"KDC" (space) message & send to 7575

سپریم جوڈیشل کونسل اور ملکی سیاست

مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور ان کی ٹیم نے نئے بجٹ میں عداد و شمار کوخوش نما بنا کر پیش کیا ہے‘ تاہم عام آدمی کو کسی قسم کا کوئی ریلیف نہیں ملنے والا ۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام میں بے چینی میں اضافے کا عمل رک نہیں سکے گا۔ ان حالات میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا حکومت سے ٹکراؤ بھی واضح نظر آتا ہے۔جہاں تک احتساب کے عمل کا سوال ہے تو یہ عمل تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے شروع ہوچکا تھا اور ویسے بھی یہ کام حکومت کا نہیں اداروں کا ہے ‘مگراس کے باوجود عمران خان احتساب کو اپنا سیاسی بیانیہ بنائے ہوئے ہیں ‘تاہم مشکل سیاسی اور معاشی فیصلے اس حکومت کے اپنے نہیں ‘کیونکہ بجٹ سے پہلے وہ اپنی معاشی ٹیم برطرف کر چکے تھے ۔اس میں کیا شک ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی ٹیم کا تیار کردہ ہے‘ بہرکیف حکومت ایک طرف اہم معاشی فیصلے لے رہی ہے اور ساتھ ہی اپوزیشن سے تصادم کی صورت بھی پیدا کر رکھی ہے۔ 
افواج پاکستان نے رضاکارانہ طور پر اپنے بجٹ میں کمی کا اعلان کر کے قابل تحسین مثال قائم کی ہے ۔اب اصولی طور پر سب سے پہلے پارلیمنٹ کے ارکان کو اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اسی جذبے کے تحت رضاکارانہ کمی کرنی چاہیے ‘ اس کے بعد ریاستی اداروں کے سربراہان کو‘ اس کے بعد صنعت‘ تجارت اور زراعت دوست پالیسیوں کے ذریعے قومی اخراجات پورے کرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ جن صنعت کاروں‘سرمایہ کاروں ‘ سیاستدانوں اور پارلیمنٹیرینز نے اربوں روپے کے قرضے معاف کرائے ہیں‘ وہ رضاکارانہ طور پر واپس کر دیں ‘ اس میں رعایت یہ رکھی جا سکتی ہے کہ اصل زر میں واپس کر دیں اور منی لانڈرنگ کے ذریعے اربوں روپے کی جورقم باہر بھجوا دی گئی‘ واپس پاکستان کے بینکوں میں جمع کرادیں۔ پاکستان کے حکمران سیاستدان قوم کو بتائیں کہ بیش قیمت قدرتی وسائل اور بہترین افرادی قوت کے باوجود پاکستان آخر کب تک غیر ملکی قرضوں اور امداد پر انحصار کرتا رہے گا؟پاکستان کو معاشی استحکام دینے کیلئے جس بصیرت اور معاشی مہارت کی ضرورت ہے‘ گزشتہ چالیس سال میں ہم وہ فراہم نہیں کر سکے؛ حالانکہ ہماری قوم میں ذہانت اور مہارت کی کوئی کمی نہیں۔
قومیں ہمیشہ اجتماعی کاوشوں سے ہی بحرانوں سے نبرد آزما ہو کر سرخرو ہوا کرتی ہیں۔اس کے لئے نیک نیتی‘ باہمی اعتماد اور جذبۂ حب الوطنی کی ضرورت ہوتی ہے۔سردست حالات یہ ہیں کہ دوست ممالک کی اعانت اور آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے کے باوجود ہمیں اپنی معیشت کو صحیح راستے پر لانے کے لئے مزید کئی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جہاں تک اپوزیشن کی بات ہے ‘ان کے خدشات دور کیے جانے چاہئیں کہ یہ بھی ملک و قوم کے حوالے سے ہی ہے‘ کسی کا ذاتی مسئلہ تو نہیں ہے۔ اسے خوش قسمتی پر ہی محمول کیا جائے گا کہ ریاست کے تمام ادارے متحد ہیں اور ان کے پیش نظر ایک ہی مقصد ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنا ہے۔
14 جون سے سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے سپریم کورٹ کے جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف انکم ٹیکس کے قوانین کو نظر انداز کرنے کے ریفرنس کی ابتدائی سماعت کرے گا۔اسی دوران سپریم جوڈیشل کونسل سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف بھی ایک ریفرنس کی سماعت کرے گی۔دوسری جانب ملک کے وکلا کا ان ریفرنسز کے حوالے سے مضبوط موقف ہے‘ بالخصوص سپریم کورٹ آف پاکستان بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی پیش پیش ہیں جو کہ ایک جرأت مندو کیل ہیں اور ماضی میں نواب اکبر بگٹی کے بہت قریبی ساتھی رہے ہیں۔نواب اکبر بگٹی انہی کے ذریعے بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں کی ممتاز شخصیتوں سے رابطے میں رہتے تھے‘ لہٰذا ماضی کے حوالے سے دیکھا جائے تو امان اللہ کنرانی کی آواز کو غیر معمولی ہی سمجھا جائے گا۔ ملک کے وکلا رہنماؤں کی جانب سے وہی انداز اختیار کرنے کا کہا گیا ہے ‘جو انہوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی کے دنوں میں اختیار کیا تھا۔ایڈووکیٹ امان اللہ کنرانی نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے اشارتاً ان وکلا رہنماؤں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا‘ جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد وکلا تحریک سے لاتعلق ہو گئے‘ ان کا اشارہ غالباً اعتزاز احسن کی طرف تھا کہ انہوں نے جون 2009ء میں ایوان ِصدر کے سامنے وکلا کے عظیم اجتماع کو نظر انداز کرکے احتجاج کی کال واپس لے لی تھی۔ بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر تحمل کے ساتھ‘ بغیر کوئی جارحانہ انداز اختیار کیے‘ تحریک چلتی رہے گی اور سپریم جوڈیشل کونسل بھی اپنا آئینی طریقہ اختیار کرے گی۔ اسی دوران قوی امکان ہے کہ وکلاکی نمائندہ جماعت کی طرف سے ایک ایسا ریفرنس عمران خان کے خلاف پیش کیا جائے گا‘ جس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے غیر جانبدارانہ طرز عمل پر بھی حرف آئے گا اور تحریک انصاف بند گلی میں کھڑی ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسا سکہ بند کیس ہے ‘جس سے عمران خان صاحب کے وکلا ان کو اندھیرے میں رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے جہانگیر ترین کی وساطت سے عمران خان صاحب کو پیغام پہنچانے کی کوشش کی تھی کہ مگر یوں لگتا ہے کہ شاید ان تک پیغام نہیں پہنچایا گیا۔ میں نے ان کالموں کے ذریعے بھی خدشات ظاہر کئے کہ ممکن ہے ان تک آواز پہنچ جائے‘ مگر لگتا ہے ایسا نہیں ہو سکا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سوشل میڈیا پرمضحکہ خیز اور گمراہ کن مہم چلائی جارہی ہے ۔اس گمراہ کن مہم میں کوئی صداقت کا عنصر نہیں ‘نہ ہی اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔میری مرحوم قاضی عیسیٰ سے ملاقات مئی 1970ء میں مغربی پاکستان کے گورنرجنرل عتیق الرحمن کے دفتر میں گورنر ہاؤس لاہور میں ہوئی تھی ۔ ہم نے ون یونٹ کو برقرار رکھنے کی مہم شروع کر رکھی تھی‘ اسی حوالے سے گورنر عتیق الرحمن سے ملاقات ہوئی تھی اور قاضی عیسیٰ ان کے ہاں مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قاضی خاندان سچے اور مخلص پاکستانی ہیں‘ جنہوں نے اس ملک کی بہتری کے لیے ہر موقع پر اپنی خدمات پیش کیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت خاص منصوبہ بندی کے تحت کی ہے اور ببانگ د ہل محسن داوڑ اور علی وزیر کی حمایت میں قدم اٹھایا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ سابق فاٹا کے صوبائی حلقوں میں ہونے والے انتخابات میں پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن اورعوامی نیشنل پارٹی اپنے امیدواروں کو کامیاب کرانے کی کوشش کرے گی اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس کے ساتھ ساتھ اگلے سال ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ کراچی میں اس وقت تقریباً 50 لاکھ پختون آباد ہیں اور غالب امکان ہے کہ اگلے بلدیاتی انتخابات میں جیت پیپلز پارٹی کی ہی ہوگی‘ جس کے ساتھ پشتو نوں کی اکثریت ہوگی‘ کیونکہ متحدہ قومی موومنٹ کے ووٹ تحریک انصاف میں تقسیم ہو جائیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کے آس پاس موجود سنیئر رہنما بلاول کو پشتون تحریک کی حمایت پر قائل کرتے رہتے ہیں‘ جن میں فرحت اللہ بابر اور رضا ربانی پیش پیش ہیں ۔اسی پس منظر میں بلاول نے وفاقی وزیر مملکت علی محمدخان کی تقریر کے دوران گرم جوشی سے پشتون تحریک کے لیڈروں کی حمایت کی تھی جو اسمبلی کے ریکارڈ کا حصہ ہے اور یہ سوچ ہی ان کے طرزِ عمل کو انتہائی جارحانہ بنا رہی ہے ۔بلاول کو معلوم ہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو سزا ہو سکتی ہے اور وہ اسی بات کو ذہن میں رکھ کر ہی اپنی ہر حکمت عملی تیار کر رہے ہیں اور ان کو امید ہے کہ آصف علی زرداری کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے ان کو کراچی کے 50 لاکھ پشتون مدد دیں گے‘ جبکہ فاٹا بیلٹ میں بھی ان کی حمایت صاف نظر آرہی ہے۔ اسی لیے بلاول کو کوئی خوف نہیں کہ اگر سندھ میں گورنر راج لگتا ہے‘ کیونکہ ایک تو انہیں یقین ہے کہ اس کی قانونی حیثیت بہت کمزور ہوگی اور دوسرا انہیں معلوم ہے کہ تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کا اتحاد انتہائی غیر فطری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں