"KDC" (space) message & send to 7575

نا اہلی کی مدت‘ الیکشن اور اداروں سے محاذ آرائی

اثاثے چھپانا بددیانتی کے زمرے میں آتا ہے‘ نواز شریف کیس میں یہ فیصلہ ہو چکا۔ اب یہ طے ہونا باقی ہے کہ نااہل کتنی مدت کے لئے ہے، ایک سال کے لئے، پانچ سال کے لئے یا تاحیات! سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی عوامی عہدہ سے نااہلیت کی مدت کا تعین کیسے کیا جائے گا۔ عدالت اس حوالے سے جو بھی فیصلہ دے گی‘ آئندہ وہی قانون تصور ہوگا۔ فی الحال یہ معاملہ حل طلب ہے۔ مدعی کے وکلاء آئین کے آرٹیکل (1) 63 اور آرٹیکل (1) 62 ایف کو پیشہ ورانہ مہارت سے خلط ملط کر رہے ہیں وہ جن ارکانِ پارلیمنٹ کی نااہلی کا حوالہ دے رہے ہیں‘ عدالت نے انہیں 62 (ون ایف) کے تحت نااہل قرار نہیں دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جمشید دستی اور افتخار چیمہ ضمنی انتخاب کے ذریعے دوبارہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف)‘ 1950 اور 1958 کے ایپڈو قوانین سے مشابہ ہے۔ جب پاکستان کے مشہور معروف سیاستدانوں کو ان قوانین کے تحت عوامی عہدہ کے لئے ایک خاص مدت تک نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس ضمن میں حسین شہید سہروردی اور میاں ممتاز محمد خان دولتانہ قابل ذکر ہیں اور ان کی نااہلیت دس سال کیلئے تھی اور میاں ممتاز دولتانہ 1968ء میں سیاست میں دوبارہ متحرک ہو گئے اور پاکستان مسلم لیگ کونسل کے سربراہ منتخب ہوئے۔ انہوں نے 7 دسمبر 1970ء کے قومی انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ ایپڈو کے قانون سے اس قدر ہراساں تھے کہ جب پاکستان مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘ جس کا میں صدر تھا، نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے اعزاز میں لاہور میں 24 نومبر 1966ء کو عشائیہ دیا تو انہوں نے میرے اصرار کے باوجود اس عشائیہ میں شرکت سے معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایپڈو کے تحت وہ کسی بھی سیاسی تقریب میں شرکت کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ میں نے ان کو باور کرایا کہ یہ سیاسی تقریب نہیں ہیں، ہم نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی قومی خدمات کے اعتراف میں ان کو مدعو کیا ہے۔ وہاں کسی قسم کی سیاسی تقاریر نہیں ہوں گی۔ میری یقین دہانی پر مسٹر ممتاز محمد خاں دولتانہ اس تقریب میں شریک ہوئے اور ان کی فائل فوٹو 24 نومبر 1966ء کے بعض جریدوں میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل (I)62(ایف) پر نطرثانی کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ صرف یہ طے کرنا ہوگا کہ اس آرٹیکل کے تحت نااہل کی مدت کتنی ہونی چاہئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اگر 1948ء سے 2018ء تک جائزہ لیا جائے تو نااہلیت کی مدت دس سال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس دوران نااہل اشخاص کو میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی روایت کو مدِنظر رکھنا چاہئے۔ میاں ممتاز محمد خاں نے جو خطوط مجھے تحریر کئے وہ میرے پاس محفوظ ہیں۔
پاکستان میں جمہوری نظام ایک ہموار منتقلی کی طرف جا رہا ہے جس میں وقت پر سینیٹ انتخابات ہوں گے۔ اگر تینوں صوبوں کی اسمبلیاں بھی تحلیل ہو جائیں تو سینیٹ کے انتخابات مقررہ شیڈول پر کروانے کیلئے آئینی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا۔ اس کیلئے آئندہ انتخابات ہوں گے اور حکومت اپنی مدت پوری کرتی نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن خاص حکمت عملی کے تحت حکومت کو دبائو میں رکھنے کیلئے عوام میں تاثرات پھیلا رہی تھی کہ جنوری کا مہینہ حکومت کیلئے بہت بھاری ہوگا، حکومت چلانا مشکل ہو جائیگا بلکہ شاید حکومت ہی ختم ہو جائے، سینیٹ انتخابات نہیں ہو سکیں گے، وقت سے پہلے انتخابات کی باتیں کی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ کہا گیا ہے کہ بھرپور احتجاج کے بعد حکومت نہیں بچ سکے گی مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کیلئے ایک ایک کر کے تمام خطرات ختم ہو رہے ہیں۔ کچھ خطرات اب بھی باقی ہیں مگر اکثر خطرات دم توڑتے نظر آ رہے ہیں۔
بہت سے جمہوری حکمران آئے‘ بہت مقبول‘ ہر دلعزیز‘ ان کے نعرے بھی لگتے ہیں‘ زندہ ہے‘ زندہ ہے لیکن ان کی پالیسیاں‘ان کے نظریات‘ ان کی اپنی جماعتوں اور حکومتوں میں نظر نہیں آتے۔ پاکستان پر کس حکمران کی پالیسیوں اور نظریات نے سب سے زیادہ اثر مرتب کیا‘ مخالفت اور شدید نفرت کے باوجود یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ اس بدقسمت معاشرے میں سب سے زیادہ اثرات نواز شریف کی پالیسیوں کے پائے جاتے ہیں مگر ان کا دور سب سے زیادہ بے نتیجہ رہا ہے۔ گوادر سے لاہور تک نواز شریف کے ہی نقوش قدم دکھائی دیتے ہیں اور یہ اثرات منفی ہیں۔ پاکستان بیس کروڑ انسانوں‘ سات لاکھ کی مضبوط فوج‘ ایٹمی طاقت‘ بے حساب قدرتی وسائل‘ 60 فیصد نوجوان آبادی، انتہائی حساس جغرافیائی حیثیت‘ دشمن ہمسایوں میں گھرا، ایک عالمی طاقت سے محاذ آرا ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے پاس کوئی قدآور شخصیت نہیں جو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو سکے۔ آج ملک فتنوں اور مسابقتوں سے بھرپور دور میں عالمگیر معاشرے میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ اسی تناظر میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہونا چاہئے کہ مذہبی‘ دینی جماعتوں کو مرکزی دھارے میں آنے دیں‘ انہیں انتخابات میں حصہ لینے دیں، اس طرح یہ شدت پسندی کے دائرے سے باہر نکل آئیں گی۔ ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن میں حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہئے اور حالات کا ادراک کرتے ہوئے شہباز شریف نے بھی پیر حمیدالدین سیالوی کے گھٹنے پکڑ کر ان کو منا کر اپوزیشن کے تمام اندیشوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اب تحریک لبیک یارسول اللہؐ نے بھی ختم نبوت کے حوالے سے اپنے مطالبات منوانے کی کوششوں کو پس پشت ڈال کر قومی انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اپنی جماعت کو منظم کرنا شروع کر دیا ہے اور عمران خان نے بھی پیر حمیدالدین سیالوی کی قدم بوسی کے لئے جہانگیر ترین کو ان کی درگاہ پر بھجوایا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ سیاسی افق پر نواز شریف ہی بے تاج بادشاہ نظر آ رہے ہیں۔ نواز شریف اپنی پارٹی کے قائد ہیں اور ان کے عقابی رہنماء اپنے اشتعال انگیز بیانوں اور تقریروں میں بین السطور جس شدت کا اظہار کر رہے ہیں اس پر ابھی تک کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ جس طرح اس وقت ریاست کے معاملات چل رہے ہیں‘ وہ بہرحال مزید زیادہ چلنے کے نہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ڈالر اپنی انتہائی حد پر آ گیا ہے۔ انرجی کی صورتحال یہ ہے کہ ایک خبر کے مطابق اسلام آباد میں گیس کے بحران کے باعث اکثریت کا گزارا اپنے اپنے علاقوں کے تنوروں پر ہے۔ کرپشن اتنی سنگین ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججز گاڈ فادر اور سسلین مافیا جیسے لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
بھارت اور افغانستان پاکستان کی سرحد پر گولہ باری کر رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ سے تعلقات شدید تنائو پر آ گئے ہیں۔ چین اور اس کا عظیم الشان منصوبہ سی پیک رہ گیا ہے‘ اس پر بھی حال ہی میں اسلام آباد میں چینی قیادت نے سیاسی استحکام کے حوالے سے عدم تحفظ کا اظہار کیا ہے۔ اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے شیڈول کے مطابق 2018 کے وسط میں انتخابات بھی ہو جاتے ہیں،جن میں ابھی تک کے تمام انتخابی جائزوں اور سرویز کے مطابق مسلم لیگ (ن) ہی کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے (یعنی شریف خاندان کی انتخابی کامیابی کی پشت پر پنجاب میں صوبائی حکومت کی معاونت کیلئے ڈھائی لاکھ پولیس اہلکار شامل ہوں گے) تو ان حالات میں شریف خاندان خاص طور پر نااہل وزیراعظم کے خلاف چلنے والی تلواریں کب تک اپنے نیام میں رہیں گی؟ نظر آ رہا ہے کہ موجودہ فرسودہ سسٹم 2018ء کے الیکشن میں بھی رائج رہے گا؛ تاہم سینیٹ کے الیکشن سے پہلے اس کے ہونے پر شکوک و شبہات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ شریف برادران نے اپنے 30سالہ اقتدار میں ملک کے ہر ادارے میں اپنے ہم خیال افراد کو مضبوط بنیادوں پر پروان چڑھایا ہے ۔اب نواز شریف اپنی نااہلی کے خلاف جس انداز میں اداروں پر تنقید کر رہے ہیں اس سے یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ ملک کا مستقبل اور اس کی سلامتی جاتی امرا پہنچے گی تو پھر تلواریں نیام سے باہر نہیں آئیں گی؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں