"KDC" (space) message & send to 7575

انتخابی بے ضا بطگیاں: پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل

اپوزیشن کے مطالبے پر انتخابات میں مبینہ بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیٹی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا موقف ہے کہ اپوزیشن کو 2018ء کے انتخابات پر شکوک و شبہات ہیں اور وہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے کچھ بھی پوشیدہ نہیں رکھیں گے۔ عوام کے نمائندوں پر مشتمل با اختیار خصوصی کمیٹی بنائی جائے گی ‘ کمیٹی کو صرف دھاندلی کی تحقیقات کا اختیار دیاگیا ہے کسی ممکنہ قانون سازی کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اب اپوزیشن کی دانش کا امتحان شروع ہو گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے فلور پر اس کے دائرہ اختیار کو بنیاد بنا کر حکومت کو بند گلی میں کھڑا کر دے یا کچھ اور کرے۔ 2013ء کے الیکشن میں یو این ڈی پی کے ٹیکنیکل سٹاف نے الیکشن رزلٹ کی ترسیل کا نظام وضع کیا تھا۔ 11مئی 2013ء کی رات گیارہ بجے سسٹم خود بخود پر اسرار طریقے سے فلاپ ہو گیا۔ یو این ڈی پی کا عملہ مفلوج ہو کر رہ گیا۔ ریٹرننگ افسران نے یو این ڈی پی کے سٹاف کو رات کے اندھیرے میں باہر نکال دیا گیا اور دھاندلی کا باریک کام مکمل ہونے پر اپوزیشن لیڈر کے طورپر نواز شریف نے رات سوا گیارہ بجے قوم سے خطاب کر کے دو تہائی اکثریت کی خواہش کا اظہار کیا۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت کن پر اسرار ہستیوں سے حاصل کرنے کے لئے مطالبہ کر رہے تھے ؟ در اصل 2013ء کے انتخابات کی یو این ڈی پی کے ایک اہم ملک میں با قاعدہ مانیٹرنگ ہو رہی تھی اور اس ملک کو شام چار بجے کے لگ بھگ اطلاع پہنچا دی گئی تھی کہ مسلم لیگ (ن)شکست کے دھانے پر کھڑی ہے ‘ لہٰذ اسازش کے تحت یو این ڈی پی کے فعال الیکشن رزلٹ سسٹم کو فلاپ کرا کے مینوئل طریقے کا نظام اپناتے ہوئے فارم 14میں گڑ بڑ کرائی گئی اور جو رزلٹ ریٹرننگ افسران نے فارم 16اور17 پر تیار کرنے کے لئے فارم 14کو بنیاد بنایا تھا‘ اس فارم 14کو ازسر نو مرتب کرایا گیا اور متعلقہ پارٹیوں کے نمائندوں کو ریٹرننگ افسران نے باہر نکالتے ہوئے امن و امان کا بیانیہ تراشا۔ ا سی طرز پر 2018ء میں الیکشن کمیشن نے نادرا کی معاونت سے رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم بنوایا۔ اب پارلیمانی کمیشن کو جائزہ لینا ہو گا کہ اس معاہدے کے لئے ٹرم آف ریفرنس کیا تھے‘ کیونکہ اصولی طور پر نادرا کے آر ٹی ایس کی بنیاد پر کسی سرکاری نتیجہ کا اعلان نہیں ہونا تھا ‘ بلکہ اس کے ذریعے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو الیکشن کمیشن آر ایم ایس میں خود فیڈ کرنے کا مجاز تھا اور اسی کے پیش نظر غیر حتمی نتیجہ اور سرکاری اعلامیہ جاری کرنا تھا۔ نادرا نے جو رزلٹ کی ترسیل کے لئے آر ٹی ایس بنایا تھا اسے الیکشن کے عملے کے موبائل فون پر لوڈ کیا گیا تھا اور اس کوچلانے کے لئے پریزائڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران کو تربیت دی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تربیت یافتہ پریزائڈنگ افسران کو بتایا گیاتھا کہ ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد فارم 45 نادرا کے تیار کردہ آر ٹی ایس میں بھیجنا تھا اور یہی فارم امید وار یا اس کے پولنگ ایجنٹس کو تصدیق شدہ دینا تھا ۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد جب فارم آر ٹی ایس میں فیڈ کیاگیا تو رات گیارہ بجے کے لگ بھگ نادرا کا تیار کردہ سسٹم فلاپ ہو گیا اور اس کے چند گھنٹوں کے بعد الیکشن کمیشن کے ترجمان نے اعتراف کیا کہ آر ٹی ایس کا نظام فلاپ ہو گیا ہے اور اب پریزائڈنگ افسران نتائج کے معمول کا پراناطریقہ استعمال کرتے ہوئے رزلٹ دستی طور پر ریٹرننگ افسران کو پہنچائیں گے‘ اس وجہ سے الیکشن کے نتائج کے اعلان میں تاخیر ہو سکتی ہے ۔نادرا کا تکنیکی سسٹم ناکام ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں‘جس کی تحقیقات اب پارلیمانی کمیٹی کو کرنا ہوںگی اور نادرا اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے ہوں گے۔ آر ٹی ایس کی ناکامی میں الیکشن کمیشن کی ایڈمنسٹریشن کی کمزوریاں بھی شامل حال رہی ہیں‘ کیونکہ مختلف شہروں‘ قصبوں اور دور دراز کے دیہات میں پولنگ سٹیشنوں میں کمزور انٹرنیٹ کی وجہ سے سسٹم سست روی کا شکار ہو گیا‘ جس کی وجہ سے نتائج نہ بھیجے جا سکے اور ان کے ساتھ ساتھ دور دراز کے مقامات پر انٹرنیٹ اور وائی فائی کنکشن دستیاب ہی نہیں تھا اور انتظامی طور پر یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ اس باریک پہلو پر نظر رکھتا ‘ لیکن الیکشن کمیشن کی توجہ بڑے شہروں تک محدود رہی ۔ اس کے باوجود انٹرنیٹ کے ماہرین کا یہ بھی کہناہے کہ کمزور ترین انٹرنیٹ کنکشن کے ذریعے بھی فارم 45کی تصویر کو بلا تاخیر اپ لوڈ کیا جا سکتا تھا ‘لیکن اگر کسی پر اسرار شخصیت نے کمپیوٹر ہی بند کر دیا ہویا اسے ہائی جیک کر لیا گیا ہو تو پھر کسی صورت میں بھی فارم کو کمپیوٹر پر لوڈ نہیں کیا جا سکتا۔ میں نے یو این ڈی پی اور نادرا کے بعض ماہرین سے جب اس کمزوری کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کمپیوٹر کی ہیکنگ یا اس میں کسی بھی فنی یا خرابی کے پیش نظر متبادل انتظامات کئے جا سکتے تھے‘ کیونکہ گوگل کے درجنوں سرور دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود ہیں ‘ ایک معطل ہو جائے تو صارف خود بخود دوسرے سرور پر منتقل ہو جاتا ہے ‘ کرپشن ہونے یا ہائی جیک ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوں تو متبادل سسٹم تیار رکھا جاتا ہے ۔
انٹر نیٹ کنکشن مختلف کمپنیوں سے لیا جاتا ہے تاکہ ایک کنکشن کمزور پڑے تو دوسرا یا تیسرا استعمال میں لے آئیں۔ الیکشن کمیشن اور نادرا نے پلان بناتے ہوئے تمام امکانات پیش نظر رکھے تھے اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو الیکشن کمیشن متبادل طریقہ کار پر بریفنگ بھی دے چکا تھا۔ بظاہر جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ماہرانہ ٹیم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سسٹم سے مطمئن ہوگئے تھے۔ اب پارلیمانی کمیشن کو نادرا کے فلاپ شدہ سسٹم کی وجوہات جاننے کے لئے ایف آئی اے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی ماہر ٹیم اور دیگر اداروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنانا ہوگی اور الیکشن کی رات کو الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسران کے زیر استعمال موبائل فون کا فرانزک ٹیسٹ کروانا ہوگا‘ تاکہ بخوبی معلوم ہو جائے کہ الیکشن نتائج میں تاخیر یا رکاوٹ یا دھاندلی کا ذمہ دار کون ہے ۔
حیرانی یوں ہے کہ نادرا کو صرف آر ٹی ایس تک محدود کیوں رکھا گیا‘ اور اندرونی طور پر جو خبریں گردش کر رہی ہیں اس کے مطابق نادرا نے جو سافٹ ویئر خریدا وہ لندن کی ایک فرم سے خریدا گیا تھا اور اسے اشارہ دیا گیا تھا کہ ایسا سسٹم بنایا جائے جو صرف رات گیارہ بجے تک کام کر سکے تاکہ اس کے ذریعے نتائج کے رجحان کا اندازہ ہو جائے۔ اب پارلیمانی کمیشن کی جے آئی ٹی کو دیکھنا ہوگا کہ نادرا نے جس فرم سے سافٹ ویئر خریدا تو اس کے لئے ٹرم آف ریفرنس کی نوعیت کیا تھی‘ کیونکہ نادر اکی ساکھ دائو پر لگی ہوئی ہے اور نادرا کے غیر ممالک میں اربوں روپے کے پراجیکٹ ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ نادرا الیکشن کے رزلٹ کے سسٹم کے بارے میں پارلیمانی کمیشن کو مطمئن نہ کر سکا تو بظاہر یوں محسوس ہوگا کہ رزلٹ رکوانے کی کسی غیر ملکی ادارے کی شرارت ہے‘ لہٰذا الیکشن کمیشن کے کمپیوٹر میں خرابی کیسے ہوئی‘ کس وقت ہوئی ‘یہ پی ٹی سی ایل اور پاکستان ٹیلی کمیو نی کیشن اتھارٹی کے ریکارڈ سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ 
اگر دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 226کو مد نظر رکھیں تو پارلیمانی کمیٹی انتخابی عمل کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے کی مجاز نہیں ہے‘ کیونکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں سے حلف لینے کے بعد الیکشن کی کارروائی کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ سوائے ان معاملات کے جو الیکشن ٹربیونلز میں زیر غور ہیں۔ بہر حال جب 2013 ء میںعمران خان کے مطالبے پر سابق چیف جسٹس نا صر الملک کی سر براہی میں انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں جانچ پڑتال کرانے کے لئے انکوائری کمیشن بنایا گیا تو آرٹیکل 226خود بخودمعدوم ہو گیا تھا ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں