"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کا شکایات سیل اور سازشی عناصر

موجودہ تناظر میں ایک خطرہ یہ ہے کہ حکومت اور معیشت مفلوج ہو جائیں اور بیوروکریسی کا مبینہ عدم تعاون مزید بڑھ جائے‘ جس سے لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہو کہ عمران خان تو نواز شریف اور زرداری سے بھی زیادہ نا اہل ثابت ہوئے ہیں۔ سیاست دانوں کی نا اہلی کو سامنے رکھ کر قوم سیاسی سسٹم کو ہی لپیٹنے کا بھی مطالبہ کر سکتی ہے۔ شریف خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک ارب پتی صنعت کار‘ بینکر کے خلاف 95 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کے حوالے سے گھیرا تنگ ہو رہا ہے‘ اور شنید ہے کہ اس کیس میں وزیر اعظم ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں انہوں نے ایف آئی اے اور ایف بی آر سے اہم دستاویزات منگوائی ہیں‘ جبکہ دیگر متعلقہ اداروں کو بھی شواہد اکٹھے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ یہ ثبوت نیب کے حوالے کئے جا سکیں۔
پاکستانی عوام نے حالیہ عام انتخابات میں دو بڑی جماعتوں کو مسترد کرکے عمران خان کے امیدواروں کو اسمبلیوں میں بھیجا تھا‘ لیکن نئی حکومت نے تو ایک ماہ بعد ہی عالمی مالیاتی ادارے‘ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ کہنے کو تو اس ادارے میں امریکہ کے صرف سترہ فیصد شیئرز ہیں‘ لیکن اس کا اثر و رسوخ اس قدر ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر یہ ادارہ کسی قسم کے فنڈز جاری نہیں کر سکتا۔ اس بنیاد پر پاکستان کو دی جانے والی ہر امداد اور قرضے کے پیچھے دراصل امریکی حکام کی سخت شرائط ہوتی ہیں۔ وزرا کا حال یہ ہے کہ اپنی بات پر چند گھنٹے بھی قائم نہیں رہ سکتے اور سابقہ حکومتوں کی طرح گھسے پٹے عذر تراش کر ستم رسیدہ عوام پر مزید ظلم ڈھانے کیلئے مہنگائی میں اضافے کی تدابیرکر رہے ہیں۔ نئی حکومت نے آتے ہی گیس اور پٹرول کے نرخوں میں اضافہ کیا‘ جس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا اور ہر شے مہنگی ہو گئی۔ ڈالر کی قیمت 138 روپے تک پہنچ گئی جبکہ سٹاک مارکیٹ بری طرح فلاپ ہو چکی ہے۔ ایک ہی دن میں عوام کے دو کھرب ایک سو چالیس ارب روپے ڈوب گئے۔ ملک میں سیاسی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ سرمائے کا تیزی سے انخلا اقتصادی بحران کو اور بھی بڑھانے کا باعث بنے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار میں لانے والے ایک کروڑ اسی لاکھ رائے دہندگان حیران و پریشان ہیں کہ انہیں بیوروکریسی اور بعض وزرا ناکام بنا رہے ہیں۔ اکبر اعظم ان پڑھ تھا‘ لیکن اس کے نورتن انتہائی قابل تھے اور ان کے بل بوتے پر اکبر اعظم برصغیر کا کامیاب ترین حاکم تھا۔
شہباز شریف کے خلاف ریفرنس ثابت ہونے پر انہیں چودہ سال قید کی سزا ہونے اور ان کی تمام جائیداد ضبط ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی منظرنامے میں فواد حسن فواد اور احد چیمہ کے بعد سندھ کے طاقت ور بیوروکریٹس اور آصف علی زرداری کے قریبی رشتے دار فضل پلیجو اور دیگر کے خلاف مقدمے کھل رہے ہیں۔ آصف علی زرداری مبینہ طور پر اربوں روپے کے منی لانڈرنگ کیس میں ملوث ہیں۔ ان کے خلاف بھی ایف آئی اے سر گرم ہے اور اندیشہ ہے کہ ان کو گرفتار کر لیا جائے گا کیونکہ ان کے فنانشل دست راست انور مجید کے قریبی ساتھی اسماعیل، ابو بکر زرداری کے آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی اطلاعات ہیں‘ اور ایمان علی بھی اسی راہ پر چل پڑی ہیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی دوہری شہریت کا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اطلاعات ہیں کہ بلاول کا بھی اقامہ سامنے آ چکا ہے۔ انہوں نے کاغذات نامزدگی کے فارم میں اقامہ کے حقائق کو پوشیدہ رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ کابینہ کے متعدد ارکان کے دوبئی کے اقامے بھی حساس ایجنسیوں کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان بچانے کے لئے صفائی ہونے جا رہی ہے۔ یہی منصوبہ 2011ء میں جنرل کیانی کے زیر غور رہا‘ لیکن نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری اور جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حقائق جاننے کے باوجود اپنا جھکائو صدر آصف علی زرداری کی طرف رکھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ عمران خان کی صورت میں قوم کے سامنے ایسا مسیحا آ گیا ہے جو ملک کو حقیقی معنوں میں اس سمت کی طرف لے جائے گا جس کا اصولی خاکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو آئین ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے پیش کیا تھا اور اس حوالے سے ضمنی انتخابات میں عمران خان کی کامیابی ملک کے وسیع تر مفاد میںہے۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔
کاروبار مملکت چلانے کے لئے ایک نہایت با صلاحیت ٹیم رکھنے کی دعوے دار جماعت کا حکومت سنبھالنے کے وقت ملک کی معاشی حقائق سے بے خبر ہونا ہرگز قابل فہم نہیں۔ عمران خان کے ابتدائی پچاس دنوں کے اقدامات سے لگ رہا ہے کہ وہ بعض دوست ممالک اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے امداد کی امید رکھتے ہیں‘ لیکن اس سمت میں کی جانے والی کوششوںکے حوصلہ افزا نتائج سامنے نہیں آ رہے۔عمران خان کے سابقہ موقف کے سبب آئی ایم ایف کے پاس جانے کا بھی فیصلہ انتہائی مشکل تھا۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان اور دیگر ماہرین معاشیات ‘ جنہوں نے معیشت کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا تھا‘ خبردار کر رہے تھے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی پر جلد قابو نہ پایا گیا تو معاشی ابتری رونما ہو گی۔ اس کے باوجود حکام پر کئی ہفتے اس حوالے سے تذبذب کی کیفیت طاری رہی‘ لیکن بالآخر اب آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس بارے میں بھی ماہرینِ معاشیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان اقتصادی کونسل کے اجلاس میں اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔میں اپنے 35 سالہ تجربے کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان اور عوام کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ موجودہ اقتصادی کونسل کے ارکان اگرچہ ماہر معاشیات ہونے کے دعوے دار ہیں لیکن ان کی ہمدردیاں دہلی، لندن اور واشنگٹن سے ہیں۔ اسی طرح ان کی جو بیوروکریسی ٹیم ترتیب دی گئی ہے‘ اس میں بعض ایسی شخصیات ہیں جو ماضی میں اچھے ریکارڈ کے حامل نہیں تھیں۔ 
بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے ملک میں جاری شدید اضطراب کی کیفیت کو بھانپتے ہوئے وقتی طور پر سرمایہ کاری سے گریز کیا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ڈیم فنڈز کے لئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ایک ہزار ڈالر فی کس بھیجنے کی جو اپیل کی گئی تھی‘ اس کے متوقع نتائج نہیں نکلے اور اس کا جائزہ لینا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ذوالفقار حسین بخاری عرف زلفی بخاری کی سربراہی میں جو ٹاسک فورس بنائی گئی ہے‘ اسے مزید فعال بنانا پڑے گا۔ زلفی بخاری کے سر پر دوہری شہریت کی تلوار لٹک رہی ہے اور حال ہی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے مشیر رئوف رند کو‘ جو صوبائی اسمبلی کے رکن بھی تھے‘ نااہل قرار دے دیا گیا۔ اس سیاق و سباق میں زلفی بخاری کے جذبے میں گرم جوشی کا فقدان ہے۔ ملک کی مالی صورت حال کی ایک بڑی امید بینکوں کا قرضہ واپس نہ کرنے والی ان 22 کمپنیوں اور ان سے وصولی کی خاطر چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سوئوموٹو کارروائی تھی‘ جس کے نتیجے میں انتخابات سے پہلے 54 ارب روپے کی قومی خزانے میں آمد تقریباً یقینی نظر آ رہی تھی۔ اس معاملہ کو بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں حتمی شکل دی جانی چاہئے۔ دیکھا جائے تو ملک کی معاشی بد حالی کی وجہ مشیران اور وزر ا کی سوچ کا واضح نہ ہونا اور فیصلہ سازی میں تذبذب کا شکار ہونا ہے۔ آئی ایم ایف کی میثاق معیشت کے بعد مہنگائی کا جو طوفان آئے گا‘ وہ اس اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو غربت کی لکیر سے نیچے بھی ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم عمران خان کو آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے نواز شریف کی طرز پر خوشامد کہتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی کرشماتی قیادت میں ٹیکسٹائل کی صنعت 30 ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرے گی۔ وزیر اعظم عمران خان کی پشت پر قوم کی واضح اکثریت کھڑی ہے اور ان کے ارد گرد بعض بیوروکریٹس اور دیگر نے جو گھیرا ڈالا ہوا ہے اس پر عوام گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے چالیس لائنوں کی ایکسچینج کے ذریعے شکایات سیل قائم کئے ہیں اس سے ان کے ارد گرد موجود خوش آمدیوں کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ صدر صدام حسین نے بھی اپنے مشیروں اور وزرا کی سازشی چالوں کا پتا چلانے کے لئے شکایات سیل قائم کئے ہوئے تھے اور وہ ہر روز شام 7 تا 9 بجے تک براہ راست کالز وصول کرتے تھے اور گھنٹوں میں شکایت کنندہ کی دہلیز پر پہنچ جاتے تھے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں