"KDC" (space) message & send to 7575

گوادر بندر گاہ: عالمی طاقتوں میں محاذ آرائی کی آماجگاہ

بحیرہ عرب میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ، دنیا کی توانائی کی شہ رگ کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے قریبی سمندری راستے سے چین کی تیل کی برآمدات کا بیشتر حصہ گزرتا ہے، جس میں کوئی بھی رکاوٹ دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں تعطل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ پاکستانی قوم کو شاید حیرت ہوکہ گوادر کی ملکیت چین کے پاس ہے، جس نے اسے تعمیر کیا اور مالی وسائل بھی فراہم کئے۔ گوادرکو سٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ اسلام آباد اور بیجنگ کی حکومتیں کئی سال سے اس بات کی تردید کر رہی ہیں کہ اس بندر گاہ کے کوئی فوجی مقاصد بھی ہیں، ان کا زور اس بات پر ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک تجارتی منصوبہ ہے۔ اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی اس پر گہری نظر لگی ہوئی ہے۔ وزارت خارجہ کے بعض سینئر افسروں کے بقول گوادر بندگاہ مزید فعال ہوگئی ہے، لہٰذا اب اس خطے میں زمینی و بحری دونوں لحاظ سے چینی آمد و رفت میں اضافہ ہوگا۔ یہاں چین کا مستقبل میں مستقل بحری اڈہ قائم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ گوادر چین کے صدر شی جن پنگ کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جس کے تحت چین کو بحری سپر پاور بنانا ہے۔ اس کا معاشی پہلو زبردست اہمیت کا حامل ہے۔
بحری سپر پاور کے طور پر چین کے عروج سے سمندروں پر امریکہ کی بالا دستی چیلنج ہوگی۔ گزشتہ چند دہائیوں میں امریکہ کا کردار اہم رہا ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد مغرب کے لئے قدرے امن کا دور کہا جاتا ہے، ماسوائے صدر بش سینئر اور صدر بش جونیئر کے جنہوں نے امریکی تیل کے مفادات میں عراق اور لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور عربی عصبیت کو ہوا دے کر انتہا پسندی کو فروغ دیا اور افغانستان کے امن و امان کو لپیٹ کر رکھ دیا۔ اب امریکہ میں صدر ٹرمپ زمام کار سنبھال چکے ہیں۔ ایسے میں چین اور امریکہ کے درمیان بحیرہ جنوبی چین میں سٹریٹیجک کشیدگیاں واضح ہونی شروع ہو گئی ہیں اور صدر ٹرمپ نے امریکہ میں چین اور دیگر ممالک کی اشیا کی درآمد پر پابندی لگانے کے فرمان پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس امریکی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے چین بحری اثر و رسوخ کی اہمیت سے بخوبی واقف ہے۔ وہ جانتاہے کہ بحری تجارت اور بحری بالادستی کے ذریعے سمندر پر کنٹرول کرنے سے دنیا پر غالب اثر و رسوخ حاصل ہو جاتا ہے، چاہے زمین کی دولت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ کوئی بھی چیز ضروری تبادلوں میں اتنی کار آمد نہیں جتنا سمندر۔ اسی بنیاد پر گوادر، پاکستان اور چین کے لئے اہم محور کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کا چین کے عالمی طاقت بننے میں کلیدی کردار ہوگا۔ چین نے گوادر ماڈل کو دیگر اہم مقامات پر بھی استعمال کیا ہے۔ بیجنگ اپنی تجارتی سمجھ بوجھ اور مالی طاقت کے بل بوتے پر اس سٹریٹیجک تجارتی مرکز کا مالک بن چکا ہے تاکہ بعد میں اسے فوجی استعمال میں لایا جا سکے۔ اسی پس منظر میں سری لنکا، یونان اور جبو تی میں بھی سویلین بندر گاہوں میں چینی سرمایہ کاری کے بعد وہاں پیپلز ریپبلکن آرمی کے بحری جہازوں کی تعیناتیاں ہوئیں یا دورے کئے گئے، بلکہ بعض معاملات میں تو طویل مدتی فوجی نوعیت کی کارروائیوں کے اعلانات بھی کیے گئے۔ اگر گہری نظروں سے دیکھا جائے اور چین کی حکمت عملی کا 1962ء کے بعد کے واقعات کا جائزہ لیا جائے، جب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جنگ شروع ہوئی تھی، تو اس کے نتیجہ میں چین کی طاقت کو قدغن لگانے کے لئے وزیر اعظم نہرو نے ہند کی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے امریکہ سے خفیہ معاہدے کیے اور امریکہ نے بھارت میں اسلحہ کے انبار لگا دیے۔ صدر ایوب خان نے اس وقت کے امریکی صدر کینیڈی کو جارحانہ خطوط لکھے جو اب بھی امریکہ میں کلاسیفائیڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 1963ء میں چین کے وزیر اعظم چو این لائی اور چین کے بانی ماؤزے تنگ کو پاکستان کے اندرونی اضطراب اور چین کی پالیسی کے مضمرات کے بارے میں جو خطوط لکھے تھے وہ بھی ہماری وزارت خارجہ میں خفیہ خطوط کے زمرے میں آتے ہیں اور چینی حکومت نے بھی ان خطوط کو کلاسیفائیڈ قرار دیا ہوا ہے۔
بندرگاہوں میں سرمایہ کاریوں کے سیاسی جواز کے لئے''ایک پٹی ایک شاہراہ‘‘ کو پیش کیا جاتا ہے، جو ایک عظیم منصوبہ ہے اور جس کی صدر شی جن پنگ پر زور تائید کرتے ہیں تاکہ قدیم زمانے کے شاہراہ ریشم کے تجارتی راستوں کو بحال کر کے ایشیا، مشرق وسطی، افریقہ اور یورپ کے60 سے زیادہ ملکوں میں تجارت کو بام عروج تک پہنچا دیا جائے۔ گوادرکو 54 ارب ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والی چین پاکستان اقتصادی راہداری کو کلیدی حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ آغاز میں اس بندرگاہ میں چین کا کردار محض مالی وسائل کی فراہمی اور تعمیر تک محدود تھا، مگر2015 ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے بندر گاہ کی ملکیت 2059 ء تک لیز کے ذریعے چینی کمپنی چائنہ اور سبز پورٹ ہولڈنگ کمپنی کے حوالے کر دی اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اس کی منظوری حاصل نہیںکی۔
گوادر کا علاقہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم سر فیروز خان نون نے 15 اکتوبر 1957ء کو حکومت عمان سے 10 لاکھ پونڈ میں خریدا تھا۔ ان کی دور اندیشی سے آج پاکستان ایشیا کی اہم معاشی طاقت کا روپ دھارنے والا ہے۔ مناسب ہوگا کہ مرحوم فیروز خان نون کی اس عظیم قومی خدمت کے اعتراف میں اس بندرگاہ کو ان کے نام سے منسوب کر دیا جائے تاکہ اس عظیم ہیروکی خدمات ہمیشہ یاد رہیں۔
صدر ٹرمپ کے خطاب اور متوقع پالیسیوں سے چین سمیت کئی ممالک سخت پریشان ہیں کیونکہ اس طرح ان کی بر آمدات بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ پاکستان جو آئی ایم ایف سے تین برسوں میں 45 کھرب روپے کا قرضہ حاصل کر چکا ہے، صدر ٹرمپ پاکستان کو دیوالیہ قرار دلوانے کی دھمکی دے کر اسے اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کا کھیل کھیلنے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے این پی ٹی پر دستخط کرنے کے حوالے سے پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام اس بات کی تو توقع نہ ہی رکھیں کہ صدر ٹرمپ کے دور میں کشمیر کے حوالے سے کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔ اس عرصے میں جو چار کی بجائے آٹھ برسوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے، پاکستان کو چین کے ساتھ اقتصادی تعلقات امریکہ کی قیمت پراستوار نہیں کرنے چاہئیں اس لیے کہ شاید ہم امریکی دباؤ اور پابندیوں کا سامنا نہ کر سکیں۔ ٹرمپ دور میں چین امریکہ تعلقات بھی خراب ہونے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں امن کے فروغ کے بجائے کشیدگی اور کشمکش کا پھیلاؤ ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ دنیا ایک نئی عالمی جنگ سے بھی دوچار ہو سکتی ہے جس کی تباہ کاریوں کا تصور بھی محال ہے۔
آخر میں دنیا کے ممتاز صحافی رئوف کلاسرا کا حوالہ دے کر قوم کو جگانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اپنے کالم میں خطرات کی گھنٹی بجا دی ہے کہ سی پیک کا پاکستان کو فائدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ چین پاکستان کو سڑکیں اور موٹر وے بنانے کے لئے قرضے کی بجائے امداد دے کیونکہ یہ سب شاہراہیں چین نے استعمال کرنی ہیں، پاکستانی زیادہ سے زیادہ گوادر تک اپنی گاڑی پر طویل سفر کا شوق پورا کر سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں