"KDC" (space) message & send to 7575

سانحہ ماڈل ٹاؤن اور شفاف الیکشن

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2018ء کے انتخابات کے لئے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے جن مسائل کا سامنا ہے‘ ان میں آخری رائے شماری کے مطابق حلقہ بندیاں، ووٹ دینے کے قابل افراد کی فہرستیں، پولنگ سٹیشنز، پولنگ بوتھز اور انتخابی عملے کے حوالے سے اعداد و شمار کا بر وقت حصول شامل ہیں۔ ان ساری تیاریوں کے باوجود اسمبلیوں کی تحلیل یا انتخابات کے با ضابطہ اعلان کے بعد بعض ہنگامی اقدامات ضروری ہوتے ہیں۔ اس بار پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات کے باعث خانہ شماری اور مردم شماری میں تاخیر اور بعض حلقوں کی جانب سے اس پر کئے گئے اعتراضات کے باعث غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی تھی، تاہم دیر سے ہی سہی حلقہ بندیوں کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 51(3) میں ترمیم کے ذریعے قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں رد و بدل سے الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیاں کرنے اور ووٹر فہرستوں پر نظر ثانی کرنے کے لئے پانچ ماہ کا وقت مل گیا ہے۔
الیکشن کمیشن انتخابات کے وقت ہمیشہ آئین کے آرٹیکل 220 کا سہارا لیتا ہے‘ جس کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی حکومتیں الیکشن کمیشن کے تابع ہو جاتی ہیں‘ اور یہ سلسلہ 1974ء سے اب تک کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس سردار محمد رضا اور وفاقی سیکر ٹری بابر یعقوب فتح محمد نے انتخابی نتائج کی شفافیت کے لئے ٹیکنالوجی کا نیا سسٹم اپنی ماہر ٹیم سے تیار کروایا ہے۔ الیکشن کے نتائج اس نئے سسٹم کے تحت فوری طور پر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران تک پہنچ جائیں گے۔ اس طرح پولنگ سٹیشنز سے ریٹرننگ افسران کے دفاتر کے درمیانی فاصلے کو طے کرنے کے دوران ہونے والی دھاندلیوں کا تدارک ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ہماری جمہوریت ابھی تک شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہر پارٹی میں ایک ایسی شخصیت ضرور ہوتی ہے جس کے گرد تمام سرگرمیاں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ سال پاکستان میں انتخابات کا سال ہے‘ لہٰذا سیاسی جماعتیں زیادہ شدت سے سیاسی منظرنامے پر سرگرم نظر آ رہی ہیںلیکن انتخابات کی تیاریوں کی آڑ میں محض ایک دوسرے کی کردار کشی اور اداروں کے درمیان تصادم کا تاثر پیدا کرنے کی سعی ہو رہی ہے۔ کچھ لوگ اپنے اربوں ڈالر بچانے کے لئے غیر ملکی سربراہوں سے رابطے میں ہیں۔ کسی سیاسی جماعت نے آنے والے انتخابات میں عصری تقاضوں کے مطابق عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے اپنا منشور پیش کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ جمہوری اصولوں کے مطابق کون سی سیاسی جماعت کس طرح عوام کی توجہ حاصل کرے گی‘ اس کا دار و مدار جماعت کے منشور پر ہوتا ہے‘ لیکن سیاسی جماعتوں نے کسی تیاری کے بغیر مختلف زاویوں سے انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ دنیا بھر میں موجود جمہوری ممالک کی سیاسی جماعتیں اپنے عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہیں جس میں سماجی، اخلاقی، سیاسی، قانونی، معاشرتی اور معاشی پالیسیاں بیان کی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں تمام بڑی سیاسی جماعتیں اپنے امیدوار برائے وزیر اعظم پر تو توجہ دے رہی ہیں‘ مگر منشور پر توجہ نہیں دے رہی ہیں اور اس طرح جمہوریت کے ساتھ مذاق کر رہی ہیں۔
آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ میری نظر میں انتخابات میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہو چکی ہیں‘ اور الیکشن کمیشن بڑی سرعت کے ساتھ انتخابی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، اور اس طرح پاکستان میں امن اور جمہوری عمل کے حوالے سے بعض عالمی طاقتوں کا ایجنڈا پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکے گا۔ پاناما کیس میں ہونے والے احتساب کا تعلق سیاسی کھیل سے نہیںتھا۔ حکمران طبقہ اپنی اربوں روپوں کی منی لانڈرنگ پر بے نقاب ہوا ہے۔ الیکشن کے بر وقت انعقاد کے لئے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 6 میں نہ صرف غیر آئینی یا ماورائے آئین اقدامات کے تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں اور ایسے اقدامات کو سنگین غداری سے تعبیر کر دیا گیا ہے۔ آرٹیکل 6 کے تحت کوئی بھی شخص طاقت کے استعمال، طاقت کے اظہار یا غیر آئینی طریقے سے آئین کو منسوخ، ملتوی یا متاثر نہیں کر سکتا‘ یہاں تک کہ اس کی کوشش یا سازش بھی نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔ ایسے غیر آئینی اقدامات کو کسی طور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگران سیٹ اپ بنانا ہو گا اور اگرخدانخواستہ کوئی آفت نازل ہو جائے تو نگران سیٹ اپ بھی آئین کے آرٹیکل 254 کا ہی سہارا لینے کی پوزیشن میں ہو گا‘ جیسا کہ 1970ء میں مشرقی پاکستان میں سونامی آنے سے اکتوبر 1970ء کے انتخابات کو 7 دسمبر 1970ء تک مؤخر کر دیا گیا تھا۔
کچھ لوگ جارحانہ پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ لوگ بیرون ملک پڑے اپنے اربوں ڈالرز بچانے کے لئے پاکستان کو بد امنی کی آگ میں دھکیل دیں گے اور اس کی آڑ میں امریکہ، بھارت اور کچھ دوسرے ممالک پاکستان میں مہم جوئی کو سپورٹ کر سکتے ہیں تاکہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے اور اس خطے میں چین کی اقتصادی قوت کو روکا جا سکے۔ ایسی صورت حال میں ملک کو کرپشن سے پاک کرنے کے سلسلے میں احتساب کی خواہش مند سیاسی جماعتیں سپریم کورٹ آف پاکستان سے آئین کے آرٹیکل 254 کے تحت آئینی تحفظ حاصل کرتے ہوئے نگران سیٹ اپ کو مزید چند مہینوں کی سہولت فراہم کرنے کی استدعا منظور کروا سکتی ہیں، اور نگران حکومت کے قیام کے فوری بعد سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داران کی گرفتاری عمل میں لائی جا سکتی ہے، جس سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم کی عمارت زمین بوس ہو جائے گی اور سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داران کیفر کردار تک پہنچ جائیں گے۔ ان کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی ایف آئی آر اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے حکم پر درج ہو چکی ہے، اور اس ایف آئی آر کو اسی طرز پر سر بمہر کر دیا گیا ہے جس طرح 11 نومبر 1974ء کو صاحبزادہ احمد رضا قصوری نے اپنے والد نواب احمد خان کے قتل کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ایف آئی آر اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب رائو عبدالرشید کے حکم پر درج کرا دی گئی تھی اور تین سال بعد جنرل ضیاء الحق نے اسی ایف آئی آر کے تحت مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کروا دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ماحول کی وجہ سے ہی جنرل ضیاء الحق نے 90 روز میں انتخابات‘ جن کا انعقاد 18 اکتوبر 1977ء کو ہونا تھا‘ ملتوی کرا دیئے تھے۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے باعث الیکشن مہم متاثر ہو چکی تھی اور ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے پہلے احتساب پھر انتخابات کا نعرہ بلند کر دیا تھا، لہٰذا میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جونہی یہ افراد گرفتار ہوں گے‘ ملک کی فضا تبدیل ہو جائے گی۔
ختم نبوت ؐ قانون میں تبدیلی کی کوشش ‘کاغذات نامزدگی کے فارم میں رد و بدل‘ انتخابی فہرست ایکٹ 74 کی دفعہ سات بی اور سات سی میں تبدیلی کے معاملات سب کے سامنے ہیں۔ اب سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیر قانون پنجاب کے استعفوں کے لئے اپنی ڈیڈ لائن7 جنوری کر دی ہے۔ پارلیمنٹ ایسے معاملات کو حل کروانے کے لئے عملی اقدامات کرتی نظر نہیں آ رہی‘ اور اس طرح میرے خیال میں پارلیمانی سسٹم خطرے میں پڑ چکا ہے۔ ان حالات میں حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ حکمران جماعت اور اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتیں اپنے اپنے مفادات پر قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے سینیٹ الیکشن کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرکے نیا مینڈیٹ حاصل کریں اور جن کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمات زیر سماعت ہیں ان کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے بارے میں آرڈیننس جاری کیا جائے تاکہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کے مطابق ایماندار قیادت سامنے آئے‘ جس کی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے تشریح کر دی ہے کہ ایماندار اور دیانتدار قیادت ہی پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کر سکتی ہے۔ نواز شریف کو نااہلیت کے باوجود پارٹی سربراہ بنانے کے لئے ایکٹ کی شق 203 میں جو ترمیم کی گئی تھی اس کے خلاف سپریم کورٹ نے درخواستیں سماعت کے لئے منظور کر لی ہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں