"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان الیکشن پارلیمانی کمیشن کے قیام کا اعلان کریں

عمران خان پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ عہد حاضر کے کسی بھی لیڈر سے زیادہ کرشماتی شخصیت ہیں‘ جو پاکستان کے موجودہ حالات میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور یہی کرشماتی خوبیاں مرحوم ذو الفقار علی بھٹو میں پائی جاتی تھیں ‘ لیکن وہ انا ‘ تکبر اور خود نمائی کا شکار ہو گئے اور عہد وفا کے معیارپر پورے نہیں اترے ۔ان کے بعد عمران خان پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں‘ جن کو پاکستان کے عوام کا اعتماد حاصل ہے۔ عمران خان مغربی ممالک کی خارجہ پالیسی کو بھی پاکستان کے حق میں موڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے ‘کیونکہ وہ بین الاقوامی دنیا کے بارے میں مکمل آگاہ ہیں ‘وہ پہلے ہی مضبوط پہچان اور نام رکھتے ہیں ‘ آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجو ایٹ ہیں‘ مغربی حلقوں میں پاکستان کی پہچان بن سکتے ہیں اور سرمایہ کاروں کے لئے پاکستان کو محفوظ ملک بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔اسی پس منظر میں عمران خان نے دیگر سیاسی جماعتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے‘ مگر وہ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے ‘وزیر اعظم بننے اور حکومت بنانے کے لئے انہیں چھوٹی سیاسی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت پڑ رہی ہے اور بڑی حد تک اس میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
کئی حوالوں سے پاکستان ایک اہم ملک ہے‘ یہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے‘ جس کی آبادی بائیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ‘ یہ ایک ایٹمی طاقت ہے ‘جو چین‘ بھارت‘ ایران اور افغانستان کے سنگم پر واقع ہے ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا خود ساختہ اتحادی رہا ہے‘ پاکستان میں دیگر بڑے ممالک کی طرح شاپنگ مالز ‘تعلیمی ادارے ‘ ہسپتال موجود ہیں ‘ اب پاکستان دنیا میں ایک نئی کروٹ لینے والا ہے ۔ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان ذو الفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا کے دورے پر نکلیں گے اور بڑی کاروباری شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے ۔عمران خان نے الیکشن جیتنے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں کم از کم سات مرتبہ چین کا حوالہ دیا اور کرپشن کے خاتمے کے لئے چین کی مثالیں دیتے رہے ۔اس وقت پاکستان کو معاشی طور پر سخت بحران کا سامنا ہے اور چین پہلے ہی کم سود پر سڑکوں اور ریلوے کی تعمیر و ترقی کے لئے اربوں ڈالر دے چکا ہے‘ عمران خان کی کامیابی کے بعد چین نے ایک اطلاع کے مطابق بحران سے نمٹنے کے لئے مزید دو ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ‘ اس کے باوجود انہیں وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کے بعد انتہائی مشکل اور تکلیف دہ اقدامات کرنے ہوں گے ‘ کیونکہ ان کو پارلیمنٹ میں مضبوط ‘ فعال اور طاقتور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ 
عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنائیں گے تو اس کی وضاحت یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی ‘ ہر شخص برابر کا شہری‘ اور رحم دل حکومت جو طاقت اور جبر سے نہیں رحم اور مروت سے نظام چلایا کرے گی ‘ اس مفہوم سے عمران خان کا تقابل قرون اولیٰ کے عظیم مسلمان حکمرانوں کے ساتھ نہیں کر سکتے ‘ عمران خان کو موجودہ سیاست دانوں کے مقابلے میں رکھ کر دیکھنا ہے ‘آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ساتھ ان کا موازنہ کرنا ہے ‘عمران خان کا مہاتیر محمد‘ طیب اردوان ‘ سیکارنو اور جمال عبدالناصر اور امریکہ اور یورپ کے بہترین حکمرانوں کے ساتھ عمران خان کا تقابل کرنا ہوگا ‘عمران خان کی شخصیت نے بھارتی سیاست دانوں کے دلوں میں ہلچل مچا دی ہے‘ کیونکہ بھارت کے لبرل حلقے جن کا بھارت کی سیاست میں اہم دخل ہے ‘ عمران خان کے مداح ہیں اور قوی امکان ہے کہ عمران خان کشمیر کا مسئلہ کشمیری مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق حل کروا دیں گے ‘ بشرطیکہ اپنے ان سیاسی مشیروں سے دور رہیں جو ان کی شخصیت کو گرہن لگانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ پاکستان کے ایک ممتاز کالم نگار امر جلیل نے اپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے 25جولائی کو پاگلوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ‘اور پاکستان میں بھی اقوام متحدہ کے عالمی دن کے حوالے سے 25جولائی کو پاگلوں کا دن منایا جاتا ہے اور پاکستان میں چونکہ روز اول سے ہی مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی یا مطابقت نہیں ہوتی‘ اس لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کسی نے آگاہ نہیں کیا کہ 25جولائی کے دن پاگلوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ ہو چکا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 26جولائی کی تاریخ مقرر کرنی چاہیے تھی ۔ 
عمران خان کو وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک گھنٹہ تک ارکان اسمبلی کے تمام سوالوں کے خود جواب دینا ہوں گے اور وزرا کو بھی جواب دہ ہونا پڑے گا ‘ جمہوری طریقے سے تحریک انصاف نے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور پھر چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر عدوی اکثریت حاصل کرنا پڑی‘ تاہم پارلیمنٹ میں انہیں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کہ پارلیمنٹ میں بلا روک ٹوک اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے رہیں اور ماضی میں حکومت کرنے والی نواز لیگ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک بڑی قوت کے طور پر اپوزیشن کی صورت میں موجود ہے ‘ انہیں نظر انداز کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی ۔ملک و قوم کے لئے بڑے فیصلے کرتے وقت انہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا‘ مسٹر ذو الفقار علی بھٹو سے زیادہ پارلیمانی اکثریت آج تک کسی جماعت کو حاصل نہیں ہوئی‘ پھر بھی وہ اہم قومی معاملات میں اپوزیشن سے مشاورت کرتے تھے اور شملہ معاہدے سے بیشتر انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی اور اپوزیشن جماعتوں نے انہیں لاہور ایئر پورٹ پر دہلی جاتے ہوئے الوداع کیا‘ اس طرح فیلڈ مارشل ایوب خان نے ستمبر 1965 ء کی جنگ کے دوران تمام اپوزیشن جماعتوں کو ایوانِ صدر مدعو کر کے ان سے مشاورت کی اور اپوزیشن نے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا ۔ مادر ملت فاظمہ جناح نے بھی بھر پور طریقے سے ان کی حمایت کی ۔ذو الفقار علی بھٹو نے جب مخصوص دوستوں سے اپنی مشاورت شروع کی تو پیپلز پارٹی کے نظریاتی راہنما ‘جو شروع میں ان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے تھے ‘ ان سے علیحدہ ہونا شروع ہو گئے اور 5جولائی1977ء تک سارا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا تھا ۔ 
عمران خان نے اپنی وکٹری تقریر میں تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنا جارحانہ لہجہ بدل لیا ‘ اس کے ساتھ ہی عاجزی اور انکساری بھی اختیار کر لی ہے۔ انہوں نے روشن پاکستان کی طرف پہلا قدم خود اٹھایا ہے‘ جو ایک مثبت عمل ہے ‘اپنے منشور اور پہلے سو دن کے لئے عملی نمونہ پیش کرنے کے لئے انہیں معاشی‘ داخلی ‘خارجی اور بین الاقوامی مسائل پر قابو پانے کے لئے ایک اچھی اور ماہر ٹیم کی ضرورت ہوگی ۔ اس کا انتخاب ان کے تدبر کی ترجمانی ہوگا ‘کیونکہ تحریک انصاف اس وقت بظاہر متحد اور منظم ہے مگر گروہ بندی کے اشارے بھی مل رہے ہیں ‘ لہٰذا عمران خان کو اپوزیشن جماعتوں سے الیکشن کے نتائج کے حوالے سے گرینڈ ڈائیلاگ کرنا پڑے گی‘ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نقطہ نظر کو بھی اس ڈائیلاگ کا حصہ بنانا چاہیے‘کیونکہ الیکشن بین الاقوامی سٹینڈرڈز کے مطابق ہوئے ہیں اور آر ٹی ایس کے فلاپ ہونے سے الیکشن نتائج پرکوئی اثر نہیں پڑ رہا ۔ٹیکنالوجی فیل ہونے سے الیکشن کی شفافیت پر کوئی آنچ نہیں آتی‘ سندھ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بھی خوش آئند ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کے ریٹائرڈ ججز کا تجربہ فلاپ ہو چکا ہے اور ان کی کار کردگی 2013ء کے الیکشن ٹربیونلز میں حوصلہ افزا ء نہیں تھی اور ان کے بعض فیصلے متنازعہ رہے‘ جسے سپریم کورٹ کو کا لعدم کرنا پڑا‘ لہٰذا لیکشن ٹربیونلز کے ججز حاضر سروسز سے مستعار لیے جا رہے ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں