"KDC" (space) message & send to 7575

مقامی نظامِ حکومت ، چند سفارشات

وزیراعظم عمران خان نے مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے ذریعے منتخب نمائندگان کو با اختیار بنانے اورلوکل گورنمنٹ سسٹم میں حقیقی انقلاب لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتیں قومی قیادت کی نرسریاں ثابت ہوںگی‘ جبکہ فنڈز کی مقامی سطح پر منتقلی سے عوام کے بنیادی مسائل حل ہوں گے ۔نئے نظام کے تحت ترقیاتی فنڈز کی مقامی سطح پر منتقلی سے نہ صرف عوام کے بنیادی مسائل کا حل ممکن ہوگا ‘بلکہ ان فنڈز کی امتیازی تقسیم اور ذاتی پسند‘ نا پسند اور مخصوص علاقوں میں استعمال کی روش کی بھی مؤثر طور پر روک تھام ممکن ہوگی۔تاہم وزیراعظم کو جن ماہرین نے لوکل گورنمنٹ کے حوالے سے بریفنگ دی ہے‘ شایدانہوں نے زمینی حقائق کو وزیراعظم پاکستان سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ مقامی حکومتوں کا قانون مجریہ 2019ء ماضی کے قوانین سے نہ تو مختلف ہے اور نہ ہی بہتر ہے‘ بلکہ اس میں نمائندگی کی شرح کم کر دی گئی ہے۔ طریقۂ انتخاب کو بہتر بنایا گیا ہے‘ مگر امیدوار کی کم از کم عمر 25سال کرنے سے نوجوان قیادت کو باہر کر دیا گیا ہے۔
لوکل گورنمنٹ سیاسی تربیت کی نرسری ہوتی ہے‘ جس کا اشارہ وزیر اعظم پاکستان نے بھی بریفنگ کے دوران کیا ہے۔ انہی نوجوانوں کو حوصلہ افزائی والے اثباتی اقدام کے ذریعے سیاست میں آنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ دوسری جانب خواتین کی نمائندگی کی شرح بھی کم کر دی گئی ہے اور نمائندگی کی شرح مقرر کرنے کی بجائے تعداد کو بنیاد فراہم کرنے سے مجموعی نمائندگی پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ غیر مسلموں کی نمائندگی کو بھی ان کی آبادی کے حساب سے بطور ووٹر کسی حلقے میں رجسٹر ہونے سے مشروط کرنا جمہوری اصولوں اور روایات کے خلاف ہے ۔ یہ شرط 2013 ء کے قانون میں بھی رکھی گئی تھی‘ مگر ایک عدالتی حکم کے نتیجے میں ختم کردی گئی اور پھر تمام ووٹر اپنے حلقے کے غیر مسلم کونسلرز کو منتخب کریں تو ان کی اجتماعی حیثیت میں بہتری آتی ہے‘ ان کا رتبہ بھی دیگر کونسلرز کے مساوی ہو جاتا ہے ‘ بطور ووٹر ان کی رجسٹریشن کا بھی اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ مخلوط طریقہ انتخاب کے لیے مخلوط انتخابی فہرستوں کی ضرورت کا مقصد زیادہ بہتر نتائج برآمد کرنا ہے۔ سرکاری کنٹرول بالخصوص ریاستی افسر شاہی کی مداخلت ‘ کنٹرول اورنگرانی غیر ضروری اور غیر جمہوری ہے اور اس کے پس منظر میں یہ سوچ کارفرماہوتی ہے کہ منتخب نمائندے غیر ذمہ دار اور بدعنوان ہوتے ہیں‘ان کی نگرانی پر افسر شاہی کو لگانا چاہیے ‘کیونکہ وہ غیر جانبدار اور ریاست سے مخلص ہوتے ہیں۔ یہ بات صحیح نہیں اور حقائق کے برخلاف بھی ہے۔وزیراعظم کو آئینی ماہرین نے جو بریفنگ دی وہ بھی حقائق کے برعکس ہے‘ کیونکہ مقامی حکومتوں کے فرائض کو میونسپل ذمہ داریوں تک محدود کرنے سے لوکل گورنمنٹ کا مفہوم دھندلا ہو جاتا ہے اور پھر ریاستی اور حکومتی اداروں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ طاقت کا ارتکاز ‘جو آمریت کو بنیاد فراہم کرتا ہے‘ اختیارات کی نیچے منتقلی سے ختم کیا جا سکتاہے‘ لیکن نئے قانون میں اختیارات کا ارتکاز افسر شاہی کے بعد سربراہان کے پاس ہے‘ حالانکہ ان کو نسلوں کو با اختیارہونا چاہیے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے اور 2013ء کے بعد عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے مطابق حلقہ بندیوں کا اختیار بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس آچکا ہے اور پھر الیکشن کمیشن اپنی انتخابی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے الیکشن ایکٹ 2017ء اور دیگر وفاقی سطح پر موجود قواعد و ضوابط اور رولز کا پابند ہے۔ الیکشن سے متعلق شرائط کو صوبائی قوانین میں شامل کرنا ضروری ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 ء کے مقابل نئی شرائط کھڑی کرنا ہے‘ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کی شقیں مقامی حکومتوں کے قانون سے نکالی جائیں اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت کیا جائے۔
نیا قانون کسی بھی شکل میں آئین کے آرٹیکل 140 اے کی بیان کردہ شرائط اور مالیاتی‘ سیاسی اور انتظامی خودمختاری کی تعریف پر پورا نہیں اترتا‘ بلکہ ماضی کی نسبت اختیارات کو کم کرتا ہے اور حکومتی کنٹرول بڑھاتا ہے ۔ اس کے ذریعے حکومتی کنٹرول کو غیرجمہوری بدترین سطح پر لے جایا گیا ہے۔ضلع کونسلوں کو ختم کرنے سے روایتی اشرافیہ کا اثر و رسوخ کم ہو جائے گا اور تعداد کے بل بوتے پردیسی اشرفیہ کے ضلع پر غلبے میں کمی آئے گی‘ جو کہ خوش آئند ہے‘ مگر ضلع کونسل کے فرائض کون ادا کرے گا؟یہ سوالیہ نشان ہے‘ کیونکہ تحصیل کونسل کے فرائض کم ہیں۔مقامی حکومتوں کے 2019ء کے نئے نظام کے مطابق سرکاری افسر بالخصوص ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو منتقل ہوجائیں گے‘ جو آئین کے آرٹیکل 140 اے سے انحراف ہے۔ اب نئے قانون کے تحت ان کی کارکردگی غیر فعال بنانے کے مترادف ہے۔بہرکیف ضلع کونسل کے تمام اختیارات تحصیل کونسلوں یا شہری مقامی حکومتوں کو منتقل کرنا ہوں گے اسی صورت میں گڈ گورننس کی طرف بڑھا جا سکے گا۔لوکل گورنمنٹ کا نت نیا قانون لانا مقامی حکومتوں کی نشو نما پر منفی اثرات کا سبب بنتا ہے ‘ مگر ہمارے ہاںیہ روایت بن چکی ہے کہ ہر نئی حکومت اپنی مرضی کا لوکل گورنمنٹ سسٹم لے آتی ہے ‘ جو کہ ایک غلط روایات ہے۔یہ جمہوری اداروں کے استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔لوکل گورنمنٹ سسٹم میں نت نئے تجربات کی کوئی ضرورت نہیں‘ ملک کے سبھی صوبوں میں ملتا جلتا مقامی حکومتی نظام اور ماڈل ہونا چاہیے‘ جبکہ پنجاب کا ماڈل اب یکسر نیا ہے اور مقامی سطح پر دو الگ الگ ماڈل ہیں ‘جس سے بہتری کی امید کم ہے۔حکومت نے اپنے گزشتہ وعدوں اور دعووں کے برعکس پنجاب میں نیا مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرایا ہے اور لوکل گورنمنٹ کے کسی بھی سٹیک ہولڈر‘گروپ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی اس بارے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔
وزیراعظم عمران خان قانون کے بنیادی خدوخال جاننے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے مشاورت کریں‘ تاکہ اس قانون کے مثبت پہلو اور منفی پہلو کا تقابلی جائزہ سامنے آجائے ۔ یہ قانون دراصل دو الگ الگ قوانین ہیں‘ جن کا موضوع ایک یعنی لوکل گورنمنٹ ہے‘ مگر ان کا آپس میں کوئی قانونی اور انتظامی تعلق نہیں ہے‘یعنی پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء اور پنجاب پولیس پنچایت اینڈ نیبرہڈ کونسل ایکٹ 2019ء ‘ پنجاب حکومت نے دو الگ الگ قانون متعارف کرائے ہیں ‘جن کی رو سے ایک مقامی حکومت کے بارے میں ہے‘ دوسرا ویلیج پنچایت اور نیبر ہڈ کونسلوں کے بارے میں ہے‘ جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے‘ جبکہ خیبرپختونخوا میں ایک ہی منظم نظام ہے ‘جہاں مقامی حکومتیں ہیں اور ویلیج نیبر ہڈ کونسلیں بھی ہیں‘ جو باہم مربوط ہیں۔ایک نیا تصور تحصیل کونسل کا متعارف کرایا گیا ہے ‘جسے سٹی کونسل کہیں گے‘ مگر یہ اضافہ بھی برائے نام ہی ہے۔وزیراعظم پاکستان کے مشورے کے لئے میں کہنا چاہتا ہوں گا کہ مقامی حکومت کا بل آئین میں وضع کردہ ہدایات 140 اے کے برعکس ہے‘ جو صوبوں کو پابند کرتا ہے کہ ایسی مقامی حکومتوں کو قائم کریں جن میں منتخب نمائندے ہوں اور آرٹیکل 32 ان لوکل حکومتوں کو مکمل سیاسی‘ مالیاتی اور انتظامی اختیارات منتقل کریں۔ آرٹیکل 140 میں پنچایت ‘ نیبر ہڈ والے قانون میں مقامی حکومت کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔موجودہ شکل میں یہ دونوں بل ایک دوسرے سے مکمل مطابقت نہیں رکھتے بلکہ کئی آرٹیکل متضاد ہیں ۔حکومت کے وزرا اور ترجمان قانون کو بغور پڑھے بغیر بیان بازی میں مصروف ہیں ‘جو باتیں کر رہے ہیںموجودہ قانون میں ان کا ذکر ہی نہیں ہے۔
نیبرہڈ اور پنچایت کا لفظ تبدیل کرنا چاہیے‘ انگریزی کا استعمال غیر ضروری ہے‘ محلہ کونسل اوردیہی کونسل ہی کہنا نامناسب ہوگا ‘دیہات میں پنچایت سے کنفیوژن بڑھے گی‘ کیونکہ روایتی پنچایتیں جو غیر قانونی اور ماورائے قانون فیصلہ سناتی ہیں ‘ ہمارے ملک میں متنازع ہیں۔دو سو سال پہلے یہ لفظ استعمال کیا گیا تھا‘ اس وقت پنچایت سے مراد علاقے کے معتبر لوگ‘ سردار اور وڈیرے حاکم اور حکومت کے پروردہ ہوتے تھے‘ جنہیں اعزازات اور القابات عطا ہوتے تھے‘ مگر اب جمہوریت کا دور ہے ‘ان کے نمائندے بااختیار ہوتے ہیں‘ لہٰذا ان کے اداروں کے نام ماضی کے حوالوں سے اجتناب کرتے ہوئے رکھے جائیں۔ہم پنجاب میں مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے مکمل رپورٹ بمعہ سفارشات وزیراعظم پاکستان کو گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی وساطت سے بھیج رہے ہیں‘ تاکہ وزیراعظم ان سفارشات کی روشنی میں موجودہ قوانین میں مزید اصلاحات لانے کے لئے صوبائی حکومت کو سفارشات بھجوا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں