"KDC" (space) message & send to 7575

قومی سیاسی منظر نامہ اور خطے کی صورتحال

مشرق وسطیٰ میں ایران امریکہ اور ایران سعودی عرب کشیدگی؛ اگرچہ نئی بات نہیں‘ تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے ایران کے ساتھ ایٹمی تنصیبات وتجربات کے عالمی معاہدے سے انحراف کے بعد اس کی شدت کے اثرات میںاضافہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ایک طرف امریکہ نے ایران کے تیل کی برآمدات کو روکنے کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات شروع کیے ہیں‘ جس کے نتیجے میں چین ‘ جاپان اور بھارت سمیت سبھی ممالک جو ماضی میں ایران سے تیل خرید رہے تھے ‘ امریکہ نے انہیں اس سے باز رہنے کا کہا تھا۔ امریکی دباؤ میں بھارت نے ایران سے تیل کی خریداری بند کرنے کا عندیہ دیا ہے‘ تاہم چین نے امریکی پابندیوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ میں سرمایہ کاری کرنے والا بھارت اب امریکہ کے اشارے پر ایران کی جانب اپنے رویے اور لہجے کو تبدیل کرچکا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک وقت میں بھارت نے افغانستان اور ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی۔ کل بھوشن کا نیٹ ورک بلوچستان میں بدامنی‘ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور کراچی میں انتشار کا ذمہ دار تھا۔ بھارتی پالیسی سازوں کے عزائم اس حد تک خوفناک تھے کہ وہ اسرائیل کی مدد سے پاکستان پر حملہ کرنے کے ایسے منصوبے پر غور کر رہے تھے کہ افغانستان اور ایران پاکستان کی مدد کیلئے کھڑے نہ ہوںاور بھارت ‘ اسرائیل پاکستان کے خلاف اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
مشرق وسطیٰ کی بدلتی صورتحال کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے خلیج کے خطے میں مزید فوجی بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس دوران صدر ٹرمپ نے خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے‘ کانگرس کی منظوری کے بغیر‘ سعودی عرب کو 8 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا بھی کہہ دیا ہے‘یعنی ایران کے خطرے کو بڑھاوا دے کر امریکہ نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ایک طرف خطے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کررہا ہے اور دوسری طرف عرب ممالک کو اسلحے کی فروخت کے ذریعے ایران کے مد مقابل لانے کی کوشش میں ہے۔ اس صورتحال کا اصل فائدہ اسرائیل کو ہورہا ہے۔اس کھیل کو وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو یہ صورتحال جنوبی ایشیا‘ وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ پر تسلط کو مستحکم کرنے کے لیے پیدا کی جارہی ہے ۔
پاکستان اس وقت معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے اوران حالات میں قائدانہ صلاحیت کو بروئے کار لانے کا اہل نہیں۔ پاکستان کے اندرونی حالات کو صحیح سمت میں لانے کیلئے پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی کو قدرے کم کرنا ہوگی۔اسی تناظر میں میں سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے پندرہ سال بعد خاموشی توڑتے ہوئے ایک انٹرویو میں انتہا ئی خطرناک بات کہہ دی ہے۔ کسنجر نے کہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز چند مہینوں میں ہونے والا ہے اور امریکی انتظامیہ نے مڈل ایسٹ کے سات ممالک کا وجود ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان علاقوں کو اسرائیل کے حوالے کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ امریکی سابق وزیر خارجہ کے اس انٹرویو کو یکسر نظر انداز کرنا مناسب نہ ہو گا۔ پاکستان کی سلامتی اور سالمیت کے خلاف پاکستان مخالف قوتیں ہمیشہ سرگرم رہی ہیں۔بدقسمتی سے انہیں پاکستان کے اندر پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے والے عناصر بھی دستیاب ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان میں آج حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ یہ انہی قوتوں اور انہی کے پروردہ عناصر کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ ایسے عناصر کی کچھ مفاد پرست مقامی اشرافیہ بھی پشت پناہی کرتی رہی ہیں۔ ان کے مفادات بھی پاکستان مخالف بیرونی قوتوں سے وابستہ ہیں۔فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا سیاسی قیادت نے متفقہ فیصلہ کیا تھا‘ جس کے تحت فاٹا میں ترقی کے راستے کھل رہے ہیں ‘ لیکن کچھ حلقے بیرونی اشاروں اور اپنے سیاسی مفادات کے لیے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی راہ روک رہے ہیں ۔وہ پاکستان میں رہ کر بھی خود کو افغان کہلانا پسند کرتے ہیں اور پاکستان کے کچھ علاقوں کو افغانستان کا حصہ قرار دیتے ہیں اور افغانستان ان کی براہ راست پشت پناہی کرتا ہے۔
فاٹا کو آئین اور قانون کے مطابق خیبرپختونخوا میں ضم کردیا گیا ہے اور دو جولائی کو سابق فاٹا کے آٹھ اضلاع میں 16 نشستوں پر انتخابات کرائے جارہے ہیں۔ اس طرح سابقہ فاٹا کے عوام کو صوبائی اسمبلی تک براہ راست رسائی حاصل ہو جائے گی۔ ان حالات کے باوجود پشتون تحفظ تحریک نے اپنی روش نہ بدلی تو اس کا المناک نتیجہ نوشتۂ دیوار ہے‘ کیونکہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والوں ‘ پرچم کی بے حرمتی کرنے اور پاک فوج کے خلاف شر انگیز کارروائی کرنے والوں کے حوالے سے پہلے ہی کافی برداشت کا مظاہرہ کیا جا چکا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ایک انتہائی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ اس وقت حکومت کو بد ترین معاشی اور سیاسی صورتحال کا سامنا ہے۔ اس دوران ایک بہت ہی حساس‘ بہت متنازعہ اور سنگین پیش رفت سامنے آئی ہے کہ حکومت سپریم جوڈیشل کونسل میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم کورٹ کے ایک معزز جج اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کے خلاف ریفرنس فائل کر دیے ہیں ۔یہ ہر لحاظ سے ایک سنگین پیش رفت ہے۔ اس دوران پارلیمنٹ کے حلقوں سے یہ بات کنفرم ہو گئی ہے کہ چیئرمین نیب کے خلاف آڈیو ویڈیو کے مذموم سکینڈل کا معاملہ پارلیمنٹ میں ابھی دبا نہیں ہے اور اپوزیشن جماعتیں قومی احتساب بیورو کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے پارلیمنٹ میں آزادانہ بحث کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان حالات کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہاہے کہ حکومت اپنی قوت سے محروم ہوتی جا رہی ہے اور اس کو سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ حکومت کیلئے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں مشکلات پیش آ رہی ہے۔اس صورتحال میں حکومت کو پارلیمنٹ سے بجٹ منظور کرانا بھی مشکل ہو جائے گا ۔اس صورتحال کے مدنظر اگر وزیراعظم نے متحدہ قومی موومنٹ کے اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کی اور انہیں تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی تو پاکستان مسلم لیگ (ق) بلوچستان نیشنل پارٹی کے اخترمینگل اورگرینڈ ڈیموکریٹک الائنس بھی وزیر اعظم کے بعض فیصلوں اور یوٹرن کی پالیسیوں سے نالاں ہیں اور ان کے بعض ارکان اسمبلی نے راقم الحروف سے پوچھاہے کہ اگر وہ اتحاد سے علیحدگی اختیار کریں تو اس سے ان پر آرٹیکل 163 کا تو اثر نہیں پڑے گا؟ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے پنجاب میںنئے بلدیاتی نظام کے خلاف کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ سندھ سے فہمیدہ مرزا بھی وزیراعظم عمران خان کی پالیسی سے ناخوش ہیں اور شدید نوعیت کے تحفظات رکھتی ہیں۔
دوسری جانب مہر خاندان پیپلزپارٹی کے ساتھ رابطے میں ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر علی محمد مہر کو ان کے منصب کے مطابق مقام نہیں دیا گیا ‘اس لیے ان کے بھائی گوہر علی نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتیں کی ہیں۔ادھر سردار اختر مینگل نے بجٹ کے موقع پر حکومت کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے ان کے مطالبات پورے نہیں کئے ‘اس لئے علیحدگی کا سوچ رہے ہیں۔ اس وقت قومی اسمبلی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے چار‘ مسلم لیگ( ق) کے چار گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے چار اور متحدہ قومی موومنٹ کے چھ ارکان ہیں‘ جو مجموعی طور پر اٹھارہ بنتے ہیں۔ اسی تناظر میں جنوبی پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی کے بھی حکومت کے خلاف شدید نوعیت کے اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ 
جنوبی پنجاب کا صوبے بنانے کے تمام خواب چکنا چور ہو چکے ہیں؛چنانچہ ان ارکان نے بھی اپنی پرانی پارٹیوں سے رابطہ قائم کرنا شروع کر دیے ہیں اور کسی بھی موقع پر ان کی مشترکہ پریس کانفرنس سامنے آنے والی ہے۔ ان حالات میں صدر مملکت کو آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت وزیراعظم عمران خان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے صدارتی فرمان جاری کرنے کے امکانات پائے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں