نظریہ کو لے کر علامہ اقبالؒ نے 1930ء میںاپنے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کا خاکہ پیش کیا تھا اور قرار داد لاہور بھی اسی نتیجے کو عملی شکل دینے کے لئے منظور کی گئی تھی۔ جولائی 2009 ۔2008 ء میں مردم شماری کے خدوخال تیار کر لئے گئے تھے لیکن وفاقی حکومت کوبتایا گیا کہ اس قومی مردم شماری کے نتیجے میں سندھ میں دیہی علاقوں کی صوبائی نشستیں شہری علاقوں میں منتقل ہونے کے امکانات ہیں۔ اس طرح پیپلز پارٹی کو سندھ میں اپنے وزیر اعلیٰ سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، لہٰذا امن و امان کی صورت حال کی خرابی کا بہانہ تراش کر مردم شماری کو مؤخر کر دیا گیا، حالانکہ زمینی حقائق اس کے بر عکس تھے۔ مردم شماری کے لئے خانہ شماری کا آغاز 
بھی 2010ء میں ہو گیا تھا اور خانہ شماری کی مہم کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی کہ وفاقی حکومت نے اس پروجیکٹ کو مؤخر کر دیا۔ پنجاب اور سندھ میں اس کا رد عمل مصلحت کا شکار ہو گیا اور متحدہ قومی موومنٹ نے بھی مؤثر احتجاج نہیں کیا۔ اب حکومت نے ملک میں چھٹی مردم شماری مارچ کے مہینے میں کرانے کا عزم کیا ہے اور ابتدائی نتائج اسی سال جون کے مہینے تک مکمل کر لئے جائیں گے، جب کہ ضلع وار معلومات کے مرتب کئے جانے سمیت مردم شماری کے دوسرے پہلوؤں پر کام دسمبر 2017 ء تک تکمیل پائے گا۔ مردم شماری سے حاصل ہونے والی معلومات مرتب کرنے میں اگرچہ عمومی طریقہ کار کے تحت تین سال کی مدت درکار ہوتی ہے لیکن حکومت 2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے یہ کام پورا کر لینے کی خواہاں ہے، لہٰذا اگر دسمبر 2017 ء میں تمام معلومات مرتب کر لی جائیں تو سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ان معلومات کو انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے لئے وقت کی کمی کا مسئلہ ضرور پیش آئے گا۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس وقت اقلیتوں کی نشستوں میں اضافے اور صوبوں‘ بالخصوص بلوچستان کی نمائندگی سے متعلق جو بل زیر التوا ہیں‘ ان معلومات کی عدم دستیابی ہی کی وجہ سے مؤخر کئے گئے ہیں۔ مردم شماری سے اندرون ملک نقل مکانی، دیہی اور شہری آبادی کا درست تناسب، شہروں کو منتقلی کے رجحان نیز ملک کے مختلف حصوں میں بڑی تعداد میں مقیم غیر ملکی باشندوں کے حوالے سے قابل اعتماد اعداد و شمار سامنے آئیں گے، نیز انتخابی حلقوں کی حد بندی بھی درست طور پر ہو سکے گی جو آئین کے آرٹیکل 224 کے مطابق آئینی تقاضا ہے۔بعض سیاسی جماعتیں اور فیڈریشن گریز سیاسی حلقے اپنی پسند اور ایماء پر کروانے کے لئے مردم شماری مرحلہ وار کرانے پر زور دے رہے ہیں تاکہ مردم شماری کے وقت ایک حلقے سے دوسرے حلقوں میں آبادی کا تبادلہ کرتے رہیں۔ 
دنیا بھر میں یہی طریقہ رائج ہے اور قابل اعتباراعداد و شمار کے حصول کے لئے اسے ضروری سمجھا جا تا ہے۔ ترکی میں مردم شماری کے لیے ایک ہی دن کا تعین کر کے ملک بھر میں ایک دن کا کرفیو لگا دیا جاتا ہے تاکہ صحیح ، غیر جانبدار اور شفاف مردم شماری ہو سکے، کیونکہ اس طریقہ کار میں سیاسی یا دیگر مفادات کے لئے لوگوں کا ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں منتقل ہو کر اعداد و شمار پر اثر انداز ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ملک میں 17 سال کی طویل مدت کے بعد ہونے والی اس مردم شماری کو ہر لحاظ سے معتبر بنانا وفاقی حکومت کے لئے ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئے مردم شماری کے وفاقی ادارے میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے افسران پر نگاہ رکھنی ہوگی کیونکہ مردم شماری کے عمل کو تمام سیاسی اور گروہی مقاصد اور شکوک و شبہات سے پاک رکھنا ضروری ہے تاکہ حاصل ہونے والے نتائج پوری طرح درست ہوں اور اس کی بنیاد پر ہر شعبۂ زندگی کے لئے قومی مفادات کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جا سکے۔
نئی مردم شماری قومی اسمبلی میں صوبوں کی موجودہ نشستوں میں ردو بدل کا موجب بنے گی اور اس کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں، محض پارلیمنٹ سے ایک قانون کی منظوری درکار ہوگی۔آئین کے آرٹیکل 222 کی شق 5 کے مطابق ہر صوبے ، فاٹا اور وفاقی دارالحکومت کے لئے قومی اسمبلی کی نشستیں مختص کی جائیں گی کیونکہ آرٹیکل 222 کے مطابق صوبوں کے لئے مختص نشستوں میں ردو بدل پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعے نئی مردم شماری میں آبادی کے ریکارڈ میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی بنیاد پر ہی ہو گا۔اس کا مطلب یوں بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دیہی آبادی کے شہروں میں منتقل ہو جانے کی وجہ سے کسی صوبے کی نشستیں کم بھی ہو سکتی ہیں اور وفاق کی نشستیں کسی اور صوبے یا ضلع کوتفویض بھی ہو سکتی ہیں۔1987 ء میں حلقہ بندی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن فاٹا اور چند اضلاع کی نشستیں کم کر کے پنجاب اور کراچی کو تفویض کرنے کی حکمت عملی پر کام کررہا تھا اور فا ٹا کی 8 نشستوں میں سے پانچ نشستیں مختلف اضلاع کو تفویض کرنے کا منصوبہ بن چکا تھا کہ فاٹا کے ارکان اسمبلی نے صدر غلام اسحاق خان کو رات گئے جگانے پر مجبور کر دیا اور صدر اسحاق کی مداخلت کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر کے وضاحتی بیان کی پریس ریلیز راقم الحروف کے دستخط سے جاری ہوئی تھی۔ اس وقت کی ایڈیٹر دی مسلم ‘ملیحہ لودھی اس کی عینی شاہدہیں‘ کیونکہ راقم الحروف نے پریس ریلیز کو نمایاں طور پر شائع کرنے کے لئے ان کو اعتماد میں لیا تھا۔ اس وقت قومی اسمبلی میں بلوچستان کی 14 ، خیبر پختون خوا کی 35 ، پنجاب کی 148 ، سندھ کی 61 ، فاٹا کی 12 اور وفاقی دارالحکومت کی دو نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 272 ہے۔ مئی2002 ء میں حلقہ بندیوں کے مرحلے پر قومی تعمیر نوکے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستوں میں بغیر کسی دلیل اور منطق کے خاطر خواہ اضافہ کر دیاگیا اور خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کے لئے آئین کے آرٹیکل 226 کی صریحاً خلاف ورزی کر تے ہوئے نشستوں میں اضافہ کر کے سیاسی توازن ہی درہم برہم کر دیاگیا۔ میری دانست میں پارلیمنٹ کے ارکان کی تعداد میںاضافہ مردم شماری 1998ء کی روح کے مطابق نہیں ہوا تھا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں