"KDC" (space) message & send to 7575

مردم شماری کے لوازمات اور اثرات

پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ آئین کی روح کو 8 ویں ترمیم کے ذریعے بے توقیر کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہماری ناعاقبت اندیش لیڈر شپ نے اس ترمیم کو اپنے مفادات کے تحت برقرار رکھا اور 18ویں ترمیم کے ذریعے بھی اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قوم کے سامنے اصل آئین کی بحالی کے دلفریب دلائل آج تک پیش کرتے آ رہے ہیں۔ 1973ء کے آئین میں جنرل یحییٰ خان کے غیر آئینی اقدامات کو تحفظ دیا گیا تھا۔ 1988ء کی پارلیمنٹ نے جنرل ضیاء الحق کے تمام اقدامات کو آئین میں ہی سمو دیا۔ ہماری پالیمنٹ کو 8 ویں اور 17ویں ترامیم کو یکسر ختم کر کے از سر نو انتخابات کرواتے ہوئے جمہوریت کی اصل روح کو بحال کرنا چاہیے تھا۔
آئین کے تحت پاکستان میں ہر دس سال بعد مردم شماری کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے تاکہ ملک کی درست آبادی کا تعین کیا جا سکے اور اقتصادی ترقی کے لئے صحیح منصوبہ بندی کے علاوہ عام انتخابات کے لئے ووٹروںکی فہرستوں کی تیاری اور انتخابی حلقہ بندیوں کی تشکیل ممکن بنائی جا سکے۔ بد قسمتی سے ملک میں 1998ء کے بعد کسی نہ کسی بہانے سے مردم شماری جیسے انتہائی ناگزیر عمل کر پس پشت ڈالا جاتا رہا۔ قانونی طور پر مردم شماری1991ء میں ہونا لازمی تھی، لیکن نواز حکومت نے سیاسی مصلحتوں اور آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے میں لیت و لعل کرتے ہوئے مردم شماری اپنے دوسرے دور1998ء میں جا کر شروع کروائی جو مثالی قرار دی جا سکتی ہے۔
1991-1992ء میں مردم شماری نہ کروانے کا جواز یوں پیش کیا گیا کہ 1992ء میں کراچی، حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے خلاف جنرل آصف نواز جنجوعہ کی معاونت سے آپریشن شروع کر دیا گیا تھا اور ایم کیو ایم کے تمام ارکان پارلیمنٹ مستعفیٰ ہو گئے تھے اور الیکشن کمیشن نے بھی ایک سال کی تاخیر سے ضمنی انتخابات کرائے تھے۔
میڈیا اورعوامی حلقے اس آئین شکنی کی مسلسل نشان دہی کرتے چلے آ رہے ہیں، لیکن کسی حکومت نے اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ سپریم کورٹ نے اس غفلت کا بالآخر از خود نوٹس لیا جس کی سماعت جاری ہے۔ سپریم کورٹ نے دو ٹوک ہدایت دی ہے کہ فوج دستیاب ہو یا نہ ہو، مردم شماری 15 مارچ سے 15 مئی تک دو ماہ کے عرصے میں مکمل کرائی جائے، ورنہ وزیر اعظم کو اپنی وضاحت پیش کرنے کے لئے خود عدالت میں طلب کیا جائے گا۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ ریمارکس گونج رہے ہیں کہ حکومت کی مردم شماری کرانے کی نیت ہی نہیں، اگر مردم شماری نہیں کرانی تو آئین میں ترمیم کر لیں۔
جمہوری نظام کا دار و مدار مردم شماری پر ہوتا ہے، اس کے بغیر انتخابات کا انعقاد مذاق کے مترادف ہے۔ کسی کوعوام کی اصل تعداد معلوم نہیں اور حکومت کی پالیسیاں مفروضوں پر بن رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے آئندہ انتخابات کے بارے میں اپنی ابتدائی تیاریاں مکمل کرنی ہیںکیونکہ 1998ء اور آج کی آبادی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مردم شماری نہیں ہوگی تو نئی انتخابی حلقہ بندیاں بھی نہیں ہو سکیں گی۔ حیرت ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مردم شماری بار بار موخرکرنے کی پُر اسرار سرکاری حکمت عملی پر احتجاج ہی نہیں کیا اور نہ سپریم کورٹ جانے کی زحمت کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ صورت حال کا جوں کا توں رہنا تمام سیاسی جماعتوں کے مفاد میں ہے۔
سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس کی روشنی میں اب 15مارچ سے مردم شماری کا آغاز ہونے کا امکان ہے۔1998 ء کی مردم شماریکے مطابق پاکستان کی کل آبادی13 کروڑ 8 لاکھ57 ہزار 717 تھی۔ فرضی تخمینوں کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ اس وقت پاکستان کی آبادی 19 کروڑ 17 لاکھ 10 ہزار ہے، لیکن عام خیال ہے کہ اصل آبادی21 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس کی تصدیق باقاعدہ مردم شماری ہی سے ممکن ہے۔ مارچ2017 ء میں مردم شماری شروع ہو جاتی ہے تو اس کے لئے کم از کم دو سال کا عرصہ چاہیے۔ مردم شماری کے لئے تقریباً دو لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن اس وقت تعلیمی سیزن عروج پر ہوگا، اگر اتنی بڑی تعداد میںاساتذہ کو لیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سکول بند کر دیے جائیں۔ مارچ میں سالانہ امتحانات بھی ہوتے ہیں۔ حکومت دانستہ طور پر سپریم کورٹ میں 15مارچ کی تاریخ دے رہی ہے تاکہ وقت قریب آنے پر سپریم کورٹ میں درخواست دے دی جائے کہ امتحانات کے بعد مردم شماری کرائی جائے گی۔ جب امتحانات ختم ہوںگے تو از سر نو مردم شماری کا شیڈول جاری کرنا پڑے گا اور اسی افراتفری میں رمضان المبارک شروع ہو جائے گا۔ اصل وجوہ کو سیاستدان عوام سے پوشیدہ رکھ رہے ہیں کیونکہ مردم شماری ہوگی تو اسی کی بنیاد پر قومی و صوبائی حلقے تشکیل پائیں گے۔ انہی حلقہ بندیوں کو سامنے رکھ کر انتخابی فہرستیں مرتب کی جائیں گی۔ کراچی، جس میں 70 لاکھ کے قریب غیر ملکی آباد ہو چکے ہیں، ان کے انخلاکا مطالبہ کیا جائے گا، بلوچستان میں جو افغان تین نسلوں سے آباد ہو چکے ہیں، ان کو بھی مردم شماری میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا، جس پر بلوچ قیادت شدید تحفظات کا اظہار کرے گی اور مردم شماری کے بائیکاٹ کی روایت برقرار رکھے گی۔ ان تمام زمینی حقائق کو مد نظر رکھیں تو ممکن ہے مشترکہ مفادات کی کونسل کوئی درمیانی راہ نکالنے میں کامیاب ہو جائے۔
نئی مردم شماری کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے حلقہ بندی ایکٹ 74کی دفعہ 10کے تحت از سر نو حلقہ بندیوںکا عزم کیا تو کراچی، پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا کی موجودہ حلقہ بندیاں جو حکومت نے سیاسی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنوائی تھیں، خطرے میں پڑجائیںگی۔ اگر مردم شماری غیر جانبدارانہ طریقے سے ہوئی تو پنجاب کی آبادی 56 فیصد نہیں رہے گی اور حکمران جماعت اکثریت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ جنرل ضیاء الحق کے ایما پر بلوچستان اور پنجاب کی آبادی میں حقائق کے برعکس اضافہ دکھایا گیا تھا۔ 1998ء کی مردم شماری کے وقت بھی نواز حکومت تھی، مردم شماری کرانے کے لئے نادرا کا محکمہ تشکیل دیا گیا تھا، اس وقت چوہدری شجاعت وزیر داخلہ تھے۔ اس مردم شماری کو بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا تھا اور ریکارڈکو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ بعد میں1981ء کے ریکارڈ کو بنیاد بناتے ہوئے مفروضوں پر آبادی کے تناسب کی خانہ پری کی گئی تھی۔ ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کے لئے بھی کراچی کی آبادی کم ظاہرکرنے کا فارمولہ تیارکیا گیا تھا۔
اب تو انتخابات میں بے قاعدگیاں، بے ضابطگیاں اور دھاندلی ایک سائنس کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس کی پشت پر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مردم شماری کا محکمہ موجود ہے جو وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور اور شماریات ڈویژن کے ماتحت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک انتخابی اصلاحات کے نتائج سامنے نہیں آئے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیںکہ یہاں اتنے سال مردم شماری نہیں ہوئی، اگر دو تین سال مزید نہیں ہوگی توکوئی آسمان نہیں گر پڑے گا جبکہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ جوانتہائی سینجیدہ وزیر ہیں، وہ قومی اسمبلی کے فلور پر فرما چکے ہیںکہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہوںگے۔ عبدالقادر بلوچ نے درست کہا کہ عوام کو فوج کے بغیر مردم شماری پر اعتماد نہیں ہے۔ ان تمام حقائق کو مد نظر رکھیں تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ محترم چیف جسٹس آف پاکستان چونکہ 31 دسمبر کو ریٹائر ہو جائیں گے، ان کے بعد مردم شماری سے متعلق ان کے احکامات سے وہی سلوک ہونے کا امکان ہے جیسے سابق چیف جسٹس جواد خواجہ نے اردوکو آئین کے مطابق قومی زبان قرار دینے سے متعلق تاریخی فیصلہ دیا تھا لیکن ان کی رخصتی کے بعد ان کے عزائم ہوا میں اڑ تے نظر آ رہے ہیں۔ 
مردم شماری ہونے سے ملک میں سیاسی طوفان یوں برپا ہونے کے امکانات ہیں کہ کراچی، حیدر آباد میں ایم کیو ایم کو سیاسی فوائد حاصل ہوںگے، ان کی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہو جائے گا کیونکہ ان علاقوں میں دیہی اور شہری امتیار ختم ہو چکا ہے۔ سیاستدانوں کو ادراک ہی نہیں کہ مردم شماری کے گزٹ نوٹی فکیشن کے بعد چاروں صوبائی حکومتوںکو اپنی ریونیو حد بندیوںکے بارے میں سروے کرانا ہوگا کیونکہ 2008 ء کے بعد ملک کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیہی علاقے بھی شہری علاقوں میں مدغم ہوتے جا رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے لاہور کے رقبے میں اضافہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے شیخوپورہ، ننکانہ اور قصور یعنی تین اضلاع میں بھی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شیخوپورہ کے دو شہر مریدکے اور نارنگ منڈی لاہور کے قریب ہیں، لہٰذا یہ اب لاہور شہرکا حصہ بن چکے ہیں۔ ننکانہ شہر سے قصور شہر تک فاصلہ تقریباً سوا سوکلومیٹر بنتا ہے جبکہ رائیونڈ اور کوٹ رادھا کشن کے شہر لاہور کے ساتھ مل چکے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے سپیکر رانا اقبال کے آبائی شہر پھول نگر تک لاہور شہر پھیل چکا ہے۔ مردم شماری تک شرقپور بھی لاہور شہر کا حصہ بن چکا ہوگا۔ ممتاز مذہبی سکالر امیر حمزہ کے مطابق لاہورکے ارد گرد ضلعی صدر مقامات، تحصیلیں، قصبات اور بہت سارے دیہات اب نئے اعلان کے مطابق لاہور شہر کا حصہ بن گئے ہیں۔ اسی طرح کراچی اور حیدر آباد کے دیہی علاقے بھی شہری علاقوں میں مدغم ہو رہے ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد کے درمیان بحریہ ٹاؤن بہت بڑا شہر بننے کے قریب ہے، اس طرح کراچی کا پھیلاؤ مستقبل میں ڈھائی سو کلومیٹر تک نظر آ رہا ہے۔ 
یہ صرف چند مثالیں ہیں، مردم شماری کے بعد ریونیوکی حد بندی سے ملک بھر میں حلقہ بندیوں پر جنگ کا طبل بج جائے گا۔ سیاستدان اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے ہائی کورٹس میں درخواستیں دائر کر کے انتخابی سسٹم کو ہی درہم برہم کر دیںگے۔ سپریم کورٹ نے حکمران جماعت اور دیگر سیاسی جماعتوں کی نیت کو بھانپ کر ہی مردم شماری کرانے کے احکامات جاری کئے ہیں، لیکن میری دانست میں دو ماہ کے قلیل وقت میںمردم شماری کے لوازمات مکمل نہ ہو سکیں گے اور محکمہ شماریات کے ذمہ دار افسران اپنا ڈیٹا اپنی مہارت سے تیار کریںگے جن کو سندھ، بلوچستان اور فاٹا کی سیاسی قیادتیں تسلیم نہیں کریں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں