"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کا التوا، سندھ کی سیاست اور شرمین عبید

مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں مردم شماری کو ملتوی کر دیا اور جواز پیش کیا کہ افواج پاکستان دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور تعلیمی اداروں کا سٹاف امتحانات لینے میں مصروف ہیں، اس لئے فی الحال مردم شماری نہیں کروائی جا سکتی۔ واضح رہے کہ آئین کے مطابق ملک میں ہر دس سال بعد مردم شماری اور خانہ شماری کی جانی چاہئے، لیکن گزشتہ 18سال سے ملک کے سیاسی افق پر ہیجان کی کیفیت طاری ہونے کی وجہ سے مردم شماری نہیں کروائی جا سکی۔ جمہوری معاشروں میں مردم شماری سے ملک کی آبادی بڑھنے یا کم ہونے کا اندازہ کیا جاتا ہے اور اس کی بنیاد پر عوامی نمائندگی کے اداروں میں نشستوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر معاشی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی 13کروڑ 64 لاکھ تھی۔ اس کے بعد2015 ء تک اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا تاہم گزشتہ برس کے سروے کے مطابق پاکستان کی آبادی 19کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ 18سال مردم شماری نہ کرانے کے کئی سیاسی پہلو بھی ہیں۔ صوبے مردم شماری کے لئے اس وجہ سے آمادہ نہیں ہوتے کہ وفاق کی جانب سے صوبوں کو ملنے والے فنڈز اور مراعات آبادی کی شرح سے کم یا زیادہ ہوتی ہیں اورکوئی صوبہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے فنڈز پہلے سے کم ہو جائیں۔ آبادی کے نئے اعداد و شمار آنے سے نئی حلقہ بندیوں کے باعث ووٹ بھی تقسیم ہو جاتے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے لئے بالعموم ناقابل قبول ہوتی ہے۔ دراصل سیاستدان مردم شماری کے حساس معاملات کو تنگ نظری سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر کسی صوبے کی آبادی بڑھ گئی تو وہ نیشنل فنانس کمیشن کے تحت وفاق سے زیادہ بجٹ مانگے گا، قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں بھی تبدیلی آئے گی۔ مردم شماری بھی صوبائی خود مختاری جیسا معاملہ ہے، اس لئے حکومت یہ عمل نہ کروانے کے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ لگتا ہے مردم شماری کروانے کے لئے بھی سپریم کورٹ کو ہی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اس وقت حکومت نہیں جانتی کہ ملک کی آبادی کتنی ہے، جب حکومت کو ملکی آبادی کا ہی علم نہیں ہوگا تو وہ سوشل اکنامک پلاننگ کیسے کرے گی؟ صوبوں کو اختیارات اور وفاقی رقوم کا فیصلہ بھی مردم شماری کے اعداد و شمار کریں گے۔ قومی اسمبلی میں نمائندگی، این ایف سی ایوارڈ میں حصہ اور وفاق میں ملازمتوں کے مواقع بھی مردم شماری سے منسلک ہیں۔
سندھ حکومت کو خدشہ ہے کہ مردم شماری سے ان کے صوبے کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں متاثر ہوںگی۔ گویا سیاسی مفادات کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ افغانستان ، بنگلہ دیش، برما، سری لنکا اور فلپائن کے مہاجرین کا نام لے کر اس میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو بظاہر مردم شماری پرکوئی اعتراض نہیں۔ افواج پاکستان کی نگرانی کے بغیر مردم شماری کا تصور محال ہے مگر آرمی کی ضرب عضب کی وجہ سے اپنی مجبوریاں ہیں، اس لئے یہ عمل مزید چھ ماہ موخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر مردم شماری کو اس سے زیادہ آگے بڑھا دیا جائے تو اس صورت میں حکومت کے اعتماد کو زک پہنچے گی۔ 
مردم شماری جب بھی ہو اس کے نتائج کو اس وقت تک پوشیدہ رکھنا ہوگا جب تک تمام اکائیوں کے اعداد و شمار جمع نہ ہو جائیں۔ آج کل وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور کی آبادی ایک کروڑ اور وزیر اعلیٰ سندھ کراچی کی دو کروڑ بتا رہے ہیں جو حقائق کے بر عکس ہیں۔
بعض سیاسی جماعتیں مفروضوں اور امکانات کو لے کر رد عمل کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور نبیل گبول کو رینجرز کی طرف سے طلب کرکے ان کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے بعض دیگر رہنماؤں بشمول شرجیل میمن کو بھی رینجرز بلا سکتی ہے۔ عزیر بلوچ کے بیانات کی روشنی میں بھی مزید کارروائی کی جا سکتی ہے۔ سندھ کے سیاسی حلقوں میں خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بعض ارکان سندھ اسمبلی اپنا الگ گروپ تشکیل دیے رہے ہیں جن کی تعداد25 کے لگ بھگ ہے اور بیشتر کا تعلق بالائی سندھ سے ہے۔ اگر یہ ارکان الگ گروپ تشکیل دے دیتے ہیں تو پیپلز پارٹی کی سندھ اسمبلی میں اکثریت ختم ہو جائے گی جس کے بعد سندھ میں سیاسی تبدیلیوں کا آغاز ہو جائے گا۔ اس مرحلے پر ایم کیو ایم کا کردار بہت اہم ہوگا کیونکہ اس کے سندھ اسمبلی کے 168کے ایوان میں 52 ارکان ہیں۔ لیکن مصطفیٰ کمال کی آمد اور ان کی طرف سے اپنی علیحدہ پارٹی تشکیل دینے کی وجہ سے ایم کیو ایم کی سیاسی طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
پاکستان میںشرمین عبید چنائے کی ڈاکو منٹری فلم کو آسکر ایوارڈ ملنے کو ہدف تنقید بنایاجا رہا ہے، وہ اس کا میابی کو بین الاقوامی سازش قرار دے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ امریکہ نے گزشتہ دس برسوں میں 13ارب ڈالر کی خطیر رقم پاکستان کی مختلف این جی اوزکے 80 ہزار افراد کو دی جو سماجی سرگرمیوں، کاروبار، ڈاکومنٹری فلموں کی تیاری اور مفاد عامہ کے اشتہارات کے لئے تھی۔ شرمین عبید پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے پاکستان کی منفی تصویر پیش کر رہی ہیں۔ یہ الزام کسی حد تک درست ہو گا لیکن ملک میں خواتین کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کے پیش نظر ایسی فلمیں تیار کرنا ہوں گی۔ شرمین، ملالہ اور ڈاکٹر نرگس جیسی خواتین پاکستان کے محسن ہیں کیونکہ یہ دنیا میں یہ ثابت کر رہی ہیں کہ پاکستان ناکام ریاست نہیں ہے۔ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہے۔ ہم قائد اعظم ، لیاقت علی خان، فاطمہ جناح کے علاوہ دوسرے مشاہیر کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اگر شرمین عبید چنائے نے پاکستان کی نظریاتی روایات کو منفی انداز میں پیش کر کے آسکر ایوارڈ حاصل کیا تو اس صورت میں ان پر نکتہ چینی بر محل ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص پاکستان کی نظریاتی اساس اور اس کے امیج کو منفی انداز میں پیش کرنے پر تیار ہوجائے تو اس پر غیر ملکی فنڈز کی بارش ہونے لگتی ہے۔ شرمین عبید کی پاکستان کے حوالے سے بڑی خدمات ہیں، لیکن غیر ملکی ڈونرز نے انہیں اس لئے ڈالرز سے نوازا کہ وہ ان کی فلم کے حوالے سے پاکستان کے امیج کو عالمی سطح پر نقصان پہنچاسکیں۔ زمینی حقائق کے اعتبار سے شرمین عبید چنائے کو ملک میں رہ کر اپنی تنظیم کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لئے قانون سازی کی مہم چلانی چاہئے تھی، فلم میں پاکستان کا امیج جس انداز سے پیش کیا گیا وہ قابل ستائش نہیں ہے۔
اس ڈاکومینٹری میں یہ کہنا کیوں ضروری تھا کہ پاکستان دہشت گردی برآمد کرتا ہے، ممبئی سانحے میں پاکستان ملوث تھا، پاکستان کی نئی نسل طالبان ہے اور پاکستان ایک خطرناک ملک ہے۔ بظاہر وزیر اعظم بھی سیکولر ذہن رکھنے والے دانشوروں کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں مذکورہ ہرزہ سرائی کرنے پر فلم ساز کے خلاف مقدمہ دائر کرنا چاہئے تھا۔ نقادوں کے مطابق شرمین عبید چنائے نے امریکہ سے کروڑوں روپے کے فنڈ حاصل کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف سازش کی۔ فلم جناح بنانے میں پاکستان کے دانشور بیورو کریٹ اکبر ایس احمد سے بھی نا دانستہ غلطی ہوگئی تھی۔ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے منسوب چند ایسے فقرے فلم میں شامل کر دیئے تھے جن سے پاکستان کا تصور دھندلا گیا تھا۔ اس فلم کے پریمیئر شو میں جب میں نے یہ منظر دیکھے تو سینئر صحافی ضیاء شاہد کی توجہ مبذول کرائی، انہوں نے قلمی جہاد کے ذریعے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر کے وہ متنازعہ ریمارکس فلم سے خارج کروا دیئے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں