"KDC" (space) message & send to 7575

سینیٹ کے 14ارکان فلور کراسنگ کی زد میں نہیں آتے!

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے مستقبل کا فیصلہ سینیٹ کے یکم اگست کے اجلاس میں ہو گیا۔پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار کسی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی جسے کامیاب کرانے میں اپوزیشن بری طرح ناکام ہو گئی۔ اپوزیشن باہمی طور پر انتشار میں مبتلا نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی اور ایک طرح سے اس کی آئندہ کی حکمت عملی پر بھی پانی پھر گیا ہے۔ وہ اب اس سوچ میں نظر آتی ہے کہ پہلا ہی قدم الٹا پڑا ہے تو آگے نہ جانے کیا ہو گا۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض ہے لیکن میری نظر میں چودہ ارکان سینیٹ نے اپنی خواہش کے مطابق ووٹ کا استعمال کیا اور محمد صادق سنجرانی کے حق میں 45 ارکان سینیٹ نے ووٹ دے کر انہیں بھرپور کامیابی دلوائی۔ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس 64 ارکان تھے‘ جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر نشستوں پر کھڑے ہو کر قرارداد پیش کرنے کی حمایت بھی کی تھی۔ سینیٹ میں رائے شماری خفیہ طریقے سے ہوئی اور نتیجہ اپوزیشن کی خواہشات کے برعکس نکلا۔ ارکان نے کھڑے ہو کر تحریک کی حمایت کی اور خفیہ رائے شماری میں اپنے ہاتھ نیچے کر کے عوام کی نظروں میں اس سسٹم پر عدم اعتماد کی مہر لگا دی۔
سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ اپوزیشن کی تقسیم ہو چکی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کی کامیابی کے بعد کچھ بین الاقوامی لابسٹ متحرک ہو چکے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کا خیال رکھنا ان کے مفاد میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا شروع ہونے کے امکانات موجود ہیں اور جب تک ان کا یہ ایجنڈا احسن طریقے سے مکمل نہیں ہو جاتا لگتا یہ ہے کہ انہیں پاکستان کو اندرونی طور پر مستحکم رکھنا ہو گا۔ دوسری جانب نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن کے سارے منصوبے ناکام ہو گئے کیونکہ حزب اختلاف والوں کا ارادہ تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا دائرہ بلوچستان اور پنجاب تک پھیلا دیا جائے اور وہاں بھی ایسی ہی تحریکیں لائی جائیں۔ بین الاقوامی تناظر میں سیاسی ہم آہنگی اور مفاہمت آمیز رویوں کی جتنی ضرورت آج ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ اس لئے کہ سیاسی افہام و تفہیم پاکستان کی پارلیمان کے وقار میں اضافہ کر سکتی ہے جبکہ دیگر مسائل کا حل بھی اسی راہ پر چل کر مل سکتا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو بہت سے ارکانِ سینیٹ نے تحریک کی کامیابی کے لئے بہت یقین دہانیاں کروائیں لیکن جب خفیہ رائے شماری ہوئی تو تحریک عدم اعتماد کے حق میں پچاس ووٹ برآمد ہوئے‘ پینتالیس ووٹ چیئرمین سینیٹ کے حق میں تھے اور پانچ ووٹ مسترد ہو گئے جبکہ ایوان میں کل سو رکن موجود تھے۔ تکنیکی بنیاد پر مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہونے پر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ اس تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ اپوزیشن کی آپسی رنجشیں تھیں۔ اب اپوزیشن نے منحرف ہونے والے ارکان سینیٹ کو تلاش کرنے کی ٹھانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اپوزیشن اتحاد کو خود معلوم نہیں کہ آخر کن ارکان نے ساتھ نبھانے سے انحراف کیا تو انہیں بے نقاب کیسے کیا جائے گا؟ حاصل بزنجو صاحب کا یہ کہنا کہ اداروں کی مداخلت کے باعث یہ سب ہوا‘ درست نہیں ہے۔ حاصل بزنجو کا طرز عمل تو یہی ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیاست میں ابھی تک پختگی اور مستقل مزاجی کا فقدان ہے حالانکہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ ایسا فقدان نہ ہو۔ تحریک عدم اعتماد میں ہونے والی خفیہ رائے شماری میں ہر کسی کو اختیار تھا کہ وہ جس کے حق میں چاہے ووٹ دے تو پھر اس فیصلے کو ہارس ٹریڈنگ کا نام دینا درست نہیں۔ میں نے پندرہ جولائی کے اپنے کالم میں پیش گوئی کر دی تھی کہ ارکانِ سینیٹ اپنے شعور کے مطابق ووٹ کاسٹ کریں گے۔ میں نے بادی النظر میں نامزدگی پر اعتراض اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کی حکمتِ عملی ناکام ہو جائے گی۔ 
بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کو ادراک کیوں نہیں کہ ان کی ناکامی 'ہنوز دہلی دور است‘ کے مترادف ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی سے اپوزیشن جماعتوں میں باہمی نفاق اور عدم اعتماد کا ماحول پیدا ہو گا۔ لگتا ایسا ہے کہ اپوزیشن کا زیادہ وقت باہمی نفاق دور کرنے میں ہی گزرے گا۔ عوامی سطح پر احتجاج یا اسلام آباد تک مارچ ‘ دونوں ابھی فوری نظر نہیں آ رہے۔
چھ اگست انیس سو تہتر کو معرض وجود میں آنے والی سینیٹ کے کسی چیئرمین کے خلاف اس نوعیت کی یہ پہلی کارروائی تھی۔ انیس سو تہتر کا آئین نافذ ہونے کے بعد سینیٹ کا ادارہ وجود میں آیا تو صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے سابق جج حبیب اللہ خان پہلے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ حبیب اللہ خان ایوب خان کے دور میں وزیر داخلہ مغربی پاکستان تھے۔ وہ چھ اگست انیس سو تہتر کو چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ ان کی میعاد پانچ اگست 1975ء کو ختم ہوئی تھی۔ وہ دوسری مدت کے لیے بھی چیئرمین منتخب ہوئے اور پھر پانچ جولائی 1977ء کو مارشل لاء کی وجہ سے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ مارچ انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سینیٹ کا ایوان ایک بار پھر وجود میں آیا تو 21 مارچ 1985ء کو غلام اسحاق خان چیئرمین منتخب ہوئے اور جنرل ضیاء الحق کے سانحہ کے بعد غلام اسحاق خان صدرِ مملکت منتخب ہو گئے تو وسیم سجاد چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کو ٹیک اوور کے بعد سینیٹ بھی تحلیل ہو گئی تھی۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد 12 مارچ 2002 ء کو میاں محمد سومرو چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور گیارہ مارچ 2009ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور فاروق ایچ نائیک چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔ فاروق ایچ نائیک سبکدوش ہوئے تو سید نیر بخاری چیئرمین سینیٹ منتخب ہو گئے۔ ان کے بعد 12 مارچ 2015ء کو میاں رضا ربانی چیئرمین سینیٹ منتخب ہوئے۔2018 ء میں جب نئے چیئرمین سینیٹ کا مرحلہ آیا تو پاکستان مسلم لیگ ن نے انہیں دوبارہ چیئرمین سینیٹ بنانے کی پیشکش کی؛ تاہم آصف علی زرداری نے انکار کر دیا اور بلوچستان سے محمد صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کیا گیا۔ موجودہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ منصوبہ بندی سے بلوچستان کے ہی میر حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کے لیے امیدوار نامزد کر دیا۔ اسی دوران خطرے کی گھنٹی بج گئی کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے بعد وزیر اعلی بلوچستان، سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب، سپیکر قومی اسمبلی‘ وزیر اعظم عمران خان اور صدر مملکت، یعنی یکے بعد دیگرے طاقت کا پانسہ پلٹنے کی کئی تحریکیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس لئے بقول مشاہد حسین سید کے پیپلز پارٹی کے ایک اہم رہنما کو سندھ حکومت گرانے کا پیغام دیا گیا تھا۔ مشاہد حسین سید کے مطابق ایک بزنس ٹائیکون نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے آدھی رات کو ملاقات کی تھی۔ انھوں نے ان دونوں کے نام بتائے۔ بزنس مین کی ذمہ داری یہ پیغام پہنچانا تھی کہ سینیٹ میں عدم اعتماد کی صورت میں سندھ حکومت گرا دی جائے گی اور دیگر سہولیات بھی واپس لے لی جائیں گی۔ مشاہد حسین سید کی فراہم کردہ معلومات شرکا کے لئے کسی دھماکے سے کم نہ تھیں۔
میر حاصل خان بزنجو کی جانب سے قومی ادارے کے سربراہ پر الزامات کا معاملہ آئین کے آرٹیکل 63 ون جی کی زد میں آتا ہے‘ جس کے مطابق ان کی نا اہلی کے ساتھ پانچ سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے اور آرمی ایکٹ 1952ء کی شق 2, 24 اور 31کی رو سے سزا بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 499 ای اور 500 کے مطابق بھی ان کو سزا ہو سکتی ہے۔ میر حاصل بزنجو کو اپنی شکست کا اندازہ شروع سے ہی تھا۔ ان کو مدبر سیاستدان کی حیثیت سے احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں