"KDC" (space) message & send to 7575

ججوں پر دباؤ ‘ تاریخی پس منظر

مریم نواز شریف کی جانب سے جاری کی گئی متنازعہ ویڈیو کے بارے میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اس ویڈیو کا فرانزک آڈٹ ضروری ہے۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک صاحب اس ویڈیو کویکسر مسترد کر چکے ہیں۔ جمعہ کے روز کا ان کا بیانِ حلفی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ نواز شریف کی صاحبزادے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے بعد انہیں پیش کش کی کہ لکھ کر دیں کہ نواز شریف کے خلاف انہوں نے دباؤ میں اور بغیر شواہد کے فیصلہ کیا اور احساس ندامت کی وجہ سے وہ ملازمت جاری نہیں رکھ سکتے۔ استعفیٰ دینے کے بدلے انہیں 50 کروڑ روپے تک کی آفر کی گئی۔اس طرح نواز شریف خاندان نے احتساب عدالت کو دباؤ میں لا کر فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
ماضی میں بھی عدالتوں کو دباؤ میں لا کر فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی مثالیں موجود ہیں ‘ مثال کے طور پرمولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کا فیصلہ جمہوریت اور قوم کے لئے ہمیشہ سوہان روح رہا ۔ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اپنی سرگزشت میں جسٹس منیر کے فیصلے اور اس کے مضمرات کے بارے تفصیل سے لکھا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب جسٹس منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کے ایما پر مولوی تمیز الدین کے خلاف فیصلہ دیا اور وہ ان کو ملنے ان کے گھر گئے تو جسٹس منیر نے اعتراف کیا کہ فیصلہ دبائو کے ذریعے کرایا گیا تھا۔ وہ دورانِ گفتگو صوفے پر گر گئے اور بے ہوش ہو گئے تھے ۔ ڈاکٹر فروغ نسیم کو مطالعہ کا شوق ہے‘ شاید یہ سرگزشت ان کی نظر سے گزری ہو۔ بعد ازاں ذوالفقارعلی بھٹو قتل کو نواب احمد خان قتل کیس میں سزائے موت دی گئی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ مرحوم اس فیصلے کو دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ۔ وہ قوم کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے سچ بول گئے ۔تاہم جب سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مشتاق حسین حملے میں شدید زخمی ہوگئے اور چوہدری ظہورالٰہی جاں بحق ہوگئے تو چونکہ جسٹس مشتاق حسین چیف الیکشن کمشنر بھی تھے‘تو میں ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گیا اور میں نے انہی معاملات کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آپ شدید زخمی ہیں اور جنرل ضیا الحق نے بھی آپ سے بے اعتنائی برتی ہے‘ کیا ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا کہ مسٹر بھٹو کے مقدمہ قتل میں آپ کا فیصلہ درست نہیں تھا ؟ انہوں نے میرے مؤقف کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے حق و انصاف سے اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ دیا ہے اور وہ اپنے فیصلے پر پشیمان نہیں ہیں۔
اسی طرح صدر غلام اسحاق نے 17اپریل 1993ء کو58ٹو B کے تحت نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا‘ سپیکر قومی اسمبلی نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کردی۔پھر نواز شریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ۔چیف جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے سپیڈی ٹرائل کے ذریعے چند دن کی سماعت کے بعد نواز شریف کی حکومت بحال کر دی ۔اس سپیڈی ٹرائل کا پس منظر اوجھل رہا اور ان کے فیصلے کو بینظیر بھٹو نے چمک قرار دیا جو ریکارڈ کا حصہ ہے اور الیکشن کمیشن نے اپنی سالانہ رپورٹ 1994ء میں اس کا ذکر کیا ہے کہ جب نواز شریف کی اپیل کی سماعت ہورہی تھی تو بعض ججز اپنے کولیگ ججز سے لابنگ کرتے ہوئے نظر آئے اور مرحوم جسٹس سجاد علی شاہ نے باقاعدہ اس لابسٹ مہم کی مذمت کی۔ 
1990 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سزاکے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے بینچ کے ایک رکن کو فون کال نے نواز حکومت کوہمیشہ ڈس کریڈٹ رکھا ہے‘اسی کے نتیجے میں بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو سنائی گئی سزائیں کا لعدم ہوئیں اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بینچ کے دوسرے دوار کان کو استعفیٰ دینا پڑا ۔ اب پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت جو ویڈیو سامنے لائی ہے اس کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہیں کہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ۔کس نے مجبور کیا؟ اس حوالے سے خاموشی تھی‘ لیکن جج صاحب کے بیان حلفی کے بعد صورتحال واضح ہو رہی ہے۔
مریم نوازکی آتش فشانی پریس کانفرنس سے پاکستان کی سیاست میں ارتعاش محسوس ہو رہا ہے ‘ اگرچہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے جج پر مبینہ دباؤ ڈالنے والوں کی نشاندہی کی گئی نہ کسی کا نام لیا گیا ؛ البتہ ارشد ملک صاحب کی کردار کشی ضرور ہوئی ہے ۔ان پر دباؤ میں آکر فیصلہ کرنے کے الزامات درست ثابت ہوتے نظر نہیں آ رہے‘ جو شواہد مریم نواز شریف کی جانب سے پیش کئے گئے ہیں‘ وہ میرے خیال میں ناکافی ہیں اور قابل بھروسہ بھی نہیں ۔ارشد ملک صاحب کے اپنے بیانات اور بیان حلفی نے معاملے کی نوعیت بدل ڈالی ہے‘ رشوت کی پیشکش اور خفیہ ویڈیو ز کے ذریعے بلیک میلنگ کے الزامات مسلم لیگ کی نائب سربراہ پر تقریباً ثابت شدہ ہیں اور ان شواہد میں اتنی قوت ہے کہ ایک ٹھوس مقدمہ ان کی بنا پر بنایا جا سکے۔ بہرکیف حکومت کی طرف سے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ عدلیہ پر چھوڑ دیا گیا ہے‘ جو ایک صائب فیصلہ ہے ۔
ماضی کا ایک اور ورق پلٹتے ہیں۔ جسٹس مشتاق حسین چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جن دنوں ذو الفقارعلی بھٹو کے فیصلے کو آخری ٹچ دے رہے تھے تو چوہدری ظہور الٰہی ‘ جنرل رفاقت اور جنرل چشتی ان سے ملنے کے لیے ان کے چیمبر آئے ۔اتفاق سے میں نے چیف جسٹس مشتاق حسین سے‘ جو اُن دنوں قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی تھے‘ ذاتی گفتگو کے لئے وقت مانگا ہوا تھا۔جب میں نے ان تینوں کو چیف جسٹس مشتاق حسین کے چیمبر میں جاتے ہوئے دیکھا تو اس وقت ذوالفقارعلی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ ان تینوں کی ملاقات پراسرار انداز میں ہورہی تھی ۔ تقریبا ًایک گھنٹے کے بعد تینوں مسکراتے ہوئے ان کے کمرے سے باہر نکلے تو چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ ذوالفقارعلی بھٹو کے کیس کے بارے میں حقیقت جاننے کے لیے ان تینوں نے ان سے ملاقات کی تھی‘کیونکہ جنرل رفاقت حسین چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل ضیا الحق کے چیف آف سٹاف تھے اور وہ خصوصی طور پر اسلام آباد سے آئے تھے ۔اس کے چند ہی روز بعد ذوالفقارعلی بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا فیصلہ جسٹس آفتاب شیخ نے لکھا تھا جو غالبا ً سات سو صفحات پر مشتمل تھا۔ میرے جسٹس آفتاب شیخ سے ان کے بڑے صاحبزادے اویس آفتاب کے ذریعے سے دیرینہ تعلقات تھے۔انہوں نے مجھے ایک ملاقات میں بتادیا تھا کہ جب وہ فیصلہ لکھ رہے تھے تو ان کو گمنام خطوط‘ جن کی تعداد غالبا ًدو تین ہزار بتا رہے تھے‘ موصول ہوئے‘ جن میں ان کو اور ان کے خاندان کے افراد کو دھمکیاں دی گئیں اور گالی گلوچ کی گئی تھی ۔ تمام خطوط ان کے صاحبزادے کے پاس محفوظ رہے اور انہوں نے تمام خطوط کو کتابی شکل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس مشتاق حسین اپنی سخت گیری کی وجہ سے مشہور تھے۔ اس کا پس منظر غالباً یہ تھا کہ وہ مہاجرین کے مفادات کے لیے کسٹوڈین تھے۔
اعلی عدالتوں کے ججز پر دباؤ اور کشمکش کی روایت ہمیشہ بر قرار رہی ہے۔ اب مریم نواز احتساب عدالت کے جج ارشد ملک صاحب کے حوالے سے جو ویڈیو لائی ہیں وہ بھی ایسا ہی کوئی معاملہ محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ملکی سیاست اور نظامِ عدل میں مزید ارتعاش ضرور پیدا ہو گا۔ دونوں فریقوں کے حامیوں اور مخالفین کی ایک دوسرے کے خلاف الزامات سے صورت حال پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ویڈیو لیکس کو انجام تک پہنچانا ملکی مفاد میں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں