"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان اور سعودی ولی عہد کے خوابوں کی تعبیر

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیراعظم عمران خان کو پاکستان کا ایماندار اور مثبت سوچ رکھنے والا حکمران قرار دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار بھی کیا کہ سعودی عرب پاکستان میں ایماندارسیاسی قیادت کا منتظر تھا۔ کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے یہ الفاظ بھی سنہری حروف سے لکھے جائیں گے کہ'' مجھے آپ سعودی عرب میں پاکستان کا سفیر سمجھیں‘‘۔ عمران خان کے کہنے پر سعودی ولی عہدنے دو ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی رہائی کا حکم بھی دیا۔ سعودی ولی عہد کا دورہ ٔپاکستان تاریخی اور مثالی تھا‘ جس میں وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار مثالی رہا۔ سعودی عرب سے پاکستان کی دوستی کی حقیقی شروعات1970ء کے بعد ہوئی۔ اس سے قبل صدر ایوب خان کے دس سالہ دور تک ایران‘ ترکی اور انڈونیشیا کے سوا کوئی بھی مسلم ملک پاکستان کا حقیقی دوست نہ تھا کیونکہ صدر ایوب خان کا جھکاؤ مغربی ممالک اور چین کی طرف رہا؛ البتہ جنرل ضیا الحق کے دور میںیہ دوستی بہت گہری ہوگئی تھی۔جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوبحران کی لپیٹ میں آ ئے تو پاکستان میں مقیم سعودی سفیر ریاض الخطیب آگے بڑھے‘ مگرمسٹر بھٹو کی جان بخشی کے لیے سعودی حکومت نے جو کوششیں کیں‘ وہ ناکام رہیں۔
سعودی عرب کی سرمایہ کاری عوام کے لئے فوری ریلیف کا باعث تو نہیں ہو گی کیونکہ ان کاموں کے پہلے پروجیکٹ بنیں گے‘ ان کی تحقیقی رپورٹس تیارہوں گی اورپھر ان منصوبوں کو فائنل کیا جائے گا اور مشترکہ مفادات کونسل کی رسمی منظوری حاصل کی جائے گی۔ اس کے باوجود سی پیک اور سعودی سرمایہ کاری یقینا پاکستان میں معاشی انقلاب لاسکتی ہے‘ مگر اس کے لئے داخلی استحکام لازمی ہے‘ جس کا مشترکہ اعلامیہ میں بھی اشارہ دیا گیا ہے ۔ موجودہ حکومت جی ڈی پی کے 66 فیصد تک قرضہ لے چکی ہے‘ جو بڑے معاشی خطرے کی نشانی ہے۔ اس خطرے سے نکلنے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب دوطرفہ تعاون کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ عالمی بساط پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال میں تعاون جنوب مشرقی ایشیا سے مغربی ایشیا اور پھر وسطی ایشیا کی طرف بڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اس طرح وہ تجارتی منڈیاں جہاں توانائی کے وسائل موجود ہیں پاکستان کی رسائی میں آ سکتی ہیں۔ سی پیک کی بدولت پاکستان کے راستے تجارتی مال دنیا کے کئی حصوں تک پہنچایا جاسکے گا ‘ مگر نواز حکومت نے اپنے ذاتی مفادات کے تحت سی پیک سے نہر سویز کی طرز پر مالی مفادات حاصل کرنے کے لئے کوئی معاہدہ نہیں کیا؛ چنانچہ اس پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ سرمایہ کاروں اور معاشی خوشحالی کے لیے دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے‘ ایک داخلی امن و استحکام اور دوسرا ویژن۔ موجودہ حکومت کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جا سکتا مگر حکومت کے ویژن کے بارے میں عوام میں تحفظات ہیں‘ حکومتی ٹیم میں ویژن رکھنے والے وزرا کا فقدان ہے۔ 
یہاں کچھ ذکر حکومت کی اس دخل اندازی کا بھی ‘ جس پر بہت سے تحفظات ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو نے غیر قانونی بھرتیوں ‘ قیمتی نوادرات کی سمگلنگ اور کروڑوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے تحت ڈائریکٹر آرکیالوجی خیبر پختونخواعبدالصمد کو گرفتار کرلیا‘ جس کے بعد وزیراعظم عمران خان‘ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اور متعددوزرا نے گرفتاری پر برہمی کا اظہار کیا‘ جس پر چیئرمین قومی احتساب بیورو نے نوٹس لے کر انہیں اپنے روبرو پیش کر نے کا حکم دیا۔ نیب نے ملک بھر میں کرپشن پر گرفتاریاں کی ہیں اوریہ حقیقت ہے کہ نیب نے کسی ایسے شخص کو گرفتار نہیں کیا جس نے کوئی غیرقانونی کام نہ کیا ہو‘ جہاں تک ڈاکٹر عبدالصمد کی گرفتاری کا تعلق ہے تو ان کے خلاف تو نیب کافی عرصے سے تحقیقات کر رہی تھی ۔ ان کے خلاف نہ صرف غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کی جارہی تھیں بلکہ قیمتی نوادرات کی سمگلنگ یااصل نوادرات کی جگہ جعلی نوادرات رکھنے اور محکمہ آثارقدیمہ کے مختلف ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن اور بے قاعدگیوں کی تحقیقات بھی ہو رہی تھیں۔ نیب نے اگر انہیں گرفتار کیا ہے تو ان کے پاس ٹھوس ثبوت ضرور ہوں گے ‘لہٰذا انصاف کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر عبدالصمد تحقیقات کا سامنا کر کے اپنی بے گناہی ثابت کریں۔ جہاں تک ان کی گرفتاری پر وزیراعظم اور دیگر حکومتی حلقوں کے ردعمل کا تعلق ہے تو سربراہ حکومت کو قانونی طور پر یہ حق اور استحقاق نہیں ہے کہ وہ تحقیقات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کریں۔ ملک میں احتساب اور انصاف کے ادارے موجود ہیں اور جب حکمران قومی اداروں پر اعتماد نہیں کریں گے تو عوام کس طرح ان اداروں کو تسلیم کریں گے۔ فریال گوہر پاکستان کی ایک ممتاز آرکیالوجسٹ رہی ہیں‘ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں ڈاکٹر عبدالصمد کے سارے راز کھول دیے ہیں۔
واپس اپنے موضوع پر چلتے ہیں کہ بھارتی ممکنہ جارحیت کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو سادگی لیکن پوری قوت کے ساتھ جواب دیا ہے۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ بھارت نے اگر جارحیت کی تو پھر ہم سوچیں گے نہیں بلکہ پوری قوت سے اس کا جواب دیں گے۔ ان کا یہ جواب سادگی اور بے ساختگی لیکن ٹھوس عزم کا حامل ہے‘ جس نے چھ ستمبر 1965ء کو صدر ایوب خان کی سادہ اورمختصر لیکن بہت ہی پراثر تقریر یاد دلا دی۔ عمران خان کے چھ منٹ کے اس خطاب میں بھارتی وزیراعظم کو جس طرح جواب دیا گیا اس میں کئی ایک حکمت آمیز جملے موجود تھے ‘جن میں اشارہ جنگی تاریخ کی طرف تھا۔ پلوامہ میں حملہ اور ایران میں انتہا پسندی کی پشت پر امریکی تھیوری کا عمل دخل ہے‘ اور یہ سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی مذموم کوشش ہے۔لیکن بھارت اور پاکستان کی جنگ کی صورت میں سی پیک منصوبہ سبو تاژہو گا یا نہیں‘ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ مگر ایک بات طے ہے کہ اس کے نتیجے میں کشمیر بھارت کے چنگل سے ضرور آزاد ہو جائے گا‘ خالصتان کی شکل میں بھارت میں بنگلہ دیش پلس کی صورت بننے کے امکانات بھی پیدا ہو جائیں گے اوربھارت کے کروڑوں سکھ زیادتیوں کا بوجھ اتارتے ہوئے بھارتی یونین کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے خالصتان کی مملکت کی بنیاد ڈال دیں گے ۔ وزیراعظم عمران خان ایشیا کے سنگم پر کھڑے ہیں ‘ مگران کی موجودہ ٹیم میں صلاحیت کا فقدان ہے ۔ اپوزیشن میگا کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ آصف علی زر داری اور فریال تالپور تو پہلے ہی سنگین مقدمات کی لپیٹ میں ہیں ‘سپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کی گرفتاری کے بعد سندھ میں پیپلز پارٹی کا سورج مزید تیزی سے غروب ہونے لگا ہے اور پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی سنجیدہ لیڈر شپ آصف علی زرداری کے مستقبل کو تاریک دیکھتے ہوئے پارٹی کی قیادت کو تبدیل کرنے کی راہ پر چل نکلی ہے۔ امکان ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں سندھ کی حکومت تحریک انصاف کی اتحادیوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی ۔
امریکہ ‘بھارت اور ایران محسوس کر رہے ہیں کہ اسلام آباد اور ریاض کی مثالی دوستی کا سفر نئی بلندیوں سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ 2018ء میں پاکستان کی معیشت نے پانچ فیصد شرح سے ترقی کی ‘ مگر سعودی عرب 2030 تک پاکستان کو ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر دیکھ رہا ہے ‘ اسی لئے پاکستان کی ترقی میں حصہ ڈالنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب کی پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری محض ایک ابتدا ہے‘ دونوں ممالک کے تعلقات بہت آگے جائیں گے ۔پاکستان کا مخصوص جغرافیائی محل وقوع اور سعودی عرب کی خصوصی اہمیت ایک ایسا امتزاج ہے جو خطے کے مستقبل کے لئے سنہری موقع پیدا کرسکتا ہے ۔ بھارت کے حالیہ جنگی جنون کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے‘امید ہے عمران خان حکومت جس کا احسن طریقے سے مقابلہ کرکے پاکستان کو آگے لے جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں