"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم پارلیمنٹ پر نگاہ رکھیں!

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بائیسویں وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا، اس طرح ان کی بائیس سالہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اب ان کی آزمائش کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ اسمبلی میں ارکان کی تعداد کے مطابق 166 ووٹوں کی ضرورت تھی‘ لیکن ان کی اپنی پارٹی کے ارکان کی تعداد 151 ہے‘ جس کی وجہ سے وزارت عظمیٰ کے لئے انہیں کئی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت لینا پڑی۔ گویا کسی بھی مرحلے پر محض پانچ ارکان کی تائید سے محرومی ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن سکتی ہے۔ ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا بھی ان کے لئے بہت ضروری ہے، کیونکہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت برقرار رکھنے کے لئے انہیں ایسے مطالبات بھی ماننا پڑیں گے‘ جو ممکن ہے ان کے لئے قابل قبول نہ ہوں۔ عمران خان جمہوری طور پر خوش قسمت ہیں کہ انہیں پنجاب اور وفاق میں ایک بڑی حزب اختلاف کا سامنا ہے‘ اور شہباز شریف متحدہ اپوزیشن کے لیڈر بن چکے ہیں۔ پارلیمانی روایت کے مطابق متحدہ اپوزیشن کا لیڈر ہی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بھی ہو گا اور آئندہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو میں بھی اس کا اہم کردار ہو گا۔ چیئرمین قومی احتساب بیورو کے تقرر اور نگران حکومت کے قیام میں بھی اپوزیشن لیڈر کی مشاورت قانونی طور پر لازمی ہو گی۔ سابقہ حکومت کی بعض اہم محکموں اور وزارتوں میں میگا کرپشن کے کیسز آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی وساطت سے پبلک اکائونٹس کمیٹی میں پیش ہوں گے تو متحدہ اپوزیش لیڈر کی حیثیت سے وہ ان کیسز کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ پیدا کریں گے اور اس طرح حکمران جماعت کیلئے کروڑوں روپے کی کرپشن کے کیسز پر کارروائی کرنا مشکل ہو جائے گا۔ صدر ممنون حسین کے صاحبزادوں نے کراچی کے سٹیٹ گیسٹ ہائوس کو بھیڑ بکریوں کا جو فارم بنایا ہوا تھا‘ اس کی تحقیقات کرنا بھی ممکنہ طور پر مشکل ہو جائے گا۔ 
وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف، سردار اختر مینگل، خالد مقبول صدیقی نے اپنے اپنے خطاب میں انتخابی عمل میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا۔ اسی مقصد کے لئے پارلیمانی کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس مطالبے کی توثیق کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے غیر تربیت یافتہ عملے کی کوتاہیوں سے فارم 45 بھی متنازعہ بن چکا ہے‘ جس پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط ہی موجود نہیں‘ جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 95 کے تحت یہ بے حد ضروری تھا۔ الیکشن کمیشن نے یو این ڈی پی کی مالی امداد سے فائدہ اٹھایا‘ لیکن پریزائیڈنگ افسران نے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر عمل درآمد نہیں کیا۔ پریزائیڈنگ افسران نے فارم 45 پر ہر حال میں پولنگ ایجنٹوں سے دستخط کروانے تھے‘ اگر کوئی پارٹی مفادات کے تحت دستخط کروانے سے گریز کرے‘ تو اس کے اسباب کا تفصیلی جائزہ فارم 45 پر ہی ریمارکس کی صورت میں درج کرنا تھا۔ اب الیکشن کمیشن نے 85 ہزار پولنگ سٹیشنوں کا جو رزلٹ فارم 45 کی صورت میں پیش کیا ہے، اس پر پولنگ ایجنٹوں کے دستخط موجود نہیں ہیں۔ یہی معاملات جب پارلیمانی کمیشن کے سامنے اٹھائے جائیں گے تو الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہو گا۔ یہ وہ بنیادی معاملہ ہے جس نے ملک کی انتخابی فضا کو کشیدہ کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے ان وزرا سے ذرا فاصلے پر رہیں‘ جو آئے دن سابقہ حکمران جماعت میں فارورڈ بلاک بنانے کے بارے میں رائے زنی کر رہے ہیں۔ ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا‘ کیونکہ اب عدلیہ اس پوزیشن میں ہے کہ وہ 62 اور 63 پر من و عن عمل درآمد کرائے‘ اور اگر فارورڈ بلاک کی صورت سامنے آئی تو عدالت ان ارکان کو نا اہل کرانے میں تاخیر یا مؤخر جیسے طریقہ کار سے گریز کرے گی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا‘ جب شہباز شریف صاحب چوہدری شجاعت حسین کے 50 کے لگ بھگ ارکان صوبائی اسمبلی کو لے اڑے تھے۔
میری نظر میں سابقہ حکمران جماعت کا میڈیا سیل انتہائی فعال ہے۔ وہ عوام میں یہی تاثر پھیلا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کمزور ہے اور کسی وقت بھی ان کی قومی اسمبلی میں اکثریت کم ہو جائے گی‘ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ عمران خان نے جس حکمت عملی سے وزارتوں کی تشکیل کی ہے‘ میرے خیال میں اس کے نتیجے میں ان کی حکومت آسانی سے پانچ سال مکمل کر لے گی اور قومی اسمبلی میں بھی اب زیادہ ہنگامہ آرائی نہیں ہو گی‘ کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی اپنے اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے ارکان کی رکنیت غیر معینہ مدت کے لئے معطل کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جو زیادہ ہنگامہ آرائی کریں۔ عمران خان کے خلاف نا اہلی کے مقدمات کا جہاں تک تعلق ہے‘ اب چونکہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تین صوبوں تک پھیل چکی ہے‘ تو ان کیسز پر فیصلہ تحمل سے کیا جائے گا۔ ویسے بھی عمران خان کے خلاف ایسی نا اہلی کے کیسز الیکشن کمیشن 2007ء میں خارج کر چکا ہے اور سابق سپیکر ایاز صادق نے بھی عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے کاغذات نامزدگی منظور کئے تھے اور اگر اپوزیشن کے ارکان اس وقت کاغذات نامزدگی پر اعتراض کرتے تو وہ ریکارڈ کا حصہ بن جاتا‘ جس کے باعث کیسز میں مدد ملتی۔ پنجاب میں سپیکر چودھری پرویز الٰہی جمہوری انداز میں ایوان کو چلائیں گے اور فی الحال آئندہ بجٹ اجلاس تک سابقہ حکمران جماعت میں فارورڈ بلاک بننے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
عمران خان نے قوم سے جس عوامی انداز میں خطاب کیا‘ اس سے نواز شریف کیمپ کے صحافی بھی پلٹ آئے ہیں۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے سیاسی، ثقافتی اور سفارتی معاملات میں ولولے اور جوش کی نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی جس کا برصغیر کے بعض بڑے لیڈروں کو ادراک ہی نہیں تھا۔ لاکھوں مہاجرین آگ اور خون کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچے اور ستر لاکھ سے زائد مسلمانوں نے عظیم قربانی دی۔ اس کے بر عکس نواز شریف بھارت کے مفادات کو آگے بڑھانے کے عزم پر نکل پڑے تھے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور بھارت سے دوستی میں غلطی پر غلطی کرتے چلے گئے۔ ان کو احساس تک نہ ہوا کہ پانامہ لیکس ان کے لئے مکافات عمل ثابت ہو گا۔ ان کے خلاف عوامی نفرت کا نتیجہ 2018ء کے قومی انتخابات میں ظاہر ہوا۔ 
موجودہ انتخابات تبدیلی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایک ہی طرزِ سیاست و حکمرانی دیکھ دیکھ کر لوگ تبدیلی کی خواہش کر رہے تھے‘ اور قوم کو توقع ہے کہ وزیر اعظم عمران خان وعدے پورے کریں گے اور نیا دور‘ نئی توقعات کو دیکھتے ہوئے متعدد میڈیا پرسنز نے اپنا رخ تبدیل کر لیا ہے۔ پاکستان کے ممتاز صحافی ضیا شاہد نے اپنے اخبار میں نواز شریف کے بارے میں چشم کشا حقائق بیان کئے ہیں‘ جو نواز شریف کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ نواز شریف کو بھارت نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کی سیاست میں پلانٹ کیا تھا اور ان کا 1976ء سے باقاعدہ پلاننگ کے تحت جاتی امرا میں آنا جانا تھا۔ میاں محمد شریف مرحوم نے اپنے آبائی گائوں جاتی امرا کو جدید ترین ماڈل ویلیج بنانے کے لئے کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دئیے تھے اور جاتی امرا کے دیہی عوام اسے شریف آباد کہنے لگے تھے۔ ہمارے حساس ادارے اس پر نظر رکھے ہوئے تھے‘ لیکن میرے خیال میں شہباز شریف نے ان قوتوں کو احساس دلایا ہوا تھا کہ نواز شریف ایک حد سے آگے نہیں جائیں گے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے ممتاز دانشور آغا مرتضیٰ نے 17 اگست 1988ء کے سانحہ سے چند ہفتے پیشتر ایک انتہائی اہم دستاویزات شریف خاندان کے حوالے سے صدر ضیاء الحق کو پیش کی تھیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں