"KDC" (space) message & send to 7575

نئی صف بندی

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعتوں کے مالی اثاثوں 2015 کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی دولت اور اثاثوں سے پر دہ اٹھا دیا ہے ، حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی آمدن کم، اخراجات زیادہ، تحریک انصاف کروڑ پتی جماعت، پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین سب سے امیر جب کہ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ سب سے غریب جماعت نکلی۔ سیاسی جماعتوں میں مالی نظم و ضبط اور جمہوری نظام کا فقدان ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک میں آزادانہ ، منصفانہ انتخابات کے انعقاد کا ذمہ دار ہوتا ہے، اسے با اختیار بنانا سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن خود مختار ترین ادارہ ہے اور اس کے ارکان میں مفادات کا تصادم بظاہر نظر نہیں آتا، الیکشن کمیشن کی دیگر آئینی ذمہ داریوںمیں یہ دیکھنا بھی شامل ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مالی امور کس طرح چلاتی ہے اور اندرون جماعت انتخابات کراتی ہے یا کہ نہیں، اس وقت ایسے معاملات پر نظر رکھنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے جب تک کہ پارٹی رکن یا دیگر اس کی شکایت نہ کرے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار تحریک انصاف کے سابق بانی ممبر اکبر ایس بابر کی جانب سے تحریک انصاف کی فنڈنگ کو چیلنج کیا جانا ایک منفرد کیس ہے، تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہاں ہی اسی کا موثر جواب دینا چاہئے تھا جب کہ اس کے برعکس تحریک انصاف نے کیس کی سماعت کے لئے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو ہی چیلنج کر دیا، جب کہ پولیٹکل پارٹیز آرڈر 2002 کے مطابق الیکشن کمیشن کا مطمئن ہونا ضروری ہے اور اسی آرٹیکل کے تحت الیکشن کمیشن کو جانچ پڑتال کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔
2013 کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اور امیدوار خصوصی اکاؤنٹس کے ذریعے اشتہارات کی مد میں ادائیگیوں کی تفصیلات دیں گے، گزشتہ انتخابات میں اربوں روپے خرچ ہوئے، لیکن کسی سیاسی جماعت یا امیدوار نے اخراجات کا حساب دیا ، نہ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انہیں نوٹس جاری کئے! 2013 کی الیکشن مہم کے دوران میں نے جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کو خط لکھا تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں اربوں روپے کے اشتہارات چل چکے ہیں ، ان سیاسی جماعتوں کے مالی گوشواروں سے موازنہ کرنے کے بعد نوٹس جاری کر کے ان سے باز پر س کی جائے، لیکن الیکشن کمیشن کی اس وقت کی انتظامیہ مصلحت کا شکار ہوگئی۔
پچھلے ماہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے صوبہ پنجاب کو انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جس کے تحت صوبے میں دو ایڈیشنل چیف سیکریکڑیز ہوں گے، ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری وسطیٰ پنجاب اور دوسرا ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کے معاملات دیکھے گا، اسی طرح پنجاب میں شامل پوٹھوہاری اضلاع کے لئے تیسرا ایڈیشنل چیف سیکریٹری تعینات کیا جائے گا، پنجاب حکومت کے اس نئے انتظامی منصوبے کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان میں نئے صوبوں کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ مغربی پنجاب، پوٹھوہاری اوروسطی پنجاب کو الک الک ایڈیشنل چیف سیکریٹریز کے ذریعے چلانے کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ صوبے کو انتظامی طور پر تقسیم کر کے بیوروکریسی کے ذریعے اسے کنٹرول کیا جائے، یہ طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 239 سے انحراف ہے بلکہ موثر انتظام کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوگا۔ ایک ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے ملتان میں اپنے دفتر جمانے اور ایک ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے راولپنڈی میں براجمان ہونے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کیونکہ حتمی فیصلے تو ویسے ہی لاہور میں وزیر اعلیٰ نے ہی کرنے ہیں۔اس کے پس منظر میںالبتہ آئندہ انتخابات میں ووٹروں اور الیکشن کمیشن کے عملے کو کنٹرول کر کے من چاہے نتائج حاصل کرنے کی خواہش دکھائی دیتی ہے ۔پانامہ پیپرز کے عدالتی کیس کی وجہ سے سیا سی جماعتوں کا دھیان ابھی تک پنجاب حکومت کے اس منصوبے کی طرف نہیں گیا۔
بادی النظر میں اس وقت پنجاب کا سسٹم ناقابل انتظام ہو گیا ہے ، جدید انتظامی سائنس پنجاب کی بڑی آبادی کو اس طرح کنٹرول کرنے کی مخالف ہے کیونکہ یہ مضبوط مرکزیت کا نہیں بلکہ عدم مرکزیت کا زمانہ ہے، اگر وفاقی اور صوبائی حکومت پنجاب کی نیت درست ہے تو انہیں احساس ہونا چاہئے کہ دنیا بھر میں چھوٹی چھوٹی اکائیاں تشکیل دے کر انہیں سیاسی ، انتظامی اور مالیاتی طورپر خود مختاری دی جاتی ہے، پنجاب کی سرحدیں سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خوا اور کشمیر سے ملتی ہیں، پنجاب حکومت نے انتظامی طور پر صوبے کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا کر عدم مرکزیت کا فلسفہ قبول کر لیا ہے لیکن عدم مرکزیت کا یہ طریقہ کار درست نہیں ہے اور اس کے مطلوبہ نتائج بھی برآمد نہیں ہوں گے اور پنجاب کے انتظامی ماہرین اس طریقے کو مسترد کر چکے ہیں۔ مئی 2012 کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر دو قرار دادیں منظور کی تھیں جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پنجاب میں جنوبی پنجاب اور بہاول پور کے نام سے دو نئے صوبے بنائے جائیں، یہ قرار دادیں حکومت کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پیش کی تھیں، حکومت اور حزب اختلاف کے تما م ارکان نے ان قرار دادوں کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت نئے صوبے بنانے سے متعلق بنیادی تقاضہ پنجاب اسمبلی کی ان دو قرار دادوں سے پورا ہو گیا۔ آئین میں لکھا ہے کہ جس صوبے کی حد بندیاں تبدیل کرنا ہوں گی، اس صوبے کی اسمبلی کے ارکان کی دو تہائی اکثریت اس امر کی تائید میں ووٹ دے۔ وزیر اعظم نواز شریف پنجاب میں نئے صوبے بنانے کے حامی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ 2013 کے انتخابی منشور میں بھی انہوں نے نئے صوبے بنانے کی بات کی تھی۔ جنوبی پنجاب کے عوام کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بتاتا چلوں کے 28 اگست 2012 کو پنجاب کے متحرک وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پنجاب اسمبلی میں ایک قرار دادپیش کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اس وقت کی سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پنجاب میں نئے صوبوں کی تشکیل کے حوجو 14 رکنی پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا ہے، وہ کمیشن تحلیل کیا جائے اور ایک نیا کمیشن تشکیل دیا جائے، جو صوبائی اور قومی قیادت کو اعتماد میںلے، واضح رہے کہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پنجاب اسمبلی کی 9 مئی 2012 کی قرار دادیں صدر آصف علی زرداری کی ایڈوائس اور قومی اسمبلی کی 11 جولائی 2012 کی تائید کی روشنی میں پنجاب کو تقسیم کرنے کے لئے پارلیمانی کمیشن سینیٹر فرحت اللہ بابر کی سربراہی میں تشکیل دیا تھا اور میں نے پارلیمانی کمیشن کی خواہش پر جنوبی پنجاب اور بہاول پور کو صوبہ بنانے کے محرکات اور اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں اور سینیٹ میں ان دونوں صوبوں کی تشکیل کے بارے میں آئینی، قانونی اور انتخابی قوانین کی روشنی میں جامع بریفنگ دی تھی جسے پارلیمانی کمیشن کے سربراہ اور ارکان نے سراہا تھا ۔
پنجاب کی تقسیم کئی وجوہ کی بناء پر ناگزیر ہو چکی ہے، ایک وجہ یہ ہے کہ پنجاب کی آبادی ناقابل انتظام حد تک زیادہ ہے، دوسرا سبب یہ ہے کہ پنجاب کی قومی اسمبلی کی نشستیں پاکستان کے دیگر صوبوں کی مجموعی نشستوں سے زیادہ ہیں، اس لئے تمام سیاسی جماعتیں پاکستان کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے صرف پنجاب پر توجہ مرکوز کرتی ہیں، یہ سوچ اور فکر فیڈریشن کی وحدت کے خلاف ہے، اس کے ساتھ ساتھ پنجاب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی کے تحت لسانی اور ثقافتی طور پر تقسیم ہو گیا ہے، ان حالات میں پنجاب کی تقسیم اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور وزیر اعظم نواز شریف اپنی ڈوبتی ناؤ بچانے کے لئے بہاول پور کو صوبے کا درجہ دینے کے لئے رضا مند ہو جائیں گے۔ پانامہ کیس کے حوالے سے فیصلے کی تاخیر سے ملک کا انتظامی، معاشی، خارجہ اور اندرونی ڈھانچہ زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے اور ان حالات میںحکومت بھی عوامی تائید کے حصول کے لئے مرکز گریز سیاسی قوتوں سے مفاہمت کر رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں