"KDC" (space) message & send to 7575

مالیاتی ادارے بجٹ میں کٹوتی چاہتے ہیں

کہنے کو تو وزیراعظم عمران خان عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن گزشتہ 9 ماہ کے دوران ان کے کیے گئے اقدامات سے عام آدمی کو ریلیف نہیں ملا۔ عوام بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے باعث مہنگائی کے بے رحم طوفان کی زد میں ہیں۔'' احساس‘‘ کے عنوان سے جو جامع اور مفصل پروگرام شروع کیا گیا ہے یہ تب ہی سودمند ہوگا جب اسے فلاح عامہ کے لیے کام کرنے والے کامیاب اداروں کی طرز پر چلایا جائے‘ کیونکہ یہ فلاحی ادارے لاکھوں مستحقین کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی ٹاسک فورس نے ابھی تک ان اداروں کے سربراہوں سے رابطہ کرکے ان کے فلاحی اداروں کے خدوخال کے بارے میں بریفنگ نہیں لی۔ وزیراعظم کی کابینہ کے لوگ وہی کر رہے ہیں جو ماضی کی حکومتوں کا وتیرہ تھا۔ ان کے ایک وزیر مملکت مہنگائی کے تین فیصد بڑھنے کا اعتراف کررہے ہیں جبکہ اس وقت عام آدمی کی حالت یہ ہے کہ اسے دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسر ہے۔ حکومت کی جانب سے آنے والے بجٹ میں مزید مہنگائی کا عندیہ دیا جا رہا ہے‘ اگر مہنگائی کی موجودہ صورتحال نے ہی عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے تو مزید مہنگائی کا نتیجہ کیا ہو گا‘ حکومت کو اس کا بخوبی ادراک ہونا چاہیے ۔
حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاملات اور شرائط پارلیمنٹ کے روبرو پیش کرنی چاہئیں۔ آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا تین سال کا معاہدہ کیا گیا ہے‘ یہ رقم قسطوں میں وصول ہو گی‘ پہلی قسط دو سے تین ارب ڈالر اسی برس ملے گی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس رقم سے پاکستان کا موجودہ معاشی بحران کیسے ختم ہو گا؟پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کیسے مستحکم ہوں گے؟ قرضوں کی ادائیگی کا دباؤ کیسے ختم ہو گا؟ مئی اور جون میں پاکستان نے اڑھائی ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر پر دباؤ مزید بڑھے گا اور روپے کی قدر میں کمی ہو گی۔ حکومت مداخلت نہیں کر سکے گی کیونکہ سٹیٹ بینک خود مختار اور آزادانہ فیصلے کا حامل ادارہ ہو گا اور ڈالر کی شرح مبادلہ اوپن مارکیٹ طے کرے گی۔ افراطِ زر پر قابو پانے کے لئے شرح سود میں اضافہ کرنا ہو گا جس کے نتیجے میں سرمایہ کاری اور صنعت کاری میں کمی ہو گی‘ روزگار کے مواقع نہیں پیدا ہوں گے‘ لوگوں کی قوت خرید میں مزید کمی واقع ہو گی‘ بڑی صنعتوں کی کم ترقی سے چھوٹی اور گھریلو صنعتیں دم توڑ جائیں گی۔ بجٹ خسارہ کم کرنا ہو گا جس کے لئے ٹیکس کے دائرے اور اس کی شرح میں اضافہ کیا جائے گا‘ توانائی کے شعبے میں نقصان پر قابو پانا ہے‘ مطلب یہ کہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو گا۔ ان اقدامات سے لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس پر شدید مالی دبائو آئے گا۔ سرکاری اداروں کا خسارہ ختم کرنا ہے لہٰذا ان اداروں کی نجکاری لازمی ٹھہری۔ ہزاروں لوگ بے روزگار کئے جائیں گے‘ سبسڈی کا خاتمہ ہو گا جس سے قیمتوں میں اور اضافہ ہو گا۔ ترقیاتی اخراجات میں اضافہ نہیں ہو گا جس کے نتیجے میں نئے منصوبے کم بنیں گے۔ روزگار کے ذرائع نہیں پیدا ہوں گے اور شرح نمو میں کمی واقع ہو گی۔
آئی ایم ایف کی پریس ریلیز دانستہ طور پر مبہم رکھی گئی ہے‘ اس لئے اس بات کا تعین نہیں کیا جاسکتا کہ اصل میں کیا ہونے والا ہے‘ لیکن سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ معاہدہ آئی ایم ایف انتظامیہ کی منظوری ‘ ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری اور سابقہ اقدامات اوربین الاقوامی پارٹنرز کے فنانشل وعدوں کی تصدیق سے مشروط ہے ۔ اس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پروگرام کام نہیں کرے گا کیونکہ اس کی منظوری کے لیے بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے۔ دفاع پر اخراجات اور محصول کے درمیان خسارہ اور جاری ترقیاتی بجٹ کے اخراجات جو اس وقت تین فیصد پر ہیں انہیں اگلے مالی سال میں کم کرکے 0.6فیصدتک لانا ہوگا‘ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں رہا سوائے اس کے کہ وہ ترقیاتی بجٹ یا دفاعی بجٹ میں بڑی کٹوتی کرے۔ آئی ایم ایف کی پریس ریلیز کے مطابق پاکستان کے ڈیویلپمنٹ پارٹنرز سے ان قرضو ں کے تسلسل یا تجدید کے لئے وعدے کرنا ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو چین ‘متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوں گے کہ وہ اپنے قرضے جاری کریں گے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے چیف آف سٹاف‘ شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد جاوید دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ جنرل حامد جاوید نے ملک کے اعلیٰ ترین اداروں میں دیانتداری اور لگن سے خدمات انجام دیں۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ این آر او سمیت ملک کے تمام اہم فیصلوں میں وہ شامل رہے تھے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف سپریم جوڈیشل کمیشن میں کیس بھجوانے کی انہوں نے مخالفت کی تھی اورافتخار چوہدری کی بحالی کے بعد ان سے رابطے میں رہے بلکہ افتخار محمد چوہدری کے بطور چیف جسٹس آف پاکستان تقرر میں بھی ان کا بڑا عمل دخل تھا کیونکہ سپریم کورٹ کی ایک مخصوص لابی ان کو فیڈرل شریعت کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے لئے سرگرم تھی اور اس مضبوط لابی نے جنرل پرویز مشرف کو ان کے خلاف کرنے میں اہم کردار ادا کیا ‘لیکن جنرل حامد جاوید اور صدر پرویز مشرف کے قریبی معاون طارق عزیز نے بھی جسٹس افتخار چوہدری کو چیف جسٹس آف پاکستان بنانے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس طرح تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی سے پیشتر جنرل حامد جاوید نے جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ملاقات بھی کی تھی۔ انہوں نے صدارتی الیکشن کے حوالے سے ان کے تحفظات دور کرنے کی بھی کوشش کی تھی اور جنرل پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ صدر کے انتخابات کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے ۔ جنرل حامد جاوید نے بھی پرویز مشرف کو قائل کیا تھا کہ ان کا چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ رکھنا ان کے اور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ 
بطور فیڈرل سیکر ٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان ان سے میرا قریبی تعلق تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی میرا ان سے مزید گہرا تعلق رہا۔ انہوں نے ملاقات کے دوران مجھے بتایا تھا کہ سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے نواز شریف کی شخصیت کے بارے میں جو اہم خط لکھا تھا اس کا انہوں نے انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے رکھا ہوا ہے۔ اس خط سے نواز شریف کی شخصیت کے راز کھلتے گئے۔ ملاقات کے دوران جنرل حامد جاوید بتایا کرتے تھے کہ چیف جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرنے میں ان کے قریبی ساتھیوں کا بڑا عمل دخل تھا اور اسی غلط فہمی کی بنا پر جنرل پرویز مشرف نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی ملک میں بلاوجہ ایمرجنسی لگا کر کی ۔ جب جنرل پرویز مشرف نے ان کے مشورہ پر کان نہیں دھر ے تو ایمرجنسی سے ایک دن پہلے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے سے پیشتر جنرل حامد جاوید واہ آر ڈی نینس فیکٹری اور ہیوی مکینیکل فیکٹری کے چیئرمین تھے اور کارگل کی جنگ کے بعد کی صورتحال میں اور ملک میں محلاتی سازشوں میں گھرے ہوئے جنرل پرویز مشرف جنرل حامد جاوید سے مشاورت کرتے رہتے تھے۔ ان کے ہمراہ راولپنڈی کے ہائی کورٹ کے ایک جج بھی تھے جو بعد ازاں وفاقی سیکرٹری قانون بھی رہے۔ جنرل حامد جاوید انتہائی دیانتدار شخص تھے۔ دیانت داری کی ایک مثال اس وقت سامنے آئی جب ان کے بیٹے کی شادی میں بعض بااثر شخصیات نے قیمتی تحائف انہیں بھجوائے تھے تو حامد جاوید نے یہ تحائف شکریہ کے ساتھ واپس کر دیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ شفا ہسپتال کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جہانداد خان کے انتقال کے بعد شفاآئی ٹرسٹ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ گزشتہ ماہ جب ان کی میعاد ملازمت مکمل ہوئی تو شفا ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز نے انہیں مزید چار سال کی توسیع دی‘ لیکن قسمت نے مہلت نہ دی۔ انتقال سے کچھ دن پیشتر انہوں نے مجھ سے جنرل پرویز مشرف کے سنگین مقدمہ کے بارے میں رائے لی تو میں نے ان کو آئین و قانون کی روشنی میں بتایا کہ جنرل پرویز مشرف آئین کے آرٹیکل 6 کی زد میں نہیں آتے کیونکہ ایمرجنسی لگانے کے باوجود حکومت کابینہ پارلیمنٹ اور صوبائی حکومتیں معمول کے مطابق کام کرتی رہیں اور پارلیمنٹ نے منظوری دے دی تھی اور بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس کی توثیق کر دی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں