"KDC" (space) message & send to 7575

عمران خان پارٹی کے اندرونی مسائل کا حل نکالیں!

شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان کابینہ کے اجلاس میں جہانگیر ترین کی شرکت سے جو تنازعہ کھڑا ہوا اس سے تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے‘ لہٰذا وزیراعظم عمران خان کو فوری طور پر مداخلت کرکے اختلافات کا ازالہ کرنا چاہیے۔ آئین اور قانون کے مطابق جہانگیر ترین الیکشن لڑنے یا پارٹی کا عہدہ رکھنے سے نااہل ہی رہیں گے لیکن کابینہ یاپارٹی کاان سے مشاورت لینا یا اجلاسوں میں ان کی شرکت میں آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف حائل نہیں ہوتا۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ذوالفقار بخاری کے بارے میں جو فیصلہ دیا‘ وہ جہانگیر ترین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے فیصلے کی روشنی میں جہانگیر ترین آزادانہ طور پر کابینہ کے اجلاس میں‘ وزیراعظم کے ایما پر شرکت کر سکتے ہیں ۔ جس طرح نواز شریف نااہلی کے بعد اپنی جماعت کے سرپرست بن گئے تھے‘ جہانگیر ترین بھی تحریک انصاف کے مشیراعلیٰ بن سکتے ہیں اور اسی کا درمیانی راستہ نکالنا ہوگا کیونکہ جہانگیر ترین کا تحریک انصاف میں بہت مضبوط گروپ موجود ہے جو ان کے دفاع میں اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ شاہ محمود قریشی کی حمایت میں ان کی پارٹی میں بہت کم ارکان اسمبلی ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق ان کے قریبی دوستوں کی تعداد پانچ یا چھ سے زائد نہیں جبکہ اس کے برعکس فواد چوہدری ان سے زیادہ وزن رکھتے ہیں۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی تنازعہ آگے چل کر سیریس ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے لئے پارٹی کے دو اہم رہنماؤں کے اختلافات پریشانی کا باعث ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے سوچ سمجھ کر یہ معاملہ میڈیا کے سامنے اٹھایا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کی پشت پر اپوزیشن کی اہم جماعتوں کی حمایت ہے کیونکہ گورنر پنجاب کی موجودگی میں پریس کانفرنس انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ جب شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کی تو چوہدری سرور کا رنگ اڑ گیا اور پھر کسی اہم پیغام پر شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس ختم کرناپڑی ۔پیغام کیاتھا اور کس نے دیا ؟یہ ابھی راز ہی ہے‘ ممکن ہوا تو پھر کبھی اس کی تفصیل بیان کروںگا۔ فی الحال جہانگیر ترین کے بارے میں کچھ تفصیلات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔
جنرل الیکشن میں پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی سیٹیں 119 جبکہ مسلم لیگ ن کی 129 تھیں یعنی یہ نتیجہ دیکھیں تو ن لیگ پنجاب میں حکومت بنا رہی تھی ۔ 25 آزاد تھے اور عموماً آزاد اسی طرف شامل ہوتے ہیں جس کی حکومت بن رہی ہو اور ظاہر ہے ن لیگ کے 10 ارکان زیادہ تھے۔پھر جہانگیر ترین خود ذاتی طور پر ہر آزاد رکن کے پاس پہنچنا شروع ہوئے اور 25 میں سے 23 ارکان کو تحریک انصاف میں شامل کرا دیا‘ جن میں شاہ محمود قریشی کو ہرانے والے شیخ سلمان نعیم بھی شامل تھے۔ایک رکن ن لیگ میں شامل ہوا اور آخری چوہدری نثار رہ گئے۔پوزیشن ہو گئی 142 تحریک انصاف اور 130 مسلم لیگ ن اور 23 آزاد کی وجہ سے 4 مخصوص نشستوں کا فائدہ بھی ملا۔جہانگیر ترین یہ کوشش نہ کرتے تو تحریک انصاف پنجاب میں بھی بالکل ایسے ہی بے بس ہوتی جیسے سندھ میں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ نواز اورزرداری خاندان سے اربوں ڈالر کی رقوم وصول نہ کر پائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ آگ سیاسی استحکام کے لیے جلائی جا رہی ہے۔ اس طرح ڈیل کی اس آگ سے اٹھنے والا دھواں کروڑوں عوام کے لئے سانس لینا دشوار کر دے گا۔ اگر ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں مزید سخت ایکشن ہو سکتا ہے۔ اس بار موسم گرما میں سیاسی درجہ حرارت بلند رہنے کا امکان ہے ۔ سندھ آنے والے دنوں میں تنازعات کا مرکز ہوسکتا ہے۔ سندھ میں گورنر راج آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت لگایا جاسکتا ہے ۔یاصوبائی حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر یہ اختیار استعمال کیا جا سکتاہے اور وزیر اعظم‘ صدر مملکت کے مشورے سے ایگزیکٹو اتھارٹی استعمال کر سکتے ہیں اور یہ ہدایات دے سکتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے اقتدار کے آغاز ہی میں کرنسی کے بے وقعت ہونے اور ڈالر کے اڑان بھرنے کی راہ ہموار ہو گئی جبکہ پٹرولیم مصنوعات ہی نہیں بجلی‘ گیس اور پانی کے نرخوں میں بھی ماہانہ اضافہ معمول بنا لیا گیا ہے ۔ پھر حکومت نے یکے بعد دیگرے دو منی بجٹ پیش کر کے اور بعض نئے ٹیکسوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا اور یہ سب کچھ خفیہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ قرض کے معاہدے کے مطابق رونما ہوا جس سے بادی النظر میں یہی تصور اجاگر ہو اکہ آئی ایم ایف کی عائد کی جانے والی شرائط کے تحت مہنگائی کی جارہی ہے ۔ اسی طرح کے اضافے ہوتے رہے تو عوام کی جانب سے انتہائی خوفناک رد عمل آ سکتا ہے اور جون کے بعد حکومت اپنے اتحادیوں کی حمایت سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔
چیئرمین قومی احتساب بیورو جسٹس(ر) جاوید اقبال نے بیوروکریٹس سے خطاب کرتے ہوئے بیوروکریسی کو احساس دلایا ہے کہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔ بیوروکریسی کے ہر افسر کو ہمیشہ ملکی مفاد میں فیصلہ کرنا چاہیے اور سیاسی دبائو کے سامنے سر نگوں نہیں ہونا چاہئے۔ ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ہزاروں بے نامی اکاؤنٹس پکڑے جانے کا انکشاف کیا ہے جن میں اربوں روپے کے مشکوک لین دین کی نشاندہی ہوئی ہے اور بے نامی اکاؤنٹس کے خلاف تحقیقات ہو رہی ہے ۔پاکستان بلاشبہ سورہ رحمن کی اس آیت کی تفسیر ہے کہ اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں جو پاکستان میں میسر نہ ہو۔ قدرت کی ان فیاضیوںکے باوجود پاکستان اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں وسائل کو انتہائی منظم طریقے سے لوٹا گیا‘ اربوں ڈالر بیرون ملک بھیجنے سے پاکستانی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔اس طرز عمل کا نتیجہ امیر اور غریب کے مابین خلیج وسیع تر ہونے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ملک کے مڈل کلاس جو کسی بھی معاشرے کا شاک آبزرور ہوتی ہے‘ غربت کی لکیر کے نیچے چلی گئی ہے اور معاشرہ معاشی جھٹکے برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ دوست ممالک کی مالی اعانت کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر مجبور ہو رہا ہے‘ جس کے نتیجے میں مہنگائی کی ایسی لہر اٹھے گی کہ غریب عوام کی کمر ٹوٹ کر رہ جائے گی ۔ ہماری بالائی اشرافیہ یعنی معاشرے کی بالائی پرت اور مقتدر طبقے کی خرابیاں پورے معاشرے میں سرایت کرکے پورے معاشرے کو پراگندہ کر چکی ہیں۔
پاکستان کی مفلوک الحالی اسی کرپشن کا منطقی نتیجہ ہے جو ہر سطح پر پائی جاتی ہے‘ جسے ختم کرنے کا عمران خان صاحب کا ویژن ہے لیکن ان کی موجودہ ٹیم میں ایسے چہرے موجود ہیں جو کرپشن کے خاتمے کے لیے وزیراعظم عمران خان کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ آپ جو تلاش کرتے ہیں آپ کو وہی ملتا ہے‘ اگر تلاش درست رکھیں تو آپ کو راستہ اور روشنی ضرور ملتی ہے۔ حکومت کے بعض لوگ ہر وقت بے ایمانی کی تاک میں رہتے ہیں ‘اگر ان لوگوں نے اپنی طریقہ نہ بدلا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان کو شدید معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے باعث امن عامہ کے شدید مسائل بھی پیدا ہوں گے اور ملک میں خانہ جنگی کے خدشات بھی بڑھ جائیں گے ۔پاکستان کو 37 ارب ڈالر پانچ سالوں میں ادا کرنے ہیں ‘ نو ارب ڈالر اسی سال دینے ہوں گے اور اس کے ساتھ سترہ سو ملین سود بھی دینا ہوگا ۔بدقسمتی یہ کہ حکومت کے وزرا کی نااہلی کی وجہ سے حکومت مکمل طور پر بیوروکریسی کے کنٹرول میں آ گئی ہے اور نواز شریف کے حامی بیوروکریٹس کا ملک کے تمام اداروں پر غلبہ ہے۔ اسی طرح کے تجربے ماضی میں بھی ناکام رہے ہیں قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ موجودہ معاشی مشکلات سے نمٹنے کے لیے وسیع تر قومی مشاورت کا اہتمام کرتے ہوئے افہام و تفہیم کے ماحول میں حکومتی پالیسیوں کے ناقدین کے موقف اور تجاویز کو بھی زیر غور لایا جائے تاکہ بہتر حکمت کی تشکیل کی راہ ہموار ہوسکے۔میاں نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ شرجیل میمن‘ آغا سراج درانی‘ قائم علی شاہ اور ڈاکٹر عاصم کو سنگین بیماریاں لاحق نہیں ہیں وہ سیاسی بیماریوں کی لپیٹ میں ہیںاور انہوں نے عنقریب ملک سے بیماریوں کی آڑ میں فرار ہونا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں