"KDC" (space) message & send to 7575

میثاق جمہوریت، خفیہ معاہدے اور چوہدری نثار

سابق صدر آصف علی زرداری نے وطن واپسی کے بعد اپنے خطاب میں ایک طرف نواز حکومت کو سرمایہ دار خاندان کا خطاب دیتے ہوئے عوام پر ان کے مظالم روکنے کا عزم ظاہرکیا اور دوسری جانب فرینڈلی جمہوریت کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی۔ ادھر پاناما لیکس میں وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحریک اور عدالتی کارروائی آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ آصف علی زرداری پاکستان کے حالات پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں اور اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اب کس رخ پر جانے والی ہے۔ وطن واپسی کے لئے وقت کا انتخاب ان کی آئندہ سیاسی حکمت عملی کو ظاہر کرتا ہے۔ بظاہر وزیر اعظم نواز شریف نے آصف علی زرداری کی وطن واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے عمومی روش سے ہٹ کر مثبت انداز میں اپنی سوچ کا اظہار کیا، لیکن ان کا یہ کہنا کہ بطور اپوزیشن لیڈر انہوں نے زرداری حکومت کو خراب کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور اختلافات کے باوجود احتجاج کی پالیسی نہیں اپنائی، حقائق کے بر عکس ہے۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف نے جس انداز میں آصف علی زرداری کی تضحیک کی اور ان کو ذلیل و خوار کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ نواز حکومت کی غلطیوں، میگا کرپشن کے علاوہ قطر، ترکی، چین اور بھارت کے ساتھ ذاتی کاروبار اور عوامی مفاد کے خلاف معاہدے کرنے پر احتجاج اور نشان دہی کرنا اپوزیشن کا آئینی و قانونی حق ہے۔ تاہم حقیقی اپوزیشن نے عوام کے شعورکو اجاگر کرنے کے لئے نواز حکومت کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کو دھیرے دھیرے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے بے نظیر بھٹو نے امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر پونٹے اور برطانوی ایم آئی6 - کی ہدایت پر 14مئی 2006ء کو میثاق جمہوریت پر دستخط کر دیے۔ اب اس پر ایک بار پھر عملدرآمد کا آغاز 29 نومبر2016ء سے ہو چکا ہے جس کے تحت اب آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹیں سب سے پہلے وزارت دفاع اور کیبنٹ ڈویژن کو فراہم کی جائیں گی اور ان میں دی جانے والی اطلاعات پر کارروائی وزیر اعظم کے حکم سے ہوگی۔ عوام اور سیاسی پارٹیوں پر نظر رکھنے کا کام سول انٹیلی جنس اداروں کو سونپ دیا جائے گا۔ میاں نواز شریف کی دیرینہ خواہش کے مطابق فوج کا سالانہ بجٹ اب خاموشی سے پاس نہیں ہوگا بلکہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائیگا۔ نواز شریف نے یہ مہم بطور اپوزیشن لیڈر2011ء سے شروع کر رکھی تھی۔ تب راقم الحروف نے دنیا ٹیلی وژن کے انٹرویو میں میاں نواز شریف کو باور کرایا تھا کہ فوج کے بجٹ کے بارے میں ان کی طرف سے جس انداز میں مہم چلائی جا رہی ہے، وہ آئین کے آرٹیکل 63-G کی زد میں آ سکتے ہیں؛ چنانچہ اگلے ہی دن نواز شریف نے پریس کانفرنس میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ''کنور صاحب یہ2011ء ہے،1911ء نہیں‘‘۔ بعد میں مَیں نے 1911ء کی اہمیت واضح کرتے ہوئے انہیں بتایاکہ دسمبر 1911ء میں وائسرائے ہند لارڈ منٹو نے انتخابی اصلاحات برطانوی پارلیمنٹ سے منظور کرانے کے بعد نافذ کی تھیں اور لارڈ منٹو نے جو قوانین انتخابی اصلاحات کے لئے نافذ کئے تھے وہ قوانین اب بھی پاکستان اور بھارت میں نافذ العمل ہیں۔
بد قسمتی سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کے غیر سیاسی وزیر اعظم شوکت عزیز میثاق جمہوریت کے مضمرات اور اس کے ذریعے بین الاقوامی سازش کو نہیں سمجھ سکے۔ بے نظیر بھٹو امریکی ریاستی اداروں کے تعاون سے آگے بڑھ رہی تھیں اور نواز شریف سعودی عرب کے حصار سے باہر نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ بے نظیر بھٹو، الطاف حسین کو بھی اس معاہدے میں شریک کرنا چاہتی تھیں، لیکن نواز شریف کو وہ قائل نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ نواز شریف ذاتی وجوہ کی بنا پر رحمن ملک کی ایجویر روڈ کی رہائش گاہ پر نہیں جانا چاہتے تھے،گھنٹوں کی منت سماجت کے بعد وہ بادل نخواستہ وہاں جانے پر رضا مند ہوئے۔ اس کا خاندانی پس منظر یہ تھا کہ بطور ڈائرکٹر ایف آئی اے رحمن ملک نے محترم میاں محمد شریف کی تذلیل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا تھا۔ 
بہر حال میثاق جمہوریت پر دستخط ہو گئے جس سے سی آئی اے کے سابق سربراہ پونٹے کو اطمینان ہوا ہوگا کہ ان کی تیار کردہ میثاق جمہوریت کی دستاویزات سے پاکستان میں فرینڈلی اپوزیشن کی جمہوری بہار ہر طرف پھیل چکی ہے۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی سطح پر اپوزیشن کا وجود برائے نام ہی رہ گیا ہے۔ الطاف حسین برطانوی ایم آئی 6 اور را کے ساتھ خصوصی مراسم رکھنے کی وجہ سے متحدہ قومی موومنٹ کو بند گلی میں کھڑا کر کے منظر سے غائب ہو چکے ہیں۔ ہمارے حساس اداروں کو احساس ہونا چاہیے کہ میثاق جمہوریت دراصل پاکستان کی فیڈریشن کو کنفیڈریشن کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہے، جس کے تحت بھارت سے کشمیر، سیاچن، سندھ طاس اور سرکریک جیسے دیرینہ مسائل مذاکرات کے دائرے سے خارج کر دیے گئے ہیں۔ بھارت کی بالادستی کو ذہنی طور پر قبول کر لیا گیا ہے اور آئندہ انتخابات کے لئے نام نہاد نگران سیٹ اپ تشکیل کر کے نام نہاد انتخابی اصلاحات کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کے لئے نئی الیکشن ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے۔ انتخابی اصلاحات سے دھاندلیوں کے سیلاب کو روکنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔
نواز حکومت اپنے سیاسی رہنماؤں، میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ذریعے بھارت کے ساتھ جو معاشی، سیاسی، ایٹمی اور تجارتی معاہدے کرانے کی خاطر میڈیا کی معاونت سے راہ ہموارکرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس سے ملک کی وحدت و سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں ایک قومی اخبار میں ممتاز کالم نگار نے ملکی مفادات کے منافی جو تجاویز دی ہیں، وہ اسی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے بارے میں نواز حکومت کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے انہی کے عصرانے میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحد معمولی سی لکیر ہے، دونوں ممالک کی ثقافت بھی ایک جیسی ہے۔ 
اس وقت ایک طرف پاک چین اقتصادی راہداری زیر تعمیر ہے، دوسری جانب پاکستان اور روس کے مابین خوشگوار تعلق کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ قطر کی حکومت کے ساتھ بڑے معاہدے طے پا رہے ہیں۔ اسی تکون کو تشکیل دیتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو اقتدار اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اب یہ سب معاملات کاروباری مفادات کے تحت ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف لاکھوں ڈالر کا چندہ دے کر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لئے پر تول رہے ہیں۔ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرمپ کے دونوں بیٹوں ڈونلڈ جونیئر اور ایرک کو پاکستان کے بلند و بالا، دلکش اور حسین و جمیل پہاڑی علاقوں میں سیون سٹار ریزورٹ تعمیر کرنے اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں سرمایہ کاری کی پیش کش کریں گے۔ ان تمام معاہدوں میں ذاتی مفادات کی جھلک نظر آرہی ہے، پاکستان کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ ملک میں جمہوریت کے نام پر تجارت ہو رہی ہے۔ جس طرز حکمرانی کا نام جمہوریت ہے وہ پاکستان میں ناکام ہو کر تجارت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کے نتائج آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف حکومت مضبوط ہو گئی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان خفیہ مفاہمت ہو چکی ہے اور دونوں سربراہوں نے عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ بلاول زرداری کے نام نہاد چار مطالبے وزیر اعظم نواز شریف چائے کے کپ پر پورے کر دیں گے اور امکان ہے کہ مستقبل کے وزیر خارجہ مشاہد حسین ہوںگے۔ آصف علی زرداری نام نہاد گرینڈ الائنس بنوا کر اس کی قیادت خود سنبھالیں گے اور خفیہ معاہدے کی ایک شق کے تحت قومی انتخابات ستمبر/ اکتوبر 2017 ء میں ہونے کے امکانات ہیں۔ اس پس منظر میں آصف علی زرداری اور بلاول زرداری کے بیانات حیران کن نہیں ہیں، انہوں نے نام نہاد لانگ مارچ غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دی ہے۔ چوہدری نثار علی خان کے خلاف پیپلز پارٹی نے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان اس مفاہمت اور خفیہ معاہدوںکی راہ میں حائل ہیں۔
علماء کرام کی توجہ اور رہنمائی کے لئے عرض ہے کہ میری دانست میں جب بارش کے لئے نماز پڑھی اور خصوصی دعا مانگی جاتی ہے تو کھلے آسمان تلے ہاتھوں کو الٹا کر کے دعا ہوتی ہے جبکہ صدر مملکت نے بارش کے لئے جو خصوصی دعا ایوان صدر میں کروائی،اس میں حسب معمول ہاتھ سیدھے تھے۔ علماء کرام ہماری رہنمائی کے لئے وضاحت کر دیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں