"KDC" (space) message & send to 7575

حالیہ فیصلے اور محفوظ پاکستان

ملک میں عام انتخابات کے لئے غیر اعلانیہ انتخابی مہم ابھی سے شروع ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں او ر ان کے رہنما ؤںنے ان صوبوں کا رخ کر لیا ہے جہاں وہ کامیابی کے لئے زیادہ محنت اور جوڑ توڑ کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں، بڑی پارلیمانی پارٹیوں کے جوش و خروش سے ایسا لگتا ہے کہ الیکشن اسی سال کے اواخر میں ہونے والے ہیں، سیاسی جلسے جلوس جمہوریت کی روح ، عوامی شعور کے فروغ اور کارکنوں کی تربیت کا موثر ذریعہ ہیں۔آئندہ الیکشن پاناما پیپرز کے محرکات پر ہی ہوں گے۔کرپشن اور موروثی سیاست کے درمیان ریڈ لائن کوعبور کرنا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کیلئے کے مشکلات کا سبب بنے گا۔
ہمارا ماضی سیاسی اور انتخابی لحاظ سے مثالی نہیں رہا، جمہوریت اس لئے کمزور ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ حقیقی انٹرا پارٹی الیکشن کواپنے مفادات سے متصادم تصور کرتے ہیں ، اب تک چار سالہ دور نیم جمہوری ہی رہا اور پانامہ پیپرز نے حکمرانوں کی ساکھ کو مجروح کر دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر ان کے دو ہی قریبی حلیف رہ گئے ہیں ۔سیاسی جماعتیں ستر سال گزرنے کے باوجود میچور نہیں ہوئیں، متحدہ پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ صرف بیس سال ہی میں میچور ہوگئی تھی اور صدر ایوب خان کو اسی پارٹی سے خطرہ لاحق رہا، محترمہ فاطمہ جناح صدارتی الیکشن کے نتائج سے مایوس ہو کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکی تھیں اور ان کو متحدہ اپوزیشن کے بعض سرکردہ رہنماؤں کے بارے میں شدید تحفظات تھے اسی لئے انہوں نے صدارتی الیکشن کے فوراً بعد 19 جنوری 1965 کو فلیگ سٹاف ہاؤس خالی کروا لیا تھا جو جمہوریت کے نام پر ان کے فلیگ سٹاف ہاؤس پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔
بد قسمتی سے پاکستان الیکشن کمیشن ملکی قوانین کی وجہ سے مضبوط نہیں ہے اور اسی وجہ سے الیکشن کمیشن کے پاس سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کو مانیٹر کرنے کی صلاحیت اور اختیارات نہیں، کسی پارٹی کی طرف سے انتخابات کی جو تفصیل روانہ کی جاتی ہے، الیکشن کمیشن اسے قبول کر لیتا ہے، اس کی جانچ پڑتال کا کوئی طریقہ کار نہیں ۔ بد حکمرانی، بد انتظامی اور بد عنوانی کا کوئی جواز نہیں دیا جا سکتا، سیاسی حکمرانی کے کمزور ہونے کی ایک وجہ خود سیاسی حکمرانوں میں احساس عدم تحفظ رہا، قیام پاکستان سے کچھ دنوں قبل قائد اعظم نے جمہوری حکم نامے کی بنیاد رکھ دی تھی، 11 اگست 1947 کو پہلی دستور ساز اسمبلی سے قائد اعظم کے خطاب کی ہر سیاسی جماعت کے دانشوروں نے اپنے طور پر تشریح کی لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے جمہوری حکم نامے کے ذریعے اصول حکمرانی طے کر دیا تھا ۔اگر قائد اعظم کے11 اگست 1947 ء کے طویل ترین خطاب کو ہی آئین کے دیباچے کا حصہ بنایا جاتا تو پاکستان عالمی جمہوری ممالک کی صف اول میں کھڑا نظر آتا، لیکن افسوس ہے کہ متحدہ ہندوستان کی حکومت کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی نے 11 اگست 1947 کی تقریر کو سنسر کرا دیا اور ان کی تقریر جو آل انڈیا ریڈیو نے ریکارڈ کی تھی وہ بھی ناپید ہے اور حکومت پاکستان نے ان کی تقریر انڈیا سے حاصل کرنے کی سعی ہی نہیں کی اور بی بی سی کے ریکارڈ میں بھی یہ تاریخی خطاب موجود نہیں ہے۔
پاکستان میں حقیقی جمہوریت اسی وقت مضبوط ہو سکتی ہے جب تمام ادارے قانون کے تحت جواب دہ ہوں، سیاسی جماعتیں پہلے اپنے اندر جمہوریت لائیں، اس کے نتائج کو مد نظر رکھ کر پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کاری کا غیر جانبدارانہ سسٹم روشناس کرائیں۔ پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے بہتر طرز حکمرانی کے لئے قانون کی پاسداری اور عمل درآمد کے ساتھ ساتھ رشوت ستانی اور اقربا پروری کے خاتمے کی پر زور تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جس معاشرے میں میرٹ کو اولیت اور فوقیت نہیں دی جاتی وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ قیام پاکستان کو تقریباً ستر برس ہونے کو آئے مگر ابھی تک بہتر طرز حکمرانی کے معیار مطلوب کو حاصل نہیں کر پائے جس کی طرف بانی پاکستان نے روز اول ہی ہماری رہنمائی فرمائی تھی، گذشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ملک میں بہتر طرز حکمرانی کا قیام نہ ہونے کی اصل وجہ منظور نظر افراد کا تقرر ہے، یہ عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے، بد قسمتی سے گذشتہ چند دہائیوں کے دوران بعض صورتوں میں ترقی معکوس کا افسوسناک و تشویش ناک منظر دیکھنے کو ملا، ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹوں میں پاکستان رشوت ستانی اور اقربا پروری کے اعتبار سے چند سر فہرست ملکوں میں شامل ہوتا ہے۔
کراچی تین سال پہلے تک جس بدامنی ، لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، گینگ وار ، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کا گڑھ بنا ہوا تھا، ان کے خلاف رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں بلا شبہ آج اس کیفیت میں نمایاں بہتری آچکی ہے، تاہم اس عمل کے دوران سامنے آنے والے بھاری کرپشن اور دیگر جرائم کے متعدد بڑے بڑے معاملات میں جس طرح پسپائی کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ عوام کے ذہنوں میں سوالات اٹھانے کا سبب بن رہا ہے، زمینی حقائق کے مطابق ڈاکٹر عاصم حسین کے تمام مقدمات میں ضمانت، انور مجید کیس، پانچ ارب کی کرپشن کے ذمہ دار قرار دیئے جانے والے شرجیل میمن کی وطن واپسی، عذیر بلوچ کے معاملے میں خاموشی، نثار مورائی اور منظور کاکا کے انجام کی بے یقینی، عزیز آباد سے بھاری اسلحہ کی کھیپ پکڑے جانے کا معمہ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر سے سولہ ہزار فائلوں کا غائب ہونا اور ایسے کئی دیگر اہم معاملات انجام کو نہیں پہنچے، گذشتہ تین سال میں سولہ ہزار افراد گرفتار ہوئے ، جن میں سے سات ہزار اب تک زیر حراست ہیں لیکن بیشتر مقدمات کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں جب کہ اکثر مقدمات میں حکومتی اداروں نے پیروی ہی نہیں کی جس کے باعث ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا سلسلہ جاری ہے اور اسے مفاہمت سے تعبیر کیا جا رہا ہے، اس پسپائی کے نتیجہ میں عوام یقینا بے اعتمادی اور بد دلی کا شکار ہو رہی ہے، جب حکومتی حکمت عملی کے نتیجہ میں سیاسی جرائم پیشہ عناصر کے لئے یہ صورت حال نہایت حوصلہ افزاء ہو رہی ہے اور کراچی میں آتش فشاں کا لاوا پکنے کے قریب ہے اور خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا ہے۔
حکومتی اور میڈیا کی بے حسی بھی حیرت انگیز طور پر دیکھنے میں آئی، ڈاکٹر عاصم حسین کینیڈین پاسپورٹ رکھتے ہوئے سینیٹ کے رکن، وفاقی وزیر پیٹرول، چیئرمین قومی تعمیر نو، صوبائی وزیر، چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن سندھ اور دیگر اہم وزارتوں پر فائز رہے اور ڈاکٹر عاصم حسین کا دوہری شہریت رکھناہمارے میڈیا پرسنز کی نظروں سے اوجھل رہا جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے ان کا کینیڈین پاسپورٹ اپنی تحویل میں لئے رکھا ہے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان، چیئرمین سینیٹ اور حکومتی اداروںنے چپ سادھ رکھی ہے، آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے مطابق ڈاکٹر عاصم حسین تا حیات پبلک عہدہ کے لئے نا اہل ہو چکے ہیں۔ اب کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی کہ موصوف نے کینیڈین سفارتی حکام سے ملاقات کی اور اپنی ساری غیر ملکی جائیداد اپنے صاحبزدگان کے حوالے کر دی جو کینیڈین شہریت کے حامل ہیں، ڈاکٹر عاصم حسین نے کینیڈین شہریت کی دستاویزات کا تبادلہ کیا، اصولی طور پر ان کی کینیڈین شہریت کا مقدمہ بنا کر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوایا جاتا تو الیکشن کمیشن آف پاکستان کارروائی کرتے ہوئے ان کو سات سال کے لئے جیل بھجوا سکتا تھا، ڈاکٹر عاصم حسین کی دوہری شہریت سے ملتے جلتے کیسز میں سپریم کورٹ آف پاکستان چند ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت کالعدم قرار دے کر ان سے مراعات واپس بھی لے چکی ہے‘ صد افسوس کہ ڈاکٹر عاصم حسین کے معاملے میں کچھ نہ ہوا! ڈاکٹر عاصم حسین کو دوہری شہریت چھپانے پر سزا ملنے سے ادارے مضبوط ہوتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں