"KDC" (space) message & send to 7575

اگلا چیئرمین سینیٹ کون ہو سکتا ہے؟

سیاست جمہوری طرز فکر کے ساتھ ہو تو عوام کو جمہوریت کے ثمرات ملتے ہیں‘ لیکن زمینی حقائق کے تناظر میں ملکی سیاسی حقائق کا جائز لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ حکمران اپنی ناکامیوں کا ملبہ ریاستی اداروں پر گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ طرز عمل درست نہیں۔ ان حالات میں ضرورت اشاروں کنایوں میں ریاستی وقار‘ وفاقی نظام کی روح اور صوبوں میں خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کی نہیں‘ بلکہ پارلیمان کی بالا دستی اور اس کے وقار کو سر بلند رکھنے کی ہے۔ یہ درست ہے کہ پارلیمنٹ نہ رہی تو فیڈریشن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہو سکتا ہے اور اس کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر وقت برباد کرنے سے بہتر ہے کہ سیاسی مین سٹریم اور اپوزیشن جماعتیں اپنی ناکامیوں کو بھی تسلیم کریں۔
ملکی سیاست اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ یہ سب کچھ محض غیر ملکی سازشوں کا نتیجہ ہے‘ جذباتیت اور جارحانہ عمل کا ثمر‘ سیاسی منشور اور ضابطہ اخلاق کو پس پشت ڈالنے کا شاخسانہ۔ قومی سیاسی حلقوں میں زمینی حقائق اور خطے کو درپیش بحرانوں اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لئے ٹھوس روڈ میپ تیار نہیں کیا جا رہا ہے اور میرا خیال یہ ہے کہ اس تناظر میں کچھ معاہدوں میں پاکستان کے مفادات کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔
تین سال پہلے جب چین کے صدر نے ون بیلٹ ون روڈ کا ایفروایشیائی نعرہ لگایا تھا تو یوں لگا کہ اگلے پانچ سات سال میں پاکستان معاشی سطح پر ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنے والا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر علامہ اقبال کے خواب کے مطابق کاشغر سے گوادر کے درمیان ایک بہت بڑی موٹروے بنتی ہوئی محسوس ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کا ٹریک بنتا ہوا نظر آیا۔ اس وقت چین کی تجارت جنوبی چائنہ سمندر کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس راستے سے تجارتی سامان کو تقریباً دس ہزار میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کے بعد یہ راستہ دو ہزار میل میں سمٹ جائے گا۔ جبکہ میری اطلاعات یہ ہیں کہ گوادر سے کوئٹہ، ژوب اور ڈیرہ غازی خان تک آنے والی سڑک صرف تیس فٹ چوڑی ہو گی۔ گوادر کی بندرگاہ تقریباً دس سال بعد مکمل ہو گی۔ اس تناظر میں حکومت کی طرف سے سینیٹ میں گوادر اور سی پیک کے معاہدے کی پیش کردہ تفصیلات حیران کن ہیں۔
دوسری جانب ایران نے بھارت اور افغانستان سے مل کر چاہ بہار بندرگاہ کے توسیعی منصوبے کا افتتاح کر دیا ہے۔ بھارت اور ایران کے مابین باہمی تعاون کو فروغ دیا جا رہا ہے اور بھارت نے ایرانی چاہ بہار بندرگاہ اور اس سے منسلک ریل کی پٹڑیوں اور سڑکوں کے جال کی تعمیر کے لئے پچاس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے ہیں۔ اب بھارت کو وسط ایشیائی ممالک تک رسائی مل جائے گی اور بھارتی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ان ریاستوں میں تخریب کاری کے خدشات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب ہماری حکومت کو دیکھنا ہو گا کہ اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ میرے تجزیئے کے مطابق‘ بھارت کو اب اس باہمی تعاون کے نتیجہ میں ایرانی بندرگاہ سے سمندر پر بھی کنٹرول حاصل ہو جائے گا‘ اس طرح بحری طاقت کے توازن کے بگڑنے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔ 34 کروڑ ڈالر کی لاگت سے تیار کی گئی شاہد بہشتی پورٹ کو بھارت اور ایران کے درمیان خطے اور مشترکہ امور کے لئے استعمال کیا جائے گا۔ اب بھارت کو حاصل ہونے والے مالی فوائد سے اس کو اپنے جارحانہ عزائم کی تکمیل کا موقع مل جائے گا۔ بدقسمتی سے ایسی جارحانہ پالیسی کا مقابل کرنے کے لئے ہمارے ملک میں اس پائے کی قیادت 2018ء کے انتخابات میں بھی نظر نہیں آ رہی اور مجھے خدشہ ہے کہ2018ء میں ہارنے والی جماعت سسٹم کو لپیٹنے کے لئے جارحانہ تحریک چلائے گی‘ جس سے قومی وحدت کو نقصان پہنچے گا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء صرف سیاسی جماعتوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ دھاندلیوں کے سدِ باب کے لئے جامع قانون سازی نہیں کی گئی۔ محض اپنی دولت چھپانے کے لئے کاغذات نامزدگی فارم میں تبدیلی کی گئی۔ لہٰذا میرے خیال میں سی پیک کے عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے صحیح اور قابل قیادت کو آگے لانے کے لئے انتخابی قوانین میں موثر ترمیم کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔
وفاقی دارالحکومت ان دنوں ان قیاس آرائیوں کی زد میں ہے کہ موجودہ حکومت آئینی مدت پوری کرے گی یا نہیں‘ اور اقتدار کی راہداریوں میں بھی یہ بات زیر بحث ہے کہ کیا حکمران جماعت 2018ء میں سینیٹ الیکشن شیڈول تک قائم رہ سکے گی یا اندرونی خلفشار کی وجہ سے قومی اسمبلی کو قبل از وقت تحلیل کرنا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں سیاسی بے یقینی ختم ہونے کے بجائے سانحہ ماڈل ٹائون کی رپورٹ آنے کے بعد مزید بڑھ رہی ہے اور جسٹس نجفی کی رپورٹ سے بادی النظر میں شہباز شریف اور رانا ثنا کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ 2018ء کے الیکشن کے بروقت انعقاد کے لئے آئینی ترمیم درکار ہے۔ قومی اسمبلی میں تو حکومت نے پیپلز پارٹی کو راضی کر لیا تھا‘ لیکن سینیٹ میں یہ ترمیم منظور نہ ہونا واضح اشارہ ہے کہ آصف علی زرداری نواز شریف سے رابطے میں ہیں‘ اور وہ ان سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے جوڑ توڑ کر رہے ہیں‘ ورنہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ہونے کے بعد اور مردم شماری کے پانچ فیصد بلاکس کا تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کروانے کا مطالبہ منظور ہونے کے بعد سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے تعاون نہ کرنے کا جواز نظر نہیں آتا۔ سینیٹ میں ترمیم منظور نہ ہونے سے الیکشن کے بروقت ہونے کے بارے میں بے یقینی کے سائے مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ سینیٹ کا اجلاس 11 دسمبر سے ہو رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کا قومی اسمبلی سے منظور شدہ بل سینیٹ سے منظور کروانے کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں در پردہ کن بنیادوں پر مفاہمت ہو رہی ہے۔ شنید ہے کہ آصف علی زرداری حکومت کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینیٹ کی آئندہ چیئرمین شپ کے لئے فریال تالپور کو آگے لانا چاہتے ہیں اور اس طرح پنجاب کی 12 سینیٹ کی نشستوں میں سے 4 حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی بارہ نشستیں بھی سینیٹ بل کی منظوری کے عوض حاصل کرنے کے لئے دبائو بڑھا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ مارچ 2018ء میں سینیٹ کی چاروں صوبوں‘ فاٹا سمیت‘ 52 نشستوں کے انتخابات ہونے ہیں۔ آصف علی زرداری اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لئے اور حکمران جماعت پر دبائو بڑھانے کے لئے ڈاکٹر طاہرالقادری کے عشائیے میں گئے اور مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعہ پنجاب حکومت کو دبائو میں رکھنے کے لئے علامہ طاہرالقادری کے ساتھ نام نہاد یکجہتی کا اعلان بھی کیا اور پرانی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ دیا‘ حالانکہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اگست 2014 ء میں احتجاجی تحریک میں آصف علی زرداری کی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی‘ اور دیگر جماعتوں سے بھی تعاون کے لئے کہا تھا‘ جو حاصل نہ ہو سکا تھا‘ اور زرداری عمران خان اور طاہرالقادری کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے نواز شریف کی خصوصی دعوت پر جاتی امرا چلے گئے تھے‘ اور ملک کی صدارت حاصل کرنے کا بھی خفیف سا اشارہ دیا تھا۔ میں نے 2014ء میں اسی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں انکشاف کیا تھا کہ آصف علی زرداری صدر مملکت بننا چاہتے ہیں۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ ابھی آصف علی زرداری سینیٹ کی چیئرمین شپ کے لئے فریال تالپور کو آگے لا رہے ہیں۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مارچ تک سیاسی بحران پیدا کر دیا جائے گا تاکہ سینیٹ کے الیکشن کروانا عملاً ممکن ہی نہ رہیں۔ ایسے حالات میں ایک مضبوط سیاسی حکومت کی ضرورت ہے‘ جو اس وقت نظر نہیں آتی۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اہم قومی معاملات پر اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا ابھی تک کوئی اہتمام نہیں کیا‘ جبکہ کہا جا رہا ہے کہ نگران حکومت بھی احتساب کے نام پر مدت میں توسیع کرائے گی۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر حکومتی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی ملی بھگت سے آئین کے آرٹیکل 51 (5) میں مجوزہ ترمیم کرکے حلقہ بندیوں کے لئے قانونی راستہ فراہم کیا گیا‘ تو اس طرح کی قانون سازی سپریم کورٹ میں چیلنج ہو جائے گی‘ اور اس طرح حلقہ بندیوں کا سلسلہ منجمد ہو جائے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں