"KDC" (space) message & send to 7575

صدر کا انتخاب اورآئین

1973ء کے آئین کی روح کے مطابق ملک کو ترقی یافتہ فلاحی ریاست بنانے کا کوئی کردار ادا نہیں کیا گیا۔ہماری گزشتہ و موجودہ پارلیمنٹ نے کبھی آئین کے آرٹیکل تین کے مطابق ملک میں انتخابات کرانے کے لیے قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی اسے الیکشن ایکٹ کا حصہ بننے دیا۔ وجہ یہ تھی کہ آئین کا آرٹیکل تین فلاحی ریاست کی ضمانت دیتا ہے۔ میرے نزدیک اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق پاکستان کی اکائیوں کو عملی طور پر یہ احساس اور شعور دیا دیا گیا کہ وہ چاہیں تو آنے والی تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اپنی اپنی خودمختاری کو زیادہ مؤثر اور زیادہ فعال بنانے کا اعلان کر سکتی ہیں۔ ہم نے جو وفاق بنایا ہے ‘وہ جداگانہ شناخت اور لسانی و نسلی تعصبات کی بنیاد پر بنایاہے۔اگر یہ کہا جائے تو درست نہ ہوگا کہ وفاق پاکستان کو موجودہ شکل دے کر ہم نے چاہتے ہوئے بھی سوویت یونین کی چھ سنٹرل ایشیائی ریاستوں کی مانند ہو گئے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کرپشن اور اس سے منسلک سنگین مسائل کو ہی اپنی سیاسی مہم کا بنیادی ایشو بنا رکھا ہے ‘ مگر ہم پاکستان کی گزشتہ 25 سال کی تاریخ کو سامنے رکھیں تو کوئی حکومت ایسی نہیں‘جسے بہت بڑے پیمانے کی کرپشن کے سنگین الزامات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔دو مرتبہ بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو حکومت ملی اور دونوں مرتبہ انہیں کرپشن کے وسیع الزامات کی بنیاد پر برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ تین مرتبہ نواز شریف برسر اقتدار آئے اور تینوں ہی مرتبہ وہ سنگین بدعنوانیوں کے الزامات کے تحت برطرف کئے گئے۔جمہوری اصولوں کے مطابق کسی دوسرے ملک میں کسی سیاستدان کو اس نوعیت کے مقدمات کا سامنا ہوتا تو اس کا سیاسی کیریئر ہی ختم ہوچکا ہوتا‘ مگر ہمارے ہاں کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی نظام نے ان کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔ 
اگرچہ رائے عامہ یہی ہے کہ جتنی کرپشن گزشتہ دس سال کے دوران ہوئی‘ اس کی مثال تلاش کرنا اعدادوشمار کے بڑے بڑے ماہرین کے لیے بھی مشکل ہو گا‘ لیکن اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتی کہ کرپشن کے تمام تر ریکارڈ ٹوٹ جانے کے باوجود کسی ایک کیس میں بھی لگنے والے الزامات ثابت نہیں کئے جا سکے۔ منطقی طور پر بڑی شدت کے ساتھ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس بات پر عمومی طور پر اتفاقِ رائے ہے کہ ہمارا ملک بہت بڑے پیمانے پر کرپشن کی چہرہ دستیوں کا شکار رہا ہے اور اسے بہت ہی بڑے پیمانے پر لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بنایا گیا ہے ‘ تو الزامات جو گردش کر رہے ہیں‘ ان کی فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔ آج کے سیاسی خاندانوں کو تقریباًپوری قوم اچھی طرح جانتی ہے۔ ان میں سے اکثریت کہیں نہ کہیں اقتدارکے ایوانوں پر قابض نظر آتے ہیں۔ تقریباًہر خاندان کی ایک نوجوان نسل ہے‘ ان میں چوہدری خاندان ‘میاں نواز شریف خاندان‘ گیلانی خاندان ‘ زرداری خاندان ہیں ‘جن کے نونہال کاروباری ترقی کی منازل قابل رشک تیزی کے ساتھ طے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس نوعیت کی کرپشن ڈکٹیٹر حکومتوں کے ادوار میںکبھی لوگوں کی نظروں میں نہیں آسکی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان جنرل ضیاالحق‘ جنرل یحییٰ خان اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ان کے صاحبزادگان کبھی کرپشن کی زد میں نہیں آئے۔ گوہر ایوب خان پر ضرور انگلیاں اٹھیں ۔اگر وہ زرداری اور نواز شریف کی طرز پر کرپشن کرتے تو آج ان کا شمار بھی اپنے علاقے کے امرا میں بہت نمایاں طور پر ہوتا‘ لہٰذا اب اسی نظام کی تباہ کاریوں پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
پاکستان کی ناقص پالیسیوں اور بڑھتی ہوئی سیاسی کشمکش کے دوران ملک کی اکثریت میں ایک سوچ یہ بھی ابھر رہی ہے کہ موجودہ پارلیمانی جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام حکومت لاکر ایسا مضبوط نظام لانے کی راہ ہموار کی جائے ۔ یہ نظام کسی پارلیمانی دباؤ کی جانب سے اختلاف رائے کو خاطر میں لائے‘ بغیر ریاست کے مفاد کے مطابق حکمرانی کو عملی جامہ پہنا سکے اور کرپشن کے ناسور کو قائداعظم محمد علی جناح کی آئین ساز اسمبلی میں 11اگست 1947 ء کے خطاب کے مطابق‘ جڑ سے اکھاڑ سکے۔ ملک میں صدارتی نظام حکومت کی صدا 22 دسمبر 2012ء سے گونج رہی ہے ‘جب ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاہور میں عظیم الشان جلسے سے خطاب کے دوران آئین کے آرٹیکل 62 ون (الف) ‘آرٹیکل 3 ‘آرٹیکل 5 اور آرٹیکل 38 کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ‘وہ آئین کے آرٹیکل 3 سے انحراف کئے گئے تھے‘ جس میں مملکت پاکستان کو فلاحی ویلفیئر سٹیٹ بنانے کا عزم کیا گیا تھا۔تاہم 45 سال گزرنے کے باوجود آرٹیکل 3 کے مطابق‘ انتخابات کرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور پارلیمنٹ نے بھی اسی آرٹیکل 3 کے مطابق ایکٹ بنانے کی زحمت نہیں کی ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان اور انتخابی اصلاحات کمیٹی کے ارکان نے بھی اس آرٹیکل کو نظرانداز کیے رکھا۔ان کا بین السطور میں مطمع نظر ماضی کی کرپشن کو انڈر کارپٹ کرتے ہوئے مستقبل کی پالیسی بنانے کا ہی ہے اور ملک میں جو سیاستدان گزشتہ دس سال سے لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہے اور ملک کو 90 ارب ڈالر کا مقروض بناتے ہوئے غیر ملکی اثاثے بناتے رہے ‘ ان کے معاملات دفن کرنا ہی ان کا نصب العین ہے۔
واضح رہے کہ آئین میں ریاست کے مفاد میں ترامیم کرانے سے وحدت پاکستان پر آنچ نہیں آئے گی‘ جبکہ فیڈریشن مستحکم ہوگی ۔بھارت میں گزشتہ 70 سال کے دوران 225 سے زائد ترامیم ہو چکی ہیں اور پاکستان میں سو کے لگ بھگ ترامیم عوام کی نظروں سے اوجھل کر کے پارلیمنٹ میں بغیر مباحثے کے منظور کرائی گئیں ۔ آٹھویں ترمیم جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی پارلیمنٹ میں چھ ماہ تک بحث کے عمل سے گزری اور سترہویں ترمیم کی منظوری کے لئے پارلیمنٹ دو سال تک بحث کرتی رہی‘ جبکہ سینٹر رضا ربانی کی کمیٹی کی تیارکردہ ترامیم چند منٹوں میں پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے پارلیمنٹیرینز میں ابلاغ کی صلاحیت کا مظاہرہ ہی نہیں۔ اس تناظر میںموجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے پارلیمانی نظام کی خامیاں دور کرنے کی ضروت ہے ۔یہ درست ہے کہ دستورِ پاکستان کا پورا ڈھانچہ اس وقت پارلیمانی نظام پر کھڑا ہے اور موجودہ سسٹم میں آئین کے آرٹیکل 41(3) میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کرتے ہوئے صدر کا انتخاب بلواسطہ کے بلاواسطہ کرانے کی شق شامل کی جائے تو اس سے بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہو گا اور ملک میں پارلیمانی نظام برقرار رہے گا اور عوام سے براہ راست صدر کے انتخابات سے ریاست کے مفاد میں عملی اقدامات اٹھانے کے مجاز ہوں گے۔ تاہم صدر کے براہ راست انتخاب کے لئے ترجیحی بنیادوں پر صدارتی الیکشن یوں ترتیب دیا جائے کہ باری باری ہر صوبے سے صدر کا انتخاب کیا جائے۔ جوحلقے عوام میں یہ تاثرات پھیلا رہے ہیں کہ صدارتی طرز حکومت کے نفاذ کے لیے از سر نو آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرانے ضروری ہوں گے۔ دراصل ان شخصیات یا حلقوں نے آئین کی روح کا بغور مطالعہ نہیں کیا ‘آئین ساز اسمبلی کے ایک بار انتخابات ہوتے ہیں اور آئین کی تشکیل کے بعد ان میں ترامیم کا سلسلہ جاری رہنا ہے۔ 
وزیراعظم عمران خان لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں تبدیلی کرا کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب براہ راست کرانے کے حامی ہیں اور ان کے ویژن کے مطابق لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ 12 اپریل 1972ء کو عبوری آئین کی منظوری بھی صدارتی طرز حکومت کے تحت ہی دی گئی تھی اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر 1971ء سے 13 اگست 1973ء تک ملک کے صدر رہے اور صدارتی نظام حکومت کے تحت حکومت کرتے رہے ۔وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے صدر کا تمام پروٹوکول بھی ہائی جیک کرکے ملٹری سیکرٹری‘ اے ڈی سی کا عملہ تعینات کیا اور قوم سے خطاب سے پہلے قومی ترانہ سنانے کی نئی رسم شروع کی۔جبکہ پاکستان میں 15 اگست 1947 ء سے 7 اکتوبر 1958 ء تک جتنے بھی وزیراعظم منتخب ہو کر آتے رہے ان کو یہ پروٹوکول حاصل نہیں تھا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں