"KDC" (space) message & send to 7575

امریکہ افغانستان میں سرنڈر کر چکا !

افغان طالبان نے دو اکتوبر 2019 کو 19 سال بعد پاکستان کا پہلا آفیشل دورہ کیا۔ اسلام آباد میں طالبان کا‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور دیگر اعلیٰ حکام نے حکومتی پروٹوکول کے تحت شاندار استقبال کیا۔ دو گھنٹے تک طالبان اور پاکستانی حکام کی کئی امور پر بات چیت ہوئی۔ بارہ رکنی وفد کی قیادت طالبان کے سیاسی لیڈر ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ افغان طالبان کی وزیر اعظم عمران خان سے بھی طویل ملاقات ہوئی۔ امریکہ نے پاکستان سے درخواست کی تھی کہ طالبان کو مذاکرات کی بحالی پر راضی کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے افغان امور پر صدر ٹرمپ کے مشیر زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں نیٹو کے سربراہ بھی پاکستان آئے تھے۔ افغان طالبان نے امریکہ سے مذاکرات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ نے اس بار طالبان کو دھوکا دیا تو نتائج واشنگٹن تک جائیں گے اور حملوں میں امریکہ کا کوئی فوجی بھی افغانستان سے زندہ بچ کر نہیں جائے گا۔
افغان طالبان سے امریکہ نے پُر امن انخلا کی درخواست کی ہے۔ نومبر 2020 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ افغان جنگ کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کر سکتے ہیں؛ تاہم عین ممکن ہے کہ امریکہ الیکشن کے بعد افغانستان سے مکمل طور پر نکلے، اس وقت 14 ہزار امریکی فوجی اور تقریباً 10 ہزار کے لگ بھگ نیٹو فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ اس بات کا خدشہ بھی موجود ہے کہ امریکی الیکشن تک تو رک سکتے ہیں‘ لیکن شاید صدر ٹرمپ افغانستان سے فوج نکالیں اور نہ ہی جنگ ختم کریں‘ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے‘ پینٹاگون‘ کانگریس اور دیگر ادارے نہیں چاہتے کہ امریکہ افغانستان سے شکست کا داغ لے کر نکلے اور بعد میں ذلت کے طعنے برداشت کرتا رہے؛ تاہم صدر ٹرمپ کی مجبوری یہ ہے کہ 2020 کے الیکشن میں افغان جنگ کے خاتمے اور فوجی انخلا کا انتخابی نعرہ دے کر وہ اپنی کامیابی کے امکانات بڑھانا چاہتے ہیں۔ 
افغان طالبان بھی صدر ٹرمپ اور امریکہ کی سیاسی انتخابی مکاری سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے مذاکرات کے ساتھ ساتھ امریکی فوجیوں پر فیصلہ کن حملوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے؛ تاہم مختلف ملکوں کے دورے کر کے طالبان دنیا بھر میں اپنی سیاسی اور سفارتی مہم بھی جاری رکھنے کے خواہش مند ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے حق میں استوار کر سکیں۔ اس سرگرمی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مستقبل کی ممکنہ طالبان حکومت کے لیے سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی اور اخلاقی مدد حاصل کی جا سکے۔ روس‘ چین‘ ایران‘ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد طالبان اگلے مرحلے میں سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ ملائیشیا‘ ترکی اور یورپ کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ افغانستان کے 80 فیصد علاقوں پر اس وقت طالبان کا کنٹرول ہے؛ تاہم افغانستان پر طالبان کی حکومت کے مکمل کنٹرول کے لئے دو تا پانچ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
آرمی چیف جناب جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملک کے ممتاز تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کو حکومت کے خلاف چارج شیٹ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاجروں اور صنعت کاروں کے وفد نے حکومت کے بجائے چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات کی تاویل یہ پیش کی کہ چند ماہ قبل آرمی چیف نے کراچی میں تاجروں اور صنعت کاروں سے ملاقات کی تھی اور اس وقت ان سے کہا تھا کہ اگر آپ کے مسائل حل نہ ہوں تو آپ براہ راست مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ کاروباری افراد نے آرمی چیف کو بتایا کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد سے کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا ہے۔ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد تاجر و صنعت کار وزیر اعظم سے بھی ملاقات کر چکے ہیں اور وزیر اعظم نے ان کو گائیڈ لائن دی ہے اور ایک با اختیار کمیٹی بنانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس ملاقات کے بعد وزیر اعظم عمران خان کو معاشی طور پر مکمل آگاہی ہو چکی ہے کہ ان کے بعض وزرا کے خلاف کرپشن کے سنگین سکینڈل پر بعض میڈیا پرسنز کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہی میڈیا پرسنز کی تحقیقی رپورٹ کی روشنی میں نواز شریف کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا اور ان کے صاحبزادوں کو ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ اب اسی طرز پر وزیر اعظم عمران خان کے بعض دست راست وزرا پر باریک بینی سے کام ہو رہا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہی ہے کہ سب کچھ اچھا نہیں ہے اور اب پانی سر سے اوپر ہو رہا ہے۔ ایسے میں اگر حزب اختلاف کی مہم جوئی کو عوامی توجہ ملتی ہے تو اس کی وجہ حزب اختلاف کی مقبولیت یا ماضی کے کارنامے نہیں ہیں بلکہ موجودہ حکومت کی اپنی نا کامیاں ہوں گی۔ وزیر اعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہئے عوام کو حکومت کی ٹیم سے کوئی امید نہیں رہی ہے۔ ملک معاشی جمود کا شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے دیگر قوتوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے لیے بہتر ہو گا کہ اپنی معاشی ٹیم میں درست تبدیلیاں کریں اور غیر حلف یافتہ مشیران کی جگہ پارلیمنٹ میں سے تحریک انصاف کے منتخب ارکان کو کابینہ میں شامل کریں‘ جو ملک کے مفاد میں بہتر ہیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عوام کو ریلیف دلانے والے فیصلے کریں اور پھر ان کے نفاذ کو ممکن بنائیں۔ موجودہ حالات میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی تازہ رپورٹ نے قوم کو خطرے کی گھنٹی سے آگاہ کر دیا ہے کہ 2020 میں پاکستان کا گروتھ ریٹ تاریخ کی پست ترین سطح پر ہو گا‘ جبکہ افراط زر کی شرح 12 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اور پورے ایشیا میں اس حوالے سے صرف ترکمانستان اور ازبکستان ہم سے آگے ہوں گے۔ قومی احتساب بیورو اور ایف بی آر کی شبانہ روز کاوشوں اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی سعی کے باوجود اب تک مہنگائی کا کوئی توڑ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آئے دن بجلی سمیت تمام وہی اشیاء مہنگی ہوتی جا رہی ہیں جو عوام کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ مہنگائی انسان سے اس کی اقدار و نظریات تو کیا‘ انسانیت تک چھین لیتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو اقوام متحدہ کی تقریر کا جشن منانے کے لئے خوشامد کی چادریں وصول کرنے سے احتراز کرنا چاہیے تھا۔ کشمیر جیسے اہم بین الاقوامی مسئلے اور انسانی حقوق کی پامالی کے بین الاقوامی ایشو پر 193 ممالک میں سے صرف تین ممالک نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی لیکن حکومت کے ترجمان حسن ظن اور مبالغے کا شکار ہیں جبکہ ہماری اصل حیثیت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر جیسے انسانی مسئلے پر بھی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور مسلم ممالک‘ جن پر ہمیں ناز ہے‘ نے بھی خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ امریکہ کی منشا کے بغیر اقوام متحدہ کا ادارہ پاکستان کے لیے عراق یا افغانستان جیسی قرارداد بھی نہیں لائے گا اور کشمیر میں حقائق جاننے کے لئے کمیشن نہیں بھیجے گا‘ کیونکہ اقوام متحدہ اور امریکہ میں جو سفارت کار ہیں ان کا مطمح نظر ذاتی مفادات کا حصول ہے اور یہ سلسلہ 1988 سے جاری ہے۔ اس لئے فقط یہی کہا جا سکتا ہے کہ کم سے کم وزیر اعظم صاحب کی تقریر نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا‘ عالمی سطح پر ہمدردی اور مسئلے کی گہرائی کے حوالے سے شعور پیدا کیا اور بین الاقوامی میڈیا نے اپنا کردار سرانجام دیا‘ جس کے ذریعے پاکستان اور کشمیر کا مقدمہ دنیا کے کونے کونے تک پھیلا۔ وزیر اعظم عمران خان کے مطابق ناموس رسالتؐ اور اسلامو فوبیا دو ایسے موضوعات ہیں جنہوں نے مسلمان کے قلب کو متاثر کیا اور ان کی آنکھوں سے آنسو گرے ہیں۔ اس کا کریڈٹ ڈاکٹر بابر اعوان کو جاتا ہے جنہوں نے روحانی حوالوں سے وزیر اعظم عمران خان کو ایک گھنٹے تک بریف کیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان کا روحانی تاریخ اور صوفیہ کرام کے کلام سے گہرا شغف ہے۔ انہوں نے پس پردہ وزیر اعظم عمران خان کو روحانیات‘ اسلام اور ریاست مدینہ اور خلفائے راشدینؓ کے دور کے حوالوں سے مکمل طور پر بریف کیا‘ جس کے نتائج و اثرات سب کے سامنے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں