"KDC" (space) message & send to 7575

سندھ طاس معاہدہ : پاکستان کو ریگستان بنانے کے وارنٹ؟

چیف جسٹس آف پاکستان میاںثاقب نثار صاحب نے پانی کے موضوع پر سپریم کورٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ بین الا قوامی کانفرنس میں وزرا کی عدم دلچسپی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ پانی کے مسئلے کا جنگی بنیادوں پر حل نا گزیر ہے اور سندھ طاس معاہدہ پر نظر ثانی ضروری ہے ۔ اسی تناظر میں مجھے سندھ طاس معاہدے کے مضمرات کے حوالے سے اس کی اصل دستاویزات پاکستان کے محب وطن بیوروکریٹ اور ممتاز محقق محمد مسعود کھدر پوش کے ہاں دیکھنے کا موقع ملا۔ میری وزارت اطلاعات میں تعیناتی کے دوران غالباً 1973ء ا ور1974ء میں پروفیسر مرغوب احمد صدیقی کے توسط سے محمد مسعود کھدر پوش سے ملاقات ہوئی تھی۔ مسعود کھدر پوش کو وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کے مشیر زراعت ملک خدا بخش نے مردم شماری کے منصوبے پر مشاورت کے لئے مدعو کیا تھا۔زمانہ ٔطالب علمی سے میری مسعود کھدر پوش سے شناسائی تھی؛ چنانچہ اس حوالے سے میں نے ان سے سندھ طاس معاہدے کے مضمرات کے بارے استفسار کیا‘ تو ان کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کی تکمیل کے لئے 1955ء میں ون یونٹ بنا ‘اس وقت بھی نہری پانی کا جھگڑا چل رہا تھا کیونکہ 1952ء میں پانی کے معاملات کے ماہر رابرٹ ملین نے امریکی حکام کو با ور کرایا کہ پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے اگر مغربی پاکستان کے بحیرہ عرب میں گرنے والے پا نی کو پاکستان اور بھارت مل کر کنٹرول اور جمع کرلیں۔ یہ پانی سارے موسم سرما میں استعمال کیا جا سکتا ہے اور تمام صحرا سر سبز ہو سکتے ہیں۔اس طرح پاکستان ستلج ‘ راوی اور بیاس کے پانی کو بھارت کے استعمال کے لئے چھوڑدے کہ وہ اس سے ملیر کوٹ اور بیکانیر کو آباد کرسکے۔ پاکستان اپنے بالائی دریائوں چناب اور جہلم کے علاوہ سندھ سے پانی لائے اور ان حصوں تک پہنچائے جنہیں پہلے ستلج ‘ راوی اور بیاس سیراب کرتے ہیں۔ پاکستان کی کسی حکومت میں رابرٹ کے اس خطرناک منصوبے پر دستخط کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ صدر سکندر مرزا نے پنجاب کی حکومت ختم کرنے کے لئے ڈاکٹر خان کو مغربی پاکستان کا وزیر اعلیٰ بنایا اور پھر غیر معروف سیاسی شخص نواب مظفر قزلباش کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا ۔قزلباش کا شروع میں ون یونٹ کے قیام میں مخالفت کا اہم کردار رہا تھا۔ اسی دوران مرکز میں ملک فیروز خان نون کو وزیر اعظم بنایا گیا جو برطانوی حکومت کے خصوصی نمائندے تھے۔ ری پبلکن پارٹی نے مغربی پاکستان میں جمہوری ادارے کو کمزور کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دراصل اس وقت امریکہ نے پاکستان میں جمہوریت ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ 
اکتوبر1958ء سے پیشتر خان عبد القیوم خان کی پاکستان مسلم لیگ عوامی طاقت حاصل کر رہی تھی اور انہوں نے گجرات کے تیس میل طویل جلوس کی قیادت کی تھی۔ یہ تاثر ابھر اتھا کہ آئندہ انتخابات‘ جو مارچ 1959ء میں منعقد ہو رہے تھے‘ کے بعد وہ بر سر اقتدارہوںگے تو سکندر مرزا نے امریکہ اور برطانیہ کی آشیرباد سے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو وزیر اعظم اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ وہ اکتوبر1958ء میں صدر سکندر مرزا کو ملک بدر کر کے خود صدر مملکت بن گئے ۔ ان کی کابینہ میں عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر محمد شعیب کو مرکزی وزارت خزانہ سے نوازا گیا ۔ محمد شعیب نے مرکزی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اپنے ارد گرد موجود قادیانیوں کے حامی مرکزی بیورو کریٹس اور اہم جرنیلوں کو ساتھ ملا کر صدر ایوب خان کے گرد گھیرا ڈالا اور انہیں سندھ طاس کا معاہدہ تسلیم کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عمل میں مرکزی وزیر برائے مواصلات واٹر اینڈ پاور اور قدرتی وسائل ذو الفقار علی بھٹو بھی پیش پیش تھے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کے ابتدائی خاکے کی تیاری کے دوران جب 1957ء میں جنرل محمد ایوب خان سے رائے حاصل کی گئی‘ تو انہوں نے اپنے ریمارکس میں لکھا تھا: پاکستان کی آرمی ہرگز ایسے کسی معاہدے کے حق میں نہیں جو پاکستان کے لئے خود کشی کے مترادف ہو؛تاہم اقتدار میں آنے کے بعد صدر ایوب خان سندھ طاس معاہدے کے حامی بن گئے اور وزارت اطلاعات و نشریات کے ذریعے سیکر ٹری قدرت اللہ شہاب نے اس کے حق میں عوام کی رائے تبدیل کرنے کے لئے پروپیگنڈا مہم چلائی کہ اس معاہدے سے صرف 16لاکھ ایکڑ زمین متاثر ہو گی‘ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ معاہدے سے متاثر ہونے والا رقبہ 60لاکھ ایکڑ بنتاتھا ۔ بقول محمد مسعود کھدر پوش ‘جن کے دل میں یہ آگ بھڑکی ہوتی تھی‘ وہ خان عبد القیوم خان سے ملے۔ انہوں نے ان کی کاوشوں کی تعریف ضرور کی لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے سے معذرت کر لی‘ کیونکہ وہ ایبڈو زدہ تھے۔ آخر میں اس مرد حق نے محترمہ فاطمہ جناح سے ملاقات کی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا کہ وہ خود اس خطرے کو محسوس کر رہی ہیں‘ پاکستان اس معاہدے کی وجہ سے کمزور ہوتا جائے گا اور ڈر ہے کہ مستقبل میں عوام پانی کی بوند بوند کو ترس جائیں گے‘ کیونکہ ہم جہلم ‘ چناب اور سندھ کے پانی سے جو نہریں بنائیں گے‘ ان کی افادیت کم ہوتی جائے گی اور انڈیا جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ با لآخر چناب‘ جہلم اور سندھ کا پانی بھی کشمیر کے بالائی حصے میں روک لے گا۔محترمہ فاطمہ جناح نے مسعود کھدر پوش کو یہ بھی کہا کہ وہ اس سلسلے میں تحریک شروع کرنے کے لئے تیار ہیں‘ لیکن بد قسمتی سے خود غرض اور مفاد پرست سیاست دان اور اقتدار پرست جماعتیں صدر ایوب خان سے خوف زدہ ہو گئیں ہیں۔ اسی دوران محمد مسعود کھدر پوش نے چوہدری محمد علی سے ملاقات کی۔ وہ پاکستان نظام اسلام پارٹی کے سر براہ تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس مسئلہ پر دوستوں سے مشاورت کریں گے مگر کوئی نتیجہ سامنے نہ آیا۔
محمد مسعود وزیر خارجہ منظور قادر کے پاس گئے اور ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ سندھ طاس معاہدہ ایسی قبر بن جائے گا جس میں تم دفن ہو جائو گے۔ انہوں نے سنجیدگی سے بات سنی‘ لیکن انہیں ٹال دیا کہ اپنا کام جاری رکھو۔ اسی سلسلے میں مسعود کھدر پوش صدر ایوب خان کے دست راست وزیر داخلہ و صحت جنرل کے ایم شیخ کے پاس گئے تو انہوں (کے ایم شیخ) نے انہیں بتایا کہ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جس کے مصنف نے پیش گوئی کی ہے کہ چند برسوں بعد بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا ۔پاکستانیوں نے اس پیش گوئی کو قبول کر لیا کہ بھارت تقسیم ہو جائے گا اور پاکستان کی اس خطے میں خود بخود بالا دستی قائم ہو جائے گی ؛چنانچہ جب کسی با اثر وزیر سے مسعود کھدر پوش بات کرتے تو یہی جواب ملتاکہ سندھ طاس معاہدے کی تکمیل پر دس برس سے زیادہ کا عرصہ لگے گا اور اس کے بعد بھارت نے تو ٹوٹ جانا ہے‘ سب دریائوں پر پاکستان کو کنٹر ول حاصل ہو جائے گا۔ جنرل کے ایس شیخ سے مسعود کھدر پوش نے کہا کہ امریکی امداد سے ملی ہوئی رقوم سے منگلا اور تربیلا کے ڈیم بنانے کے بعد چالیس برسوں میںیہ ڈیم مٹی سے بھر جائیں گے اور سارا نظام ناقص ہو جائے گا تو جنرل کے ایم شیخ نے کہا کہ امریکی دانشور کے مطابق دس سال بعد بھارت کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور اس کی جگہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوں گی‘جن سے اپنا حق وصول کرنا پاکستان جیسے فوجی ملک کے لئے مشکل نہ ہوگا ۔مسعود ہر طرف سے مایوس ہو کر صدر ایوب سے ملنے کا ارادہ لے کر سیکر ٹری قدرت اللہ شہاب کے پاس گئے۔ انہوںنے مشورہ دیا کہ صدر ایوب خان سے اس مسئلہ پر گفتگو نہ کریں ‘یہ بڑا حساس معاملہ ہے‘ صدر ایوب خان ناراض ہو جائیں گے اور تمہیں اپنی بات مکمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا‘ لہٰذابہتر ہے کہ تم اس موضوع پر ایک نوٹ لکھ دو‘ جو صدر کو پیش کیا جا سکے۔کھدرپوش نے سندھ طاس معاہدے پر وضاحت سے تنقیدی رپورٹ لکھ کر قدرت اللہ شہاب کو بھیج دی۔ انہوں نے بڑی جرأت کے ساتھ یہ نوٹ صدر ایوب خان کو پیش کیا‘ لیکن اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ برآمد نہ ہواکہ مسعود ایک انکوائری کی زد میں آ گئے اور ان کو تمام سرکاری حقوق سے محروم کر دیاگیا ۔ 
سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر1960ء کو کراچی میں ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو نے وزیر اعظم بھارت کی حیثیت سے معاہدے پر دستخط کئے ۔ اس معاہدے کے حق میں واٹر اینڈ پاور اور قدرتی وسائل کے وزیر ذو الفقار علی بھٹو اورسیکر ٹری قدرتی وسائل نذیر احمد ‘وزیر خزانہ محمد شعیب ‘ بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر اے کے بروہی ‘ سندھ طاس معاہدے کے مرکزی کردار جی معین الدین اور دیگر راہنمائوں نے اظہار تشکر کے بیانات جاری کئے ۔ ذو الفقار علی بھٹو نے 20ستمبر 1960ء کوکہا کہ خدا کے فضل سے صدر ایوب خان نے پاکستان کو ریگستان ہونے سے بچا لیا۔ پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں