"KDC" (space) message & send to 7575

حلقہ بندیاں انتخابی جنگ

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مردم شماری کے بعد عام انتخابات کے لئے نئی حلقہ بندیاں کرانے اورحلقہ بندی ایکٹ 74 کی شق دس اور آئین کے آرٹیکل 224 کی روح کے مطابق کرانے کا اصولی طور فیصلہ کر لیا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلیٰ حکام نے ادارہ شماریات سے رابطہ کیا ہے جو مردم شماری کا ڈرافٹ ڈیٹا جولائی تک فراہم کرے گا، اس طرح جولائی میں نئی حلقہ بندیوں کا عمل شروع کر دیا جائے گا جسے جنوری 2018 تک مکمل کر لیا جائے گا! واضح رہے کہ نئی حلقہ بندیوں کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ انتخابی حلقوں میں اضافہ ہوگا، انتخابی حلقے بڑھانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے، عام انتخابات سے قبل حلقہ بندیوں کی تجدید کا عمل ایک معمول کا کام ہے اور الیکشن کمیشن نے یہ کام بر وقت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے! نئی مردم شماری کی روشنی میں دیہی علاقوں کا انتخابی جغرافیہ تبدیل ہو سکتا ہے جس کے لئے ووٹروں اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔ دیہی اور شہری نشستوں کی از سر نو ترتیب سے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیاسی حیثیت پر گہرا اثر پڑے گا اور پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں کی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی اور اس کا فائد ہ متحدہ قومی موومنٹ ، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو پہنچنے کا احتمال ہے۔ حلقہ بندیوں کے لیے انتہائی غیر جانبداری، مہارت اور ریونیو کے بارے میں غیر معمولی صلاحیتوں کی ضرورت ہے! الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حلقہ بندیاں کرانے کے لئے آفیسران کی تربیت کا بھی انتظام کر رکھا تھا اور شنید ہے کہ غیر ملکی فنڈنگ کے حامل اداروں سے حلقہ بندیوں کے بارے میں آفیسران کو عملی طور پر تربیت دی گئی ہے، بادی النظر میں الیکشن کمیشن کی یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی، پاکستان کے مخصوص جغرافیائی حالات کے بارے میں ان اداروں کو ادراک ہی نہی ہے کیونکہ گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں بعض اعتراضات سامنے آئے تھے اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہل کاروں کی تیار کردہ حلقہ بندیاںانتہائی متنازع تھیں جسے سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا تھا اور اب جب کہ آیندہ انتخابات باقاعدہ مردم شماری کے تحت ہونے جا رہے ہیں اس سے انتخابی حلقوں میں کوئی تبدیلی سامنے آ سکتی اور جو بھی نئی صورت حال پیدا ہوگی یہ جنوری 2018 تک سب کے سامنے آجائے گی اور سیاسی جماعتوں سمیت تمام فریقوں کو اپنی اپنی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد ملے گی ۔ حلقہ بندیوں میں تبدیلی جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے چاروں صوبوں کے ریوینو ڈیپارٹمنٹس، لوکل گورنمنٹ کے اداروں اور نادرا کی خدمات حاصل کرنا ہوںگی۔ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا اور سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان بابر فتح محمد یعقوب ان اصولوں کو اچھی طرح سے جانتے ہیں کیونکہ حلقہ بندیوں کا دارو مدار آبادی کے بہاؤ پر ہے، سیاسی جماعتیں حلقہ بندیوں کی تجدید کے سلسلہ میں باقاعدہ ریونیو ریسرچ قائم کریں اور الیکشن کمیشن کی معاونت کریں بعد میں اعتراضات کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی تجاویز بروقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پیش کریں۔
حلقہ بندیوں کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو اس وقت قومی اسمبلی کی نشستیں پنجاب میں 148 ، سندھ میں 61 ، خیبر پختون خواہ میں 31 ، بلوچستان میں 14 ، فاٹا 12 اور کپیٹل اسلام آباد میں ہیں۔آئندہ انتخابات میں انتخابی جنگ پنجاب میں لڑی جائے گی اور قدرے کم سندھ میں انتخابی معرکہ ہوگا اور اس کا دارومدار نئی حلقہ بندیوں کی ترتیب و تدوین پر ہے۔ جون 2002 میں حلقہ بندیاں کراتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے تکنیکی غلطیاں سرزد ہوئی تھیں لیکن الیکشن کمیشن کی ایمانداری پر کسی کو شک و شبہ نہیں تھا ۔ البتہ سندھ میں بالخصوص دیہی علاقوں کے چند حلقوں میں اصولوں سے ہٹ کر من مانیاںضرور کروائی گئی تھیں لیکن اس وقت پاکستان کا آئین معطل تھا ، اب چونکہ پاکستان میں جمہوریت ہے اور تمام سیاسی جماعتوں اور انتخابی عمل سے وابستہ فریقوں اور میڈیا نے گہری نظریں الیکشن کمیشن آف پاکستان پرہیں۔لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتہائی سوچ سمجھ کر یہ ذمہ داریاں پوری کرنا ہونگی۔مردم شماری کا آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے، اگر مردم شماری کے ماضی کے تمام ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو اس سلسلے میں پاکستان کے بہت کم ماہرین یہ جانتے ہیں کہ ان تمام مردم شماریوں میں دھاندلی کی گئی تھی او سیاسی اثر میں آکر ضلعی حکام نے مردم شماری میں حقیقی ریکارڈ میں تبدیل کروا دیا تھا۔1972 کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی 65 لاکھ تھی جسے صدر بھٹو کے حکم پر کم کر کے 33 لاکھ کرایا گیا تھا تاکہ کراچی کی قومی اور
صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں21 کی بجائے 13 رہ جائیں اور صوبائی اسمبلی کی 45 کی بجائے 25 ۔ اگر صحیح مردم شماری ہوتی تو اندرون سندھ قومی اسمبلی کی 33 کی بجائے 25 اور صوبائی اسمبلی کی 72 کی بجائے 55 نشستیں ہوتیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور متحدہ قومی موومنٹ اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی رہنمائی کے لئے بتاتا چلوں کہ 1972 میں کرائی جانے والی مردم شماری کے نتائج پر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مردم شماری میں دھاندلی کیسے کرائی گئی، اس میں بدین کی آبادی میں 364 فیصد ، کند کوٹ میں 155 فیصد، سکرنڈ میں 200 فیصد، گھوٹکی میں 177 فیصد، دادو میں 148 فیصد ، ٹھٹھہ میں ستر فیصد، ہالہ میں 99فیصد اور ٹنڈو محمد خان کی آبادی میں 72 فیصد اضافہ دکھایا گیا تھا جب کہ کراچی کی آبادی 65 لاکھ سے کم کر کے 35 لاکھ کر دی گئی تھی۔ اسی طرح 1982 کی مردم شماری میں سکھر ڈویژن کی آبادی 65 لاکھ اور کراچی کی آبادی 53 لاکھ دکھا کر ایک بار پھر اہل کراچی کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا گیا، یہ در اصل 1972 کی مردم شماری کو بنیاد بنا کر صرف خانہ پری کی گئی تھی۔ اس مردم شماری میں کراچی کی آبادی میں دس سالہ اضافہ 45.18 فیصد دکھایا گیا جب کہ گوجرانوالہ میں یہ اضافہ 84.26 فیصد اور پشاور میں 103.30 فیصد تھا، حالانکہ آبادی اقوام متحدہ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق بڑے پیمانے پر دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کو منتقل ہوئی ہے اقوام متحدہ کے اصولی امور پاکستان پلاننگ کمیشن کی رپورٹوں کے مطابق ترقی پزیر ممالک میں دیہی آبادی میں دس سال میں 30 سے 35 فیصد اور شہری علاقوں میں 60 سے 70 فیصد اضافہ ہوتا ہے، جب کہ 1972 کی مردم شماری میں دیہی آبادی میں 364 فیصد تک اضافہ دکھایا گیا، اسی طرح کراچی کو ملازمتوں اور دوسرے وسائل میں اس کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا اور پارلیمنٹ میں بھی ان کی صحیح نمائندگی کو نظر انداز کر دیا گیا اور اس کوکھ سے متحدہ قومی موومنٹ نے جنم لیا۔
2017 کی مردم شماری غیر جانبدارانہ طور پر درست ہوگی شاید یہ ایک مفروضہ ہی ثابت ہو، یہ بات خوش آئند ہے کہ فوج کے جوان شمار کنندگان کے ساتھ ہیں مگر یہ تو ایک حفاظتی اقدام ہے، اندازہ نہیں کہ انہیں شمار کنندگان کے کام پر نظر رکھنے کی ہدایت ہے یا نہیں! یوں بھی جعل سازی تو کہیں او ہوتی ہجہاں ماضی میں ہوتی رہی ہے ، وہاں تو فوجی جوان موجود نہیں ہوں گے وہ تو ضلع کے حکام کا کام ہے! سیاسی قوتوں کا یہ کام ہے کہ حالیہ مردم شماری پر نظر رکھیں، حالیہ مردم شماری پر سرسری سی نظر ڈالیں تو کچھ حقائق تو بہت واضح نظر آتے ہیں تو کراچی کی گنجان سوسائٹی گلشن اقبال، اور دیگر اہم سوسائٹیوں میں ایسے بے شمار مکانات ہیں جنہیں خانہ شماری کے زمرے میں شامل ہی نہیںکیا گیا یہ تو کراچی کا حال ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ نے چونکہ احتجاج ریکارڈ کرایا ہوا ہے اس پر ہلکی سی تحقیق کی گئی تو یہی نتائج سامنے آئیں گے کہ کراچی کے بہت سے علاقوں میں مردم شماری کا عملہ اب تک نہیں گیا، یہ تو صرف کراچی کا حال ہے،شنید ہے کہ سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں بھی اسی طرح کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور متحدہ قومی موومنٹ کی احتجاجی اپیل کا رخ موڑنے کے لئے نثار کھوڑو سندھ ہائی کورٹ چلے گئے،ان حالات میں مصطفی کمال کی پارٹی رومن کیتھولک کی پالیسی پر چل رہی ہے کہ مخالف کو اپنا دوسرا گال بھی پیش کر دو اور فاروق ستار، وسیم اختر اور دیگر کو لندن گروپ نے مفلوج بنا رکھا ہے، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کو اپنے اپنے ووٹ بنک کا اندازہ ہے، لہٰذا انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، سیاسی جماعتوں کو ملک کی سلامتی اور اس کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں،، ماضی میں سیا سی ، انتظامی، مالیاتی اور انتخابی حقوق غضب ہوتے رہے ہیں ، اب اس کا ازالہ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے اور وہ یہی ہے کہ 45 برس بعد ہی صحیح ، ان کو ان کا جائز حق دیا جائے اور وزیر اعظم نواز شریف اپنی مدح سرائی کے سحر سے باہر نکل کر عوام کو صحیح غیر جانبدار اور تعصب سے بالا تر مردم شماری کروانے میں اپنا آئینی و قانونی اختیار استعمال کریں۔
اقلیتی جماعتیں بھی مردم شماری کے طریقہ کار سے مطمین دکھائی نہیں دیتیں، ہندو کمیونٹی کا علیحدہ کالم رکھنے کے بجائے ان کو دیگر اقلیتی شیڈول کاسٹ میں شامل کیا گیا ہے، اگر ہندو اقلیت کو نمایاں کیا جائے تو سندھ میں ان کی تعداد 20 فیصد کے لگ بھگ ہونے کے امکانات ہیں جس سے قومی اسمبلی میں 10 نشستوں اور صوبائی اسمبلی سندھ میں 20 اضافی نشستیں تخلیق کرنا ہوںگی۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی ہندو کمیونٹی اور عیسائی کمیونٹی کے مفادات کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں