"KDC" (space) message & send to 7575

نریندر مودی اور بھارتی مسلمانوں کا مستقبل

10 اپریل کے بعد ہندوستان میں الیکشن کا بڑا رائونڈ شروع ہونے جا رہا ہے۔ اس سوا مہینے کی اہمیت کا اندازہ یوں لگائیں کہ اگر مودی نے الیکشن جیت لیا تو پھر وہی اگلے پانچ سال ہندوستان کے وزیر اعظم ہوں گے۔ مودی حکومت اب تک پانچ ریاستوں میں الیکشن ہار چکی ہے‘ اور باقی ریاستوں میں الیکشن جیتنے کے لئے انہیں اس سوا مہینے میں ہندو اکثریت کے ووٹ بینک کو اپنا ہم نوا بنانا ہو گا۔ ہندوستان میں جاری جنگی جنون مودی کی اسی الیکشن مہم کا حصہ ہے۔ محدود جنگ واحد طریقہ ہے جس سے مودی حکومت ہندو ووٹ کو اپنی طرف متوجہ کر سکتی ہے۔ اگر اس سوا مہینے میں مودی کو جنگ کا موقع نہ ملا تو وہ الیکشن ہارجائیں گے۔ دوسری جانب افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کا حصہ بن کر اپنی مغربی سرحد کو بھی محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
قوموں کے لئے منزل اہم ہوتی ہے‘ راستہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ مقصد کا حصول اہم ہوتا ہے، طریقہ کار ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کا مقصد نریندر مودی کی الیکشن مہم کو ناکام بنانا ہونا چاہیے تاکہ وہ دوسری مرتبہ وزیر اعظم نہ بن سکیں۔ پھر کوئی شک نہیں کہ سی پیک امریکہ اور بھارت کو پسند نہیں۔ ہم اقتصادی مسائل کا بھی شکار ہیں۔ ان حالات میں ہمارے پارلیمانی راہنما‘ بشمول اپوزیشن کو ادراک ہونا چاہئے کہ بھارت میں مودی جیت گیا تو ہمیں یہ رسمی جنگ بھارتی الیکشن کے بعد طویل عرصے تک لڑنا پڑے گی۔ نریندر مودی کی بی جے پی ایوان زیریں میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے اور حالات و واقعات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ مئی 2019 کے انتخابات میں راجیہ سبھا میں اس کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو جائے گی کیونکہ اس کے ارکان کو ریاستیں منتخب کرتی ہیں اور 29 میں سے 22 ریاستیں بی جے پی کے پاس ہیں۔ 2019 کے الیکشن میں انہیں 282 کی بجائے 362 نشستیں درکار ہیں اور نریندر مودی الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کر کے بھارتی آئین میں ایسی ترامیم کرنے کے خواہش مند ہیں‘ جن کے تحت بھارت میں مقیم 23 کروڑ مسلمانوں کا اس دنیا میں کوئی وطن نہیں رہے گا۔ ایسا بے وطنی کا تجربہ فلسطین و برما کے مسلمانوں اور بنگلہ دیش کے نظریہ پاکستان کے حامیوں کو ہو چکا ہے۔ اب لگتا ہے یہی حال بھارت کے مسلمانوں کا ہونے جا رہا ہے۔ اس معاملے کو کسی بھی سطح پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ 
او آئی سی نے پاکستان اور کشمیریوں کی کھل کر حمایت کر کے اور سچ کا ساتھ دے کر پاکستان دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ او آئی سی کی جانب سے پاکستان کو ایشیا میں انسانی حقوق کمیشن کا مستقل رکن منتخب کرنا بھی ہمارے لئے اعزاز ہے۔ 
او آئی سی 60 کے قریب مسلم ممالک کی تنظیم ہے‘ جس کے پاس مالی وسائل اور افرادی قوت کی کمی نہیں۔ پاکستان ایٹمی قوت ہے جبکہ کچھ ممالک یہ صلاحیت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پاکستان جہاں ایٹمی قوت ہے‘ وہیں اسلحہ سازی کے میدان کا بھی شہ سوار ہے۔ 
فی الحال کچھ سکون ہو چلا ہے‘ کیونکہ پاکستان نے بھارت کے پائلٹ کو اس کے وطن واپس بھیج کر اپنے اس پڑوسی کو شاخِ زیتون پیش کی ہے۔ نریندر مودی کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ پاکستان سمیت دوست ممالک اور عالمی برادری جنگ کو آپشن نہیں سمجھتی‘ مگر نریندر مودی بھارت کے انتہا پسندوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے مہم جوئی پر بضد ہیں۔ پاکستان کی تمام تر امن پسندی کے باوجود بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا۔ خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں کوئی بڑا مسئلہ یا تنازع پیدا نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان بھی لا محالہ بھارت کی جارحانہ عزائم کو ناکام بنانے کے اپنی پوری کوشش کرے گا۔ پاکستان کی حدود میں بھارت کے کتنے طیارے مار گرائے گئے‘ اس بارے میں بحث ابھی جاری ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارت کے تین جنگی جہاز تباہ ہوئے ہیں‘ جن میں بھارت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی شامل ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ اس نے بھارت کے دو طیارے گرائے ہیں۔ 
کشمیر کے بارے میں بھارت کے ارادے ہم سے پوشیدہ نہیں۔ یہ پاکستان اور بھارت کے مابین اصل وجہ نزاع ہے جو وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لال نہرو کے درمیان خفیہ معاہدے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ جولائی‘ اگست 1947 میں لندن میں ریڈکلف ایوارڈ سے پیشتر ہی خفیہ معاہدہ طے پا گیا تھا جس کے تحت گورداسپور سے ملحقہ تین تحصیلیں بھارت کے حوالے کر کے کشمیر کا راستہ پاکستان کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ 
بے شک عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی و علاقائی فورسز کو بھی بھارتی کی پیدا کردہ کشیدگی کی سنگینی کا احساس اور ادراک ہو چکا ہے۔ امریکہ‘ چین‘ برطانیہ، روس، ترکی، قطر کے سربراہان کے علاوہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے بھی پاکستان اور بھارت پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ کشیدگی ختم کریں‘ جبکہ او آئی سی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی جارحیت روکنے پر زور دیا ہے جس سے اقوام عالم میں بھارت کے تنہا ہونے کے تاثر کو تقویت مل رہی ہے۔ مودی حکومت کو اپنے جنگی جنون کے باعث بھارت کے اندر بھی سخت تنقید کا سامنا ہے۔ بھارتی اپوزیشن ہی نہیں‘ دانشور اور فنکار بھی مودی سرکار کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ اپنے ان عزائم کی بنیاد پر مودی حکومت در حقیقت بھارت کی تباہی کا اہتمام کر رہی ہے‘ جبکہ اس کا جنون ایٹمی جنگ کی نوبت لے آیا تو پھر ایٹمی سائنس دانوں کے مطابق اس کرہ ارض کا غالب صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا؛ چنانچہ یہ صورت حال عالمی قیادتوں سے فکر مندی کی متقاضی ہے۔ انہیں علاقائی اور عالمی امن کی پاکستان کی کوششوں کا ساتھ دینا چاہئے اور بھارتی جنونیت روکنے کے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
بھارت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی جانب علاقائی اور عالمی فورموں پر آواز اٹھانے پر ہمیشہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا‘ لیکن وہ اس مسئلے کے حل کے لئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی نہیں بیٹھ رہا۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے‘ بھارت اس کا الزام فوری طور پر پاکستان پر عاید کر دیتا ہے‘ جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ جاتی ہے۔ بھارت کو در حقیقت پاکستان کی سلامتی‘ قومی مفاد اور سی پیک سے چڑ ہے چنانچہ وہ اس کی سلامتی کے خلاف سازشوں میں ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ اس لئے اس نے پاکستان پر 3 جنگیں مسلط کیں اور پھر باقی ماندہ پاکستان کے خلاف بھی سازش کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے۔ اسی نسبت سے بھارت نے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی اور امریکہ فرانس جرمنی اور اسرائیل سے جنگی دفاعی اور ایٹمی تعاون کے لا تعداد معاہدے کر کے اپنی افواج کو ہر قسم کے جدید اور روایتی ہتھیاروں سے لیس کر دیا؛ چنانچہ خود کو ایٹمی قوت بنانا پاکستان کی مجبوری بن گیا جس کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھی۔ پاکستان اپنے تحفظ کا بھی پوری طرح اہل ہے اور اس حوالے سے مکمل طور پر تیار ہے۔ اگرچہ کنٹرول لائن پر گزشتہ چند روز سے صورت حال نسبتاً پر امن ہے لیکن مودی حکومت کبھی بھی کوئی گل کھلا سکتی ہے کیونکہ سی پیک کو متاثر اور ملتوی کرنا ان کا نصب العین ہے۔ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کی نیت رکھتا ہے‘ لیکن اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں