"KDC" (space) message & send to 7575

صدر مملکت کی معنی خیز مسکراہٹ

انتخابی نتائج اور قومی مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لازم ہے کہ ایک جدید اور سادہ قومی نظام حکومت ترتیب دیا جائے‘ جس پر ایک سیاسی جماعت یا گروہ کو حقِ حکومت حاصل ہو اور شخصیات کو منسوخ کیا جائے۔ 1973ء کے آئین کے مطابق اکثریتی جماعت کے حقِ حکمرانی کا تجربہ بار بار ناکام ہونا ایک لمحۂ فکریہ ہے۔تسلیم شدہ موجودہ انتخابی نتائج کے نتیجے میں بننے والی حکومتوں کی ایک سال کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اتحاد کے لئے لازم ہے کہ عوامی نمائندوں کی قومی حکومت تشکیل دی جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں اور نمائندوں کو یکساں حقِ حکومت حاصل ہو۔ اکثریتی جماعت کو حکمرانی کا حق حاصل شدہ سیٹوں کے تناسب سے دیا جائے۔ پانچ سال مدت یعنی 1826 دنوں کو 272 سیٹوں سے تقسیم کیا جائے اور اس طرح دوسرے اور تیسرے کو ترتیب وار وزارتِ عظمیٰ کا قلمدان سونپا جائے۔ تمام ممبران سے وزارتوں کی بہتری کی تجاویز مانگی جائیں‘ سب سے بہترین امیدوار کو پہلے اور بہتر کو دوسرے اور اچھے کو آخری موقع دیا جائے‘ تاکہ ہر ممبر اپنی مدت کے درمیان کسی وزارت کا سربراہ بنے ۔ جن اسمبلیوں میں کسی ایک پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے وہاں اس کی حکومت بنائی جائے اور انہیں سیٹوں کے تناسب سے مدت حکمرانی دی جائے اور باری باری تمام پارٹیوں کو ان سیٹوں کے مطابق حکمرانی دی جائے۔
سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ صدارتی نظام کے حق میں نہیں ہیں تاہم انہیں کوشش کرنے دیں ہم اس کو روکیں گے۔ تاہم ملک کا پارلیمانی نظام ناکامی کی طرف جا رہا ہے کیوں کہ1973 ء کا آئین پاکستان کے مسائل کے حل کی کوئی حکمت عملی نافذ کرنے کی گنجائش نہیں رکھتا جبکہ صدارتی نظام میں قومی اسمبلی کے ارکان کا کام آئین سازی نہیں ہوتا بلکہ قانون سازی ہوتا ہے۔ اس وقت 42 ممالک میں صدارتی نظام چل رہا ہے‘ 21 ممالک میں صدارتی نظام وزیراعظم کے ساتھ چل رہا ہے ۔ صدارتی نظام ہر ملک میں آئین اور دستور کے مطابق چل رہا ہے تاہم بعض ممالک میں اس کی خرابیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ جہاں تک وفاقی اور وحدانی نظام کا تعلق ہے تو وحدانی حکومت وہ ہوتی ہے جس میں تمام سیاسی ‘انتظامی اور مالیاتی اختیارات مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں بس حکومت انتظامی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے کچھ انتظامی اور مالیاتی اختیارات نچلی سطح پر منتقل یا تفویض کرتی ہے جو مرکزی مقتدر اعلیٰ کے ماتحت یا ذیلی انتظامی ڈھانچے کے طور پر خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
عام طور پر بادشاہت اور شخصی آمریتیں وحدانی طرز حکمرانی کو ترجیح دیتی ہیں کیونکہ اس طرح اقتدار اور اختیارات پر مقتدر اعلیٰ کا کلی اختیار قائم رہتا ہے لیکن بعض جمہوریتوں میں بھی یہ طرز حکمرانی رائج ہے جس کی سب سے نمایاں مثال فرانس ہے ۔ دوسری عالمی جنگ تک برطانیہ بھی وحدانی ریاست تھا‘ لیکن عالمی جنگ کے بعد آئین میں ترامیم ہونا شروع ہوئیں اور آہستہ آہستہ اس کا وحدانی ریاستی ڈھانچہ کمزور ہونے لگا ۔آج بھی برطانیہ مکمل وفاق نہیں ہے لیکن مکمل طور پر واحدانی ریاست بھی نہیں رہا۔ آزادی کے بعد بھارت بھی ایک وحدانی ریاست کے طور پر ابھرا تھا‘ جس میں ریاستیں ذیلی انتظامی یونٹ تصور کی جاتی تھیں۔ آج بھی بھارت کی مرکزی حکومت ایک کمیشن کے ذریعے ریاستوں کی حدود میں تبدیلی اور نئی ریاستیں قائم کرنے کا اختیار رکھتی ہے ۔اس طرح بھارت اصولی طور پر ایک وحدانی ریاست ہے لیکن مختلف ادوار میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ذریعے ریاستوں کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مرکزی حکومت کا وحدانی کردار کم ہوا ہے۔ آج بھارت خود کو ریاستوں کی یونین کہلانا پسند کرتا ہے‘ لیکن طرز حکمرانی کی تعریف کی رو سے ابھی تک یہ وفاقیت کی تعریف پر پورا نہیں اترتا ۔ یہ طرز حکمرانی چند ممالک یا ریاستیں اپنے مشترکہ مفادات کے حصول کے لیے از خود قائم کرتی ہیں۔
کنفیڈرل طرزِ حکمرانی میں ہر ریاست کی اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رہتی ہے اور اس کا اپنا انتظامی ڈھانچہ کرنسی اور فوج ہوتی ہے‘ لیکن باہمی اتفاق سے کنفیڈریشن میں شامل ریاستیں اپنی خارجہ پالیسی ‘دفاعی امور اور تجارتی مفادات کا مشترک بنا لیتے ہیں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی پہلی حکومت کنفیڈریشن کی سب سے پہلی مثال ہے جو آرٹیکل کنفیڈریشن کے تحت وجود میں آئی تھی۔ موجودہ گلوبل ورلڈ میں متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین اس کی نمایاں مثالیں ہیں ۔بعض سیاسی ماہرین ملائیشیا کوبھی تیرہ ریاستوں کی کنفیڈریشن قرار دیتے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت موجودہ حالات میں 18 ویں ترمیم میں ترمیم لانے یا صدارتی سسٹم کو اپنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ‘کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں صرف چھ ووٹوں کی اکثریت ہے۔ موجودہ حالات میں پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلا جا سکتا ہے‘ لیکن تحریک انصاف کے پاس اتنی اکثریت نہیں کہ وہ نظامِ حکومت میں تبدیلی لا سکے ۔ پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیلی کے لیے آئین میں ترامیم کی ضرورت ہوگی اور آئین کا ڈھانچہ تبدیل کرنا پڑے گا۔ گلوبل ورلڈ میں پارلیمانی نظام جمہوریت کے بھی متعدد نظام رائج ہیں۔ اسی طرح صدارتی نظام کے بھی اپنے فوائد اور مسائل ہیں۔ فرانس‘ چین ‘ترکی‘ انڈونیشیا اور سری لنکا میں صدارتی اور پارلیمانی نظام کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرض کے حصول کے سلسلے میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر کی کوششیں رنگ لارہی ہیں اور آئی ایم ایف پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے قرضے دینے کے لیے دستاویزات تیار کرچکا ہے۔ ورلڈ بینک سے بھی سات سے آٹھ ارب ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے چھ ارب ڈالر ملیں گے۔ اس طرح آئندہ تین سال میں پاکستان کو مجموعی طور پر 22 ارب ڈالر ملنے کا امکان ہے۔ اس کے باوجود معاشی استحکام کی منزل توقع سے زیادہ دور دکھائی دیتی ہے۔ عالمی اداروں کے علاوہ حکومت دوست ملکوں سے بھی قرض لے رہی ہے۔ مگر ان بڑھتے ہوئے قرضوں کے ساتھ آنے والی مہنگائی کا عوام کیسے مقابلہ کریں گے؟ کمزور گورننس اور ڈوبتی ہوئی معیشت کے ساتھ ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا ۔ معاشی جمود نے پاکستان کو مفلوج بناکر رکھ دیا ہے ۔ پاکستان اگر اپنے قرضہ جات واپس کرنے میں ناکام ہوگیا تو پھر اپنے تمام اثاثے گنوا دے گا جو نواز شریف حکومت نے آئی ایم ایف کو گروی رکھوا کرلئے ہیں۔ قوم کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ پاکستان کے تمام بڑے اثاثہ جات گروی رکھوا کر قرض لیا گیا اور اگریہ قرض جلدی نہیں اتاراجاتا تو ڈیفالٹ لسٹ میں ڈال دیا جائے گا ۔ان حالات میں وزیراعظم عمران خان نے جو معاشی ماہرین کی ٹیم تشکیل دی ہے اس کو ملکی مفاد مدنظر رکھنا ہوگا ۔خدشات مگر یہ نظر آرہے ہیں کہ بجٹ اجلاس کے دوران آوازیں اٹھیں گے اور اندازہ یہ ہے کہ تبدیلی نظام کے اندر سے ہی آئے گی ۔ آئین کا آرٹیکل پانچ بڑی اہمیت حاصل کر جائے گا کیونکہ اسمبلی کی تحلیل کے بغیر اسمبلی کے اندر سے تبدیلی آجائے گی اور ممکنہ طور پر اس کا آغاز پنجاب سے کیا جائے گا۔ چیئرمین سینیٹ اورسپیکر قومی اسمبلی بھی اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ بہرکیف قومی قیادت کو اہم فیصلے کرنا ہوں گے کیونکہ ریاست کی حفاظت کے لئے آئین کا آرٹیکل پانچ تمام آئینی راستے کھولنے کا سبب بن سکتا ہے ۔صدر مملکت کی مسکراہٹ سے بہت سے نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ 1973ء کا آئین کوئی قابل عمل دستاویز نہیں ہے ۔ جغرافیائی سیاسی ترقی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اس میں مسلسل ترامیم کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔علاوہ ازیں یہ اچھے اور برے میں امتیاز نہیں کر سکتا ۔فلور کراسنگ کے نام پر کسی کی بھی رکنیت ختم کردی جاتی ہے‘ جبکہ جمہوریت جو کہ سیاسی موروثی جماعتی نظام ِانتخاب پر منحصر ہے ملک میں خاندانی اور دوستی کی آمریت کے مکروہ چہرے کے سوا کچھ نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں