"KDC" (space) message & send to 7575

میثاق حکمرانی سے پہلے…

چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ نے میثاقِ حکمرانی کے لیے صدر مملکت کی سربراہی میں پارلیمانی‘ عدالتی‘ انتظامی‘فوجی‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربرہان کا اجلاس بلانے کی تجویزدی ہے۔انہوں نے پاکستان کی عوام کا مقدمہ لڑنے کے لئے کہا کہ ان کی رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا ہے‘ آخری دم تک لڑوں گا ۔ چیف جسٹس صاحب نے درست فرمایا ہے کہ حکومتی معاملات میں عدالتوں کی مداخلت پر بھی بات چیت ہونی چاہیے اور اصلاح احوال کے لیے ایک میثاق حکمرانی مرتب کرنے کی دعوت سے پاکستان کو اس بحران سے نکالنے میں مدد ملے گی۔ سینیٹر رضا ربانی نے بھی بطور چیئرمین سینیٹ ایسی تجویز پیش کی تھی ۔اب اسی طرح کی تجویز کا چیف جسٹس صاحب کی جانب سے آنا بادی النظر میں ایک انتہائی اہم پیشرفت ہے۔
1973 ء کا آئین بین الاقوامی جمہوری تقاضوں کی عکاسی کرنے سے قاصر ہے‘ کیونکہ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات کی روشنی میں جو آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 14اپریل 1972ء کو منعقد ہوا ‘اس میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخی جملے ادا کیے تھے کہ مشرقی پاکستان کے 165 ارکانِ اسمبلی عارضی طور پر ہم سے علیحدہ ہوئے ہیں اور ان کی نمائندگی کے بعد ہی ملک میں متفقہ آئین سازی کا عمل شروع کیا جائے۔اس اجلاس میں قومی اسمبلی کی نشستیں متحدہ پاکستان کی ترتیب سے لگوائی گئی تھی۔ چاروں صوبوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے ارکان کے لیے 137 نشستیں ترتیب وار لگا دی گئیں تھیں اور مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی کی163نشستیں بھی نظر آرہی تھیں۔ مگر 22 اپریل 1972ء کو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے جب دستور ساز اسمبلی کے صدر کی حیثیت سے خطاب کیا تو مشرقی پاکستان کی 163 نشستوں کو غائب کر دیا گیا اور صرف 137 ارکان قومی اسمبلی نے ہی ملک میں عبوری آئین کی منظوری دیتے ہوئے چوہدری فضل الٰہی کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کر لیا۔7دسمبر1970ء کے انتخابات ‘جو چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر آرڈر جولائی1969ء کے تحت کروائے گئے تھے‘ اس میں طے پا گیا تھا کہ دستور ساز اسمبلی نے چار ماہ میں آئین مرتب کرنا ہے‘ اگر وہ اسی مقررہ مدت میں آئین بنانے میں ناکام رہے تو آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا جائے گا۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ کے بعد چاروں صوبوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کا وجودغیر آئینی اور لیگل فریم ورک سے روگردانی تصور کیا جانا چاہیے تھا اور اصولی طور پر 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار چیف جسٹس آف پاکستان حمودالرحمن کو سپرد کر دینا چاہیے تھا کہ وہ اپنی نگرانی میں ملک میں آئین ساز اسمبلی کے از سر نو انتخابات کرواتے اور اس وقت تک نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جاتا۔ لہٰذا میری نظر میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار کی باگ ڈور دینے کا اس وقت کی عسکری قوت کا فیصلہ غیر آئینی تھا‘ جبکہ اس وقت کے پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر زیڈ اے سلہری اور ڈان کے چیف ایڈیٹر الطاف گوہر نے مزاحمت کی تھی‘ جن کو چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971ء کی رات کو اپنی پہلی نشری تقریر میں برطرف کر کے جیل بھجوا دیا تھا۔
جنرل گل حسن نے مجھے نومبر1974ء میں ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ انہوں نے اٹھائیس فروری 1972ء کو مسٹر بھٹو کو تجویز پیش کی تھی کہ چونکہ لیگل فریم ورک اکتوبر 1969ء کے تحت جو انتخابات کرائے گئے تھے وہ متحدہ پاکستان کے لیے آئین بنوانے کے لئے کروائے گئے تھے‘ اب چونکہ مشرقی پاکستان کے 163 ارکان کے عدم موجودگی اور سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد انتخابات کی قانونی حیثیت ختم ہو چکی ہے ‘لہٰذا قومی اسمبلی تحلیل کر کے از سر نو انتخابات کرا کے آئین سازی کا مرحلہ مکمل کرایا جائے مگرچاروں صوبائی اسمبلیوں کو برقرار رکھا جائے‘ کیونکہ ان کا آئین سازی سے بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے ۔اس ملاقات میں میجر جنرل شوکت‘ جو ملٹری سرجن تھے وہ بھی موجود تھے۔ ا س ملاقات کا پس منظر یہ ہے کہ میری بیگم کی سرجری میجر جنرل شوکت نے ملٹری ہسپتال میں کی تھی اور ان سے ملنے کے لیے سابق جنرل گل حسن آئے ہوئے تھے۔ ان دنوں جنرل گل حسن سپین میں پاکستان کے سفیر تھے۔انہوں نے بتایا کہ میری تجویز مسٹر بھٹو کو ناگوار گزری ‘ چیف آف ایئر سٹاف ظفر چوہدری بھی میرے ہمنوا تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ناگواری سے میری رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں نگران سیٹ اپ کے ذریعے انتخابات کرائے گئے تو پاکستان کے عوام ان کو مسترد کر دیں گے اور سانحہ مشرقی پاکستان کا سارا ملبہ ان پر آن گرے گا۔
یکم مارچ 1972ء کو اچانک پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر جنرل گل حسن سے ملنے آئے اور ان کو لاہور جانے اور بعدازاں شکار پر جانے کے لئے نارووال ان کے فارم پر جانے کی پیش کش کی اور وہ غلام مصطفی کھر کے فریب میں آ گئے اور کار میں ان کے ہمراہ لاہور روانہ ہو گئے ‘ راستے میں ریڈیو پر خبر نشر کردی گئی کے جنرل گل حسن اور ایئر مارشل ظفر چوہدری کو حراست میں لے لیا گیا ہے ۔ انہوں نے خاموشی سے سرکاری اعلامیہ سنا اور صرف یہی کہا کہ پاکستان کی قیادت نے اچھا سلوک نہیں کیا‘ اگر مجھے مستعفی ہونے کی پیشکش کی جاتی تومیں مستعفی ہو جاتا۔ کھر صاحب نے اعتراف کیا کہ انہوں نے صدر بھٹو کی ایما پر یہ کارروائی کی ہے۔ جنرل گل حسن اور ائیر مارشل ظفر چوہدری کو بعد ازاں سفیر مقرر کر دیاگیا۔دراصل مسٹر بھٹو کو کسی نے گمراہ کردیا تھا کہ جنرل گل حسن آئین ساز اسمبلی کے اجلاس سے پیشتر مسٹر بھٹو کو برطرف کرکے چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر بننے کی سوچ رہے ہیں‘ جو کہ حقائق کے منافی سوچ تھی۔
14اگست1973ء کو جو متفقہ آئین قوم کے سامنے آیا اور اس میں جو تسلسل سے تحریف ہوتی رہی‘ اسی کی وجہ سے اداروں میں مفادات کا ٹکراؤ ہوتا رہا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی تجویز صائب رائے کی حیثیت رکھتی ہے‘ اس لیے ضروری ہوگا کہ 18 ویں ترمیم پر از سر نو غور کیا جائے جو قومی اسمبلی میں بحث و مباحثہ کے بغیر رات کے اندھیرے میں عوام کی رائے کے بغیر منظور کرائی گئی ۔ برطانیہ میں ووٹر کی عمر کم کرنے کے سوال پر ریفرنڈم کرایا گیا تھا اور اس میں حکومتی تجویز کو مسترد کر دیا گیا‘ اس کے برعکس پاکستان کے آئین میں 200 سے زائد ترامیم کردی گئیں اور عوام کا اعتماد حاصل کیے بغیر منظور کراکے نافذالعمل کر دی گئیں۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی اٹھارہویں ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے اور کہا تھا کہ ترامیم اسمبلی میں بحث کے بغیر منظور کرائی گئی تھیں۔
میری چیف جسٹس آف پاکستان سے مودبانہ استدعا ہے کہ صدر مملکت کی سربراہی میں ریاستی اداروں کا اجلاس بلانے سے پیشتر اٹھارہویں ترمیم کے بارے میں از سر نو جائزہ لینے کیلئے فل کورٹ اجلاس طلب کرکے اس کی باریکیوں پر غور فرمائیں ۔ محترم چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے فل کورٹ کے فیصلے پر بھی غو رو غوض کرنا چاہئے کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے فوری طور پر فل کورٹ کا اجلاس طلب کرکے اس کے فیصلے کو محفوظ کر لیا تھا ۔
1973ء کا آئین چونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت منظور نہیں کرایا گیا تھا‘ لہٰذا 1973ء کے عمرانی معاہدے کے باوجود مختلف ادارے اپنی اپنی حدود میں کام نہیں کر رہے ۔سینیٹر رضا ربانی فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے تحت فوجی آمر کی ترامیم کو مسترد کردیا‘ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستوں میں بلاوجہ اضافہ کرایا اور اس سے ان کا مفاد وابستہ تھا‘ اس طرح خواتین کی مخصوص نشستوں کو آئین کا حصہ بنانا بھی غیر آئینی تھا ۔خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں بغیر کسی انتخاب کے تفویض کرنا آئین سے مذاق ہے۔ رضا ربانی کو اٹھارہویں ترمیم میں ان کو کالعدم قرار دے کر آمریت کے نشانات مٹاناچاہیے تھے‘ مگر اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے سیاسی پارٹیوں نے اپنے مفادات پر مبنی ترامیم کو من و عن تسلیم کر کے آمریت کے فیصلے پر مہر ثبت کر دی۔ اگر آئین کی ناجائز تجاوزات کو ختم کر نا ہے تو پھر ان تمام آرٹیکلز اور شقوں کو بھی آئین کی امارت سے ہٹانا ہوگا ۔ ان تمام مراحل کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی تجاویز کو عملی طور پر نافذ کرنے کیلئے صدر مملکت کی سربراہی میں ٹرتھ کمیشن کی تشکیل دینا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں