"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم کا دورۂ امریکہ اور قومی سیاست

میرے خیال میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خصوصی بیانیے کی وجہ سے سیاسی ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور آپس میں متصادم ہوتے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی سیاسی ادارے ہمارے ہاں کمزور ہی رہے ہیں‘ زیادہ تر موروثیت کا شکار اور ایک دوسرے سے متصادم۔ ہمارے نظام میں خرابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس بیانیے کی وجہ سے ان پر مزید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ چند سال پہلے بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت میثاق جمہوریت کا معاہدہ کروایا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو بڑی سیاسی طاقتوں کے طور پر جانے جاتے تھے‘ لہٰذا پاکستان میں مقیم ایک ملک کے ہائی کمشنر اور امریکی تھنک ٹینک نیشنل ڈیمو کریٹک انسٹیٹیوٹ کی کاوشوں سے میثاق جمہوریت کی دستاویزات تیار کروائی گئیں‘ جس کے تحت دو بڑی سیاسی طاقتوں کو اپنے مفاد میں کھڑا کیا گیا۔2013 ء کے انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے متنازع نتائج کو تسلیم کرکے میثاق جمہوریت پر اپنی مہر لگا دی۔
الیکشن 2018ء چند ماہ دور ہیں‘ لیکن کسی سیاسی پارٹی نے اب تک اپنا منشور تیار نہیں کیا‘ حالانکہ یہ کام انہیں کئی ماہ پہلے کر لینا چاہیے تھا۔ اب تک تو سیاسی پارٹیوں کے منشور عوام تک پہنچ بھی جانے چاہئیں تھے‘ تاکہ وہ ان کا تجزیہ کرکے اپنا ذہن بنا چکے ہوتے کہ انہیں کس پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ آئندہ الیکشن فیصلہ کن ہوں گے۔ بین الاقوامی امور اور اندرونی چیلنجوں کے حوالے سے عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی ان انتخابات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ فی زمانہ اس خطے میں بہت سی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، حالات تیزی سے تغیر پذیر ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک بڑا منظرنامہ پیش کر رہی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس عظیم منصوبے کے لئے افغانستان میں امن ضروری ہے۔ اس حوالے سے بھارت ایران اشتراک ایک چیلنج ہے‘ جبکہ سعودی عرب امریکہ سے اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے‘ اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ سعودی سلطنت نے اپنے مفادات کے تحت اپنے لئے محفوظ راہیں متعین کی ہیں جو کہ اس کا حق بھی ہے۔ اس کی نئی نوجوان قیادت سیاستدانوں کی کرپشن سے نالاں ہے اور ظاہر ہے وہ کسی اور ملک میں بھی اس طرح کے حالات کو پسند نہیں کرے گی۔ دوسری جانب ہمارے ملک میں کرپشن حد سے زیادہ ہے اور اس کے نتیجے میں غربت کی لکیر پھیلتی چلی جا رہی ہے اور خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے‘ جبکہ اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اس پس منظر میں 62 ارب ڈالر لگانے والا چین اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔ سیاسی قیادتیں ان ملکی و علاقائی چیلنجوں کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی اختیار نہیں کر رہی ہیں، نہ ہی کسی لیڈر میں اس سطح کا تدبر نظر آتا ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کا بیڑا اٹھائے‘ جبکہ عالمی طاقتیں اس صورتحال میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہوں گی۔ 
میرا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان اٹھارہویں ترمیم کے بعد شتر بے مہار ہو گئے ہیں۔ یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ اس ترمیم کے بعد صوبوں اور فیڈریشن کے درمیان عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ صوبوں کے پاس صحت اور ہائر ایجوکیشن کے شعبے کو سنبھالنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے‘ نہ ہی امن و امان کی خراب صورت حال سے نبرد آزما ہونے کا کوئی فارمولا ہے۔ کچھ حلقوں میں اٹھارہویں ترمیم کو شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات جیسا سمجھا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی قوتیں اور ہمسایہ ممالک اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کہ ملک کا سیاسی مستقبل 2018ء کے انتخابات کے بعد کیا ہو گا۔ 
سینیٹ کے الیکشن کے نتائج نے نواز لیگ کے ہوش اڑا دئیے ہیں۔ ایک طرح سے اس کے آئندہ کے منصوبوں پر پانی پھر گیا ہے۔ پتا نہیں انہوں نے کیا کیا سوچ رکھا تھا۔ نواز شریف کا حالیہ بیانیہ ذو معنی ہی سہی کہ ملک کو کنفیڈریشن کی صورت میں چلایا جائے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ کیا آئین اور عوام اس کی اجازت دیں گے؟ میرا یہ بھی خیال ہے کہ نواز شریف سندھی قوم پرستوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عظیم تر پنجاب کا کارڈ کھیل رہے ہیں۔ شاید ان کی پشت پر کوئی چانکیہ کھڑا ہے جو ان کو ذوالفقار علی بھٹو کے وہ افکار‘ جو عوام کی نظروں سے پوشیدہ تھے، سکھا رہا ہے اور یہ بے سوچے سمجھے انہیں آگے بڑھا رہے ہیں۔ ماضی سے بھی ایسی مثالیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے جون 1978ء میں اس وقت کے چیف جسٹس‘ جسٹس انوار الحق کو ٹیلی گرام بھیجا تھا‘ جس میں انہوں نے ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے الزامات کے جواب میں سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے تاریخی جملے ادا کیے تھے ''میں پانچ ہزار سال پرانی تہذیب سے تعلق رکھتی ہوں‘ جس نے مجھے وقار، جرأت اور ایک اخلاقی اثاثہ ودیعت کیا ہے‘‘۔ اسی طرح دو اپریل 1979ء کو جب کرنل رفیع‘ جو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے کمانڈر تھے‘ نے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو غیر رسمی طور پر آگاہ کیا کہ ان کو آئندہ 48 گھنٹوں میں پھانسی دیئے جانے کے امکانات ہیں تو مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے‘ بقول کرنل رفیع کے‘ بے ساختگی سے کہا کہ اگر ایسا کیا گیا تو سندھ وفاق سے علیحدہ ہو جائے گا۔ ن کی پیش گوئی درست ثابت نہیں ہوئی۔ ہمارا یہ صوبہ آج بھی ہمارا حصہ ہے اور ان شا اللہ آئندہ بھی رہے گا۔ بہرحال وہی سوچ اب مجھے کچھ لوگوں کے بیانات میں نظر آ رہی ہے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلافِ معمول طویل ترین امریکی دورے کے بارے میں بھی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔ یہ کہ اس دورے کا مقصد حکمران جماعت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں امریکی حمایت کا حصول تھا۔ وزیر اعظم کی خاموشی سے 6 روزہ دورے پر امریکہ روانگی پر یہ رپورٹس سامنے آئیں کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ میں بااثر شخصیات سے ملے تاکہ لیگی قیادت کو بالعموم اور شریف خاندان کو بالخصوص درپیش بحرانوں سے نجات کے حوالے سے حمایت حاصل کی جا سکے۔ اگرچہ دورے سے متعلق کوئی باضابطہ بیان نہیں جاری ہوا لیکن وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں نے غیر رسمی طور پر صحافیوں کو بتایا کہ ان کا یہ دورہ نجی نوعیت کا تھا، وہ فلاڈیلفیا میں اپنی علیل ہمشیرہ کی عیادت کرنے گئے تھے؛ تاہم شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر سے غیر علانیہ ملاقات سے کئی سوالات اٹھے ہیں۔ سرکاری حکام کی بات چیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم کے دورے کی خارجہ پالیسی امور سے باہر دوسری جہتیں بھی ہو سکتی ہیں؛ اگرچہ سر براہان حکومت جب سفارتی مقاصد کے لئے اس طرح کے غیر علانیہ دورے کرتے ہیں تو ان کے ہمراہ مشیروں کی ٹیم، خارجہ پالیسی کے ماہرین، سفارت کار اور انٹیلی جنس حکام ہوتے ہیں کیونکہ کوئی صدر یا وزیر اعظم اکیلے اہم ریاستی معاملات چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا‘ جبکہ شاہد خاقان کے ساتھ چیف سکیورٹی افسر کے علاوہ کوئی عہدے دار نہیں تھا۔ ایک ایسا وزیر اعظم‘ جس نے چند ماہ قبل عہدہ سنبھالا ہو اور عالمی سفارت کاری کی پیچیدگیوں کو بمشکل سمجھتا ہو‘ کا خارجہ پالیسی کے مقاصد کے لئے امریکہ کا دورہ کرنا ممکن نہیں۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ وزیر اعظم سے پینس کے ڈومور کے مطالبہ کی میڈیا رپورٹس عوامی دلچسپی کے لئے ہیں‘ حقیقت میں ایسی ملاقات کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ امریکہ‘ برطانیہ جیسے ملکوں کا پاکستانی سیاست میں بہت اثر و رسوخ ہے اور یہ روایت بھی موجود ہے کہ جب حکمران طبقہ مشکل میں ہو تو وہ مغربی طاقتوں یا عرب شخصیات کے پاس مدد کے لئے پہنچ جاتا ہے۔ نجی دورے کے دوران وزیر اعظم کی امریکی نائب صدر سے سرکاری امور کی آڑ میں ملاقات قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ اس حوالے سے پوزیشن واضح کی جانی چاہے تاکہ ان چہ میگوئیوں کا خاتمہ ہو سکے اور ملک میں ویسا سیاسی استحکام پیدا ہو سکے‘ جو قومی ترقی اور اگلے عام انتخابات کے حوالے سے بے حد ضروری ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں