"KDC" (space) message & send to 7575

حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں

آئندہ چیف جسٹس اور پاناما کیس بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس مقدمے کا فیصلہ سنانے کا آغاز مشہور اطالوی ناول ''گاڈ فادر‘‘ کے ایک ڈائیلاگ سے کیا‘ جس میں لکھا گیا ہے کہ دولت کے ہر انبار کے پیچھے جرم ہوتا ہے! جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ کمپنیاں اور فلیٹ اصل میں نواز شریف کے ہیں اور وہ صادق اور امین نہیں رہے، جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے لکھا کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اہلیت یا نااہلیت کا فیصلہ ہو گا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ انہوں نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کو کلین چٹ نہیں دی۔ پوچھے گئے 13 سوالات میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ گلف سٹیل ملز کس طرح وجود میں آئی، کس طرح اسے فروخت کیا گیا، ملز پر واجب الادا رقوم کی ادائیگی کس طرح ہوئی‘ اس ملز کی فروخت کی دیگر تفصیلات کیا ہیں؟ خرید و فروخت کا عمل کس طرح مکمل ہوا اور پھر وہ کس طرح جدہ، قطر اور برطانیہ پہنچے۔ عدالتِ عظمیٰ کے پانچوں ججوں نے یہ اہم اور سب سے زیادہ نازک سوال بھی اٹھایا کہ حسن اور حسین نواز 90 کے عشرے میں اتنی کم عمری میں کس طرح اتنی بڑی جائیداد کے مالک بن گئے، فلیٹس کی طرح قطری شہزادے کا خط افسانہ ہے یا حقیقت؟ سیاسی موشگافیوں سے قطع نظر حقیقی صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھا ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کے لئے 13 انتہائی اہم سوالات اٹھائے ہیں‘ جن پر حتمی جواب جے آئی ٹی 60 روز کی تحقیقات کے بعد عدالت میں پیش کرے گی‘ اور اس دوران ہونے والی پیش رفت سے ہر پندرہ روز بعد عدالت کو آگاہ بھی کرتی رہے گی۔ تیرہ میں سے چار سوالات حسن نواز کے کاروبار سے متعلق ہیں‘ جن کا بالواسطہ تعلق میاں شریف مرحوم یا آف شور کے خفیہ نظام سے ہے۔ اب یہ تحقیقاتی ٹیم پر ہے کہ وہ کس طرح ان سوالات کے واضح جواب حاصل کرتی ہے۔ سوالات سب کے سب مالی معاملات کے بارے میں ہیں۔ عدالت میں سماعت کے دوران بھی یہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں اور فریقین نے جو بھی موقف و شواہد یا دستاویزات پیش کیں، عدالت ان سے مطمئن نہیں ہوئی۔ ان الزامات کی تحقیقات جس جے آئی ٹی کے ذمے لگائی گئی ہے وہ ایف آئی اے، قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن، انٹر سروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں پر مشتمل ہو گی‘ جو وائٹ کالر کرائم، منی
لانڈرنگ اور متعلقہ امور کے تجربے کے حامل ہوں گے۔ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے مالی معاملات کی چھان بین کے لئے اس سے زیادہ موثر کوئی ٹیم نہیں ہو سکتی تھی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں، انہیں اور ان کے صاحبزادگان کو تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو کر اپنے خلاف الزامات کو غلط ثابت کرنا ہو گا۔ معاملہ اب بھی عدالت میں ہے اور عدالت جے آئی ٹی کے تحت ہونے والی پیش رفت کی خود نگرانی کرے گی۔
صدر ممنون حسین بارہا دکھ اور اضطراب میں کہہ چکے ہیں کہ پاناما لیکس اللہ تعالیٰ کا اس قوم کے لئے تحفہ ہے! ان کی فقیرانہ گفتگو درست ہے۔ یہ تو پاناما پیپرز کے انکشافات کا نتیجہ ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے اپنے خلاف دائر کئے گئے مقدمے میں وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کو اپنی لندن کی جائیداد کا حساب دینا پڑا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف حکمران سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں‘ اور ایک جمہوری نظام میں انہیں اپنے عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس پاناما لیکس کی بدولت ہمارے حکمران طبقے کے مالی معاملات کو کس حد تک آشکار کیا ہے، یہ ہماری سیاست کے افلاس کا ایک پہلو ہے کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما بڑے بڑے عالی شان گھروں میں رہتے ہیں اور ان کی زندگی شاہانہ ہے۔ صدر ممنون حسین کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی ہے۔ جے آئی ٹی بڑے جرائم کیس میں بنائی جاتی ہیں، وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادگان جے آئی ٹی کے سامنے اجمل پہاڑی، عزیر بلوچ، صولت مرزا، ڈاکٹر عاصم حسین، کنور وسیم اختر، کامران مادھوری کی طرح پیش ہوں گے۔
سپریم کورٹ کے معزز ججوں نے وزیر اعظم کو حقیقی معنوں میں افسروں پر مشتمل کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کے احکامات صادر کر دیے ہیں، اور ان کو اندھیرے میں بالواسطہ یہ کرن دکھائی ہے کہ وہ ایسے سلوک کا سامنا کرنے کے بجائے مستعفی ہو جائیں۔ مجوزہ جے آئی ٹی کے ارکان کی تقرری عدالت عظمیٰ نے کرنی ہے لہٰذا اپوزیشن جماعتیں جے آئی ٹی کو مسترد کر کے وزیر اعظم کے خاندان کو محفوظ راستہ نہ دکھائیں بلکہ میرے خیال میں مناسب یہ ہے کہ اپوزیشن والے وزیر اعظم پر مستعفی ہونے کا دباؤ جاری رکھیں، دو سینئر ترین جسٹس صاحبان کے فیصلے کی روشنی میں وزیر اعظم نواز شریف آئندہ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے اور مسلم لیگ (ن) کے رہبر کی حیثیت سے مریم نواز کو جماعت کی قیادت سنبھالنے کے لیے آگے بڑھائیں گے۔ اپوزیشن الیکشن مہم میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کے ریمارکس کو اپنی مہم کا حصہ بنا کر نواز لیگ کو آگے بڑھنے سے روکے گی۔ انتخابی جنگ میں یہ موثر ہتھیار ہو سکتا ہے۔ میرے نزدیک فیصلہ وہ ہوتا ہے جس کا اثر دیکھا اور محسوس کیا جا سکے، فیصلے میں جج صاحبان نے وزیر اعظم کو نوے فیصد نااہل قرار دیا ہے۔ دس فیصد ان کی بچت کا جو پہلو نکلا 
ہے وہ 60 روزہ تحقیقاتی کمیٹی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ فیصلے کا ایک انتہائی اہم آرڈر یہ ہے کہ وزیر اعظم آرٹیکل 62 اور 63 پر پورے نہیں اترے۔ سپریم کورٹ کے پانچوں فاضل ججوں نے اصولی طور پر اس رولنگ کو تسلیم کر لیا ہے کہ وزیر اعظم صادق و امین نہیں رہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے معاملات اور آئین کے آرٹیکل 63-62 پر عمل درآمد کرانے کے بارے میں سپریم کورٹ کے برابر اختیارات حاصل ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کی محاذ آرائی کی وجہ سے ملک مجھے مارشل لا کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے، اور ڈان لیکس کی رپورٹ میں آرمی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی کیونکہ یہ ملکی سلامتی کا اہم معاملہ ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے شریف خاندان کے مالی معاملات
کی تحقیقات کے لئے 13 انتہائی اہم سوالات 
اٹھائے ہیں‘ جن پر حتمی جواب جے آئی ٹی 60 روز 
کی تحقیقات کے بعد عدالت میں پیش کرے گی‘ اور 
اس دوران ہونے والی پیش رفت سے ہر پندرہ روز 
بعد عدالت کو آگاہ بھی کرتی رہے گی۔ تیرہ میں سے 
چار سوالات حسن نواز کے کاروبار سے متعلق ہیں‘ 
جن کا بالواسطہ تعلق میاں شریف مرحوم یا آف شور 
کے خفیہ نظام سے ہے۔ اب یہ تحقیقاتی ٹیم پر ہے 
کہ وہ کس طرح ان سوالات کے واضح جواب 
حاصل کرتی ہے۔ سوالات سب کے
سب مالی معاملات کے بارے میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں