"KDC" (space) message & send to 7575

حکومت کو حساس چیلنجز کا سامنا

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے ملک میں مردم شماری میں مسلسل تاخیر پر از خود نوٹس لے کر ایک ایسے آئینی تقاضے کی تکمیل کے لئے قدم اٹھایا ہے جس کے بغیر قومی زندگی کے کسی بھی شعبے اور انسانی وسائل کی تعمیر و ترقی کے لئے درست منصوبہ بندی ممکن نہیں۔ مردم شماری کے بغیر ملک کے مختلف حصوں کی آبادی کی معاشی ، سماجی اور تعلیمی ضروریات کی تعین ہو سکتا ہے نہ سیاسی و جمہوری عمل درست طور پر جاری رہ سکتا ہے کیونکہ اس کے لئے درست انتخابی حلقہ بندیاں لازمی ہیں، جن کی بنیاد مردم شماری ہے، مردم شماری کی یہی اہمیت ہے جس کی بنا پر دنیا کے بیشتر ملکوں میں عموماًہر دس سال کے بعد اس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہوتا رہا ؛تاہم 1998 ء کے بعد سے اب تک ملک میں کوئی مردم شماری نہیں ہو سکی ہے، دس سال کی مدت کے حساب سے 2008 ء میں مردم شماری کرائی جانی چاہئے تھی لیکن حکومت کی بد نیتی اس میں رکاوٹ بنی رہی اور حکمران جماعت کو خدشہ تھا کہ نئی حلقہ بندیوں کے دوران اور مردم شماری کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد بعض اضلاع کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں ردو بدل کا خدشہ تھا اور کراچی کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے 27 صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کے امکانات موجود تھے جس کی وجہ سے ایم کیو ایم اپنا وزیر اعلیٰ باآسانی سے لانے میں آئینی طور پر کامیاب ہو جاتی ۔ لہٰذا امن و امان کی ابتر صور حال کا سہارا لے کر مردم شماری کو مؤخر کر دیا گیا۔ تاہم موجودہ حکومت نے بھی اپنے اقتدار کے پہلے تین سال ضائع کروا دیئے اور امن و امان ، ضرب عضب کی وجہ سے موثر اقدامات کے بعد اسی سال مارچ کے مہینے میں وزیر اعظم کے زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ رواں سال مردم شماری کرا لی جائے گی لیکن نہ صرف یہ کہ اسی حوالے سے مزید کوئی پیش رفت ہوئی بلکہ یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ مردم شماری کو اگلی مدت کے لئے ملتوی کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جس کی بناء پر چیف جسٹس نے معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس نے معاملے کی کھلی عدالت میں سماعت کا فیصلہ کیا ہے اور فریقین سے وضاحت مانگی ہے کہ ملک میں 18 سال سے مردم شماری کیوں نہیں ہوئی ؟ اور اب اسے مزید مؤخر کیوں کیا جا رہا ہے؟ سابق اور موجودہ حکومتوں نے مردم شماری اور لوکل گورنمنٹ کے بارے میں جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے وہ آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔
لندن سے علاج کے بعد واپسی پر کئی سیاسی، انتظامی، خارجہ امور کے چیلنجز وزیر اعظم کے سامنے کھڑے ہیں، وزیر اعظم کے لئے پہلا چیلنج پانامہ لیکس کے میگا کرپشن کا سامنا ہے، ان کے لئے دوسرا بڑا چیلنج الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری تھی جو عمل میں آ چکی ہے۔یہ معاملہ بہت حساس اور اہم تھاکیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انہی ارکان نے آئندہ کے قومی انتخابات بھی کروانے ہیں اور حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ انتخابی فہرستوں کو بھی از سر نو ترتیب دینا ہے، الیکشن کمیشن کے غیر جانبداراور اور غیر متنازعہ ارکان کی تقرری وزیر اعظم کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا۔ نواز شریف کے لئے تیسرا بڑا چیلنج ان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے دائر کردہ ریفرنسز جن کے تحت ان کی آرٹیکل 63 کی روسے نااہلی کے واضح ثبوت موجود ہیں، ان سے بچنا ہوگا ۔ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک نواز شریف اور شریف خاندان کے دیگر ارکان پارلیمنٹ کی نا اہلی کے لئے الیکشن کمیشن میں ریفرنسز دائر کر چکی ہے اور الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 63(2) کے تحت اپنے اختیارات کو بروئے کار لانا ہوں گے کیونکہ الیکشن کمیشن کی پارلیمنٹ پر بالا دستی حاصل ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ہی ان کی اہلیت و نا اہلیت کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔
بادی النظر میں ان ریفرنسز کا اگر آئین وقانون کے مطابق جائزہ لیا جائے تو وزیر اعظم نواز شریف اور اسحاق ڈار کے خلاف
مضبوط بنیادوں پر بمع شواہد ریفرنسز داخل کئے گئے ہیں اور ارکان کمیشن کو اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لئے اور ملک کے سیاسی پس منظر کی روشنی میں فیصلہ کرنے ہوں گے، اسی طرح اگر عمران خان نے لندن سے لاہور آنے کے لئے پی آئی اے کے اخراجات جو غالباً پانچ کروڑ روپے بتائے جاتے ہیں کا ریفرنس سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کر دیا گیا تو نیا پنڈورا بکس کھل جانے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ وزیر اعظم کے کیمپ آف کو لندن منتقل کرانے کے لئے باقاعدہ نوٹیفکیشن کا ہونا رولز آف بزنس کے تحت لازمی ہے، جب چیف الیکشن کمشنر (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنا کیمپ آفس کراچی تبدیل کرایا تو اس کی باقاعدہ منظوری نگران وزیر اعظم سے حاصل کی گئی تھی، اسی طرح وزیر اعظم کے لئے بھی ان کے نادان دوستوں کی وجہ سے پریشانی لاحق ہونے کا خطرہ ہے اور اس طرح قومی خزانے پر جو پانچ کروڑ روپے کا بوجھ پڑا ہے، اس کے بارے میں سپریم کورٹ آف پاکستان اندراگاندھی کیس کی روشنی میں فیصلہ کر سکتی ہے جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنے ذاتی استعمال کے لئے ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا اور محض چالیس ہزار روپے کے اخراجات کی بناء پر وزیر اعظم اندرا گاندھی کو نا اہل قرار دے دیا گیا تھا اور یہاں تو وزیر اعظم نے ملکی خزانے کو پانچ کروڑ روپے کا خرچہ کروایا
ہے اور کیمپ آفس کے بارے میں رولز آف بزنس کی خلاف ورزی کی گئی ، وزیر اعظم کے لئے پانچواں چیلنج آزاد کشمیر انتخابات میں کامیابی سے جہاں انتخابی مہم جاری ہے اور کئی ایک خون ریز ہنگامے بھی برپا ہو چکے ہیں اور فوج کی نگرانی میں آزاد کشمیر کے انتخابات سے ہم بھارت کو کیا جواب دیں گے کہ وہاں بھی افواج کی نگرانی میں انتخابات ہوتے ہیں جو متنازع ہی رہے اور پاکستان کے آزاد خطے میں بھی انتخابات افواج پاکستان کی نگرانی میں کرائے جاتے ہیں اور ناکام ہونے والی سیاسی جماعتیں ان انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی جس کی وجہ سے افواج پاکستان بلا وجہ تنقید کی زد میں آجائے گی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے نئے آرمی چیف کی تقرری کا اہم فیصلہ بھی کرنا ہے کیونکہ جنرل راحیل شریف اس سال نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور افواج پاکستان بھی شش و پنج میں ہے کہ ان کے چیف کے تقرر اسی وزیر اعظم کے ذریعے ہونا ہے جو پانامہ لیکس کے حوالے سے بھی اور 1985 ء سے اب تک اپنے اثاثوں کے بارے میں متنازعہ ہوتے ہوئے ان کے خلاف ریفرنسز پاکستان کے آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں دائر کئے ہوئے ہیں، یہ بہت ہی نازک اور حساس معاملہ ہے اور افواج پاکستان نے ان تمام کوائف کو بھی مدنظر رکھنا ہے اور پانامہ لیکس کے لئے ٹرمز آف ریفرنسز تیار کئے جا رہے ہیں اور معاملہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانے سے وزیر اعظم اخلاقی طور پر امانت و خیانت کے گرداب کے بھنور میں پھنس جائیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں