"KDC" (space) message & send to 7575

عالمی سرمایہ داری کا کھیل اور پاکستان

وطنِ عزیز کی معاشی صورتحال گمبھیر ہے ۔پاکستان اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ چاروں طرف سے مسائل اورمشکلات نے گھیر رکھا ہے ۔ مالی عدمِ استحکام کی صورتحال کے باعث امورِ مملکت چلانے میں حکومت کو جہاں دشواریوں کا سامنا ہے وہیں عوام کو بدترین مہنگائی کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ ہر شے کے دام کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمران‘ سیاستدان اور بااثر طبقات ہمارے ملک کو برسوں سے لوٹ رہے ہیں‘ جبکہ ملکی سرمایہ کار ملک میں سرمایہ کاری کے بجائے اپنی دولت بیرون ملک منتقل کررہے ہیں ۔ مغربی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے طاقتور حلقے ملکی معیشت کو ناکام بنانے کے لیے 24ہزار ارب روپے ملک سے باہر پہنچا چکے ہیں‘یہ معاشی جمود اسی لیے ہے ۔
میری رائے میں ریاست کے ذمہ داروں اور نامور کاروباری شخصیات نے کاروباری ماحول کی بہتری اور ملکی معیشت کو بچانے کے لیے عجلت سے کام لیا ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بزنس کمیونٹی کے نمائندگان کی ملاقات سے ثابت ہوا کہ پاکستان کا کاروباری طبقہ حکومت کی معاشی پالیسیوں اور حکومت کے اقدامات سے غیر مطمئن ہے۔شاید وزیراعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم سے متعدد ملاقاتوں‘ وعدوں اور یقین دہانیوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تھا ۔ کاروباری شخصیات کے خیال میں ملکی معیشت کو درست ٹریک پر رکھنے اور کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے ان کی آرمی چیف سے ملاقات ہی واحد راستہ رہ گیا تھا۔ جنرل باجوہ سے ملاقات کے نتیجے میں کاروباری شخصیات کا اعتماد بڑھا ہے اور جو لوگ اپنے کارخانے بند کرنے اور اور نئی سرمایہ کاری سے گریز کررہے تھے وہ کاروبار جاری رکھنے اور اس میں اضافے پر تیار نظر آتے ہیں۔
صدر ایوب خان کے دور میں ڈاکٹر محبوب الحق نے 22خاندانوں کا نعرہ دے کر ان کاروباری خاندانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کروائی‘ جسے بعد میں شیخ مجیب الرحمن‘ مولانا بھاشانی اور مسٹر بھٹو نے بھی اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا اور ملکی معیشت کو تباہی سے ہم کنار کر دیا‘ جس کے بعد پاکستان آج تک اپنی معیشت کو سنبھال نہیں سکا ۔
چیئرمین ایف بی آر نے انہی دنوں ایک اہم انکشاف کیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ پاکستان کے 100ارب ڈالر ملک سے باہر ہونے کا تاثر غلط ہے‘ بلکہ بیرون ملک بھیجی گئی رقم کا زیادہ تر حصہ ایک قانونی طریقے سے بھیجا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 20برسوں میں سالانہ چھ ارب ڈالر ملک سے باہر بھیجے جاتے رہے ہیں‘ جس میں سے 85فیصد رقم کے لیے قانونی اور 15فیصد کے لیے مشکوک طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ ہر پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال اُبھرنا لازمی ہے کہ اگر حقیقت یہی ہے تو قوم کو اربوں ڈالر پر مشتمل لوٹی گئی دولت باہر سے واپس لا کر ملک کی تقدیر بدلنے کی یقین دہانی کیوں کروائی گئی تھی؟ چیئرمین ایف بی آر شبر رضا زیدی کے ان انکشافات کے بعد‘ نواز شریف اور زرداری خاندان کے بارے میں پایا جانے والا عام تاثر کہ انہوں نے دو سو ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی ‘بے جان ہوکر رہ گیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان کے ترجمان اس کا کیا جواز پیش کریں گے ؟
ملکی صورتحال بصیرت افروز فیصلوں کی متقاضی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ریاست کی فلاح و بہبود اور گڈ گورننس کے لیے خاصی محنت کر رہے ہیں ۔بتایا جاتا ہے کہ صبح دس بجے سے رات آٹھ بجے تک مختلف ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں اور فیصلے کئے جاتے ہیں‘ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی کسی میٹنگ کا باضابطہ تحریری ریکارڈ موجود نہیں اور نہ ہی میٹنگ کی سمری تیار کی جاتی ہے ؛چنانچہ تمام میٹنگز کے نتائج اسی لیے ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں کہ ان کا کوئی باضابطہ ریکارڈ ہی موجود نہیں ہوتا ۔ اسی لیے بزنس مینوں نے جنرل باجوہ سے شکایت کی تھی کہ وزیراعظم کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کا کوئی میکنزم کام نہیں کر رہا‘ ان کے فیصلے ہوا میں اڑائے جا رہے ہیں ۔
امید کی جانی چاہیے کہ ملکی معیشت کو ہمہ جہتی بحران اور جمود سے نکالنے کے لیے اداروں میں کثیرجہتی ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے گا۔ اس وقت ضرورت امن و استحکام کی ہے‘ امن ہوگا تو سرمایہ کاری ہوگی‘ سیاسی اور سماجی آسودگی جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے ۔ عالمی حالات نے پاکستان کو ایک نازک موڑ پر کھڑا کردیا ہے۔ قومی سلامتی براہ راست سیاسی اور سماجی صورتحال سے وابستہ ہوتی ہے‘ مگر ہمارے ہاں سیاسی افراتفری کا موسم طول پکڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اس میں بعض نادان دوستوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ ملک بے شک مشکل دور میں ہے ‘چاروں طرف احتجاجی جلسوں کے طبل بجتے سنائی دیتے ہیں۔پاکستان کی عسکری قوتوں نے ملک کے مفاد میں کرپشن کے ازالے اور گڈ گورننس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کی مثالی سپورٹ کی‘ لیکن حکومت کے بعض وزرا اور خصوصی معاونین و مشیر ان کی نااہلی‘ کرپشن اور ناقص کارکردگی کے سبب معاملات دگر گوں ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی وجہ سے قوم ماضی کے جن حکمرانوں کو کرپٹ سمجھتی رہی تھی‘ اب ان کے بارے میں قوم میں نرم گوشہ پیدا ہوتا جا رہا ہے ۔
یاد رہے کہ ہیومن ڈیویلپمنٹ تھیوری کی بدولت عالمی معیشت دانوں میں خصوصی شہرت حاصل کرنے والے ڈاکٹر محبوب الحق نے 1959ء میں نامور صحافی حمید نظامی کی مشاورت سے پاکستان کے امیر ترین 22خاندانوں کی ایک فہرست تیار کی تھی۔ اپنے کیریئر کے شروع میں محبوب الحق سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کے چیف ایڈیٹر اور معروف کاروباری شخصیت نصیر اے شیخ ان کی مالی معاونت کرتے تھے‘ لیکن جب ان کے روابط واشنگٹن سے ہوگئے اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے چیف اکانومسٹ بن گئے تو ان پر انکشاف ہوا کہ پاکستان کی معیشت اور کاروبار کے 80فیصد سے زائد پر داؤد‘ ولیکا‘ سہگل‘ آدم جی‘ نشاط ملز‘ فینسی‘ گندھارا ‘ بیکو ‘ گل احمد منو‘ وزیر علی‘ دادابھائی‘ کالونی ‘رنگ والا ‘حبیب‘ شاہنواز ‘ حسین ابراہیم ‘ جلیل گروپ کا قبضہ تھا۔یہ وہ خاندان تھے کہ جنہوں نے پاکستان کی معیشت اور کاروباری نظام کو سنبھالا ہوا تھا۔ اس وقت یہاں محمد شریف فیملی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دراصل 1960ء اور 1970ء کے دور میں بین الاقوامی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا غلبہ تھا اور اس نظام نے دنیا بھر کے عوام کے سرمائے اور حکومت پر قبضہ کیا ہوا تھا اور مخصوص گروپوں کی اجارہ داری قائم تھی ۔ان کے درمیان اس وقت اس بات پر خاموش مصلحت تھی کہ ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن جیسے سرکاری اداروں کی مدد سے صنعتی یونٹ بناکر صنعتکاروں کو دئیے گئے ۔ ڈاکٹر محبوب الحق بہت عرصہ صدرایوب خان کی ان پالیسیوں کی بھرپور حمایت کرتے رہے‘ لیکن 22خاندانوں کی ملکی معیشت اور صنعت پر اجارہ داری کی رپورٹ کے بعد جب انہوں نے صدر ایوب خان سے ان اجارہ داریوں کی بات کی تو انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ سب پلاننگ کے مطابق کیا گیا ہے۔1970 ء میں ڈاکٹر محبوب الحق امریکہ واپس چلے گئے اورسابق امریکی ڈیفنس سیکرٹری رابرٹ میکنامارا(Robert Strange McNamara)‘ جو ویتنام جنگ کے خالقوں‘ منصوبہ ساز وںاور اور مشہور کولڈ وار ڈاکٹرائن کے علاوہ پینٹاگان اور سی آئی اے کے موجودہ عالمی سٹریٹیجی کے بانیوں میں سے تھا‘ کے ساتھ بطور چیف اکانومسٹ ورلڈ بینک جوائن کرلیا۔اس وقت رابرٹ مکنا مارا عالمی بینک کے صدر تھے ۔ ڈاکٹر محبوب الحق نے مکنامارا کی صدارت کے دوران ہیومن ڈیویلپمنٹ پر جو تھیوری پیش کی‘ اسے ہیومن ڈیویلپمنٹ کی تاریخ میں ایک سنگ میل کہا جاتا ہے۔ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے بھی انہیں مشیر خزانہ و اقتصادی امور کی پیشکش کی جو محبوب الحق نے عالمی بینک کی ایما پر مسترد کردی ۔ حیران کن بات ہے کہ محبوب الحق اپنی آخری عمر میں‘ 1982ء میں مجید نظامی صاحب کی ایما پر جنرل ضیاالحق کی دعوت کو قبول کرکے پاکستان کے وزیر خزانہ و اقتصادی امور مقرر ہو گئے ۔
آج جب میں پاکستان کی معاشی صورتحال کو دیکھتا ہوں‘ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ملک کو درپیش مساشی مسائل کی جڑیں گہری ہیں اور یہ مسائل نتیجہ ہیں ماضی میں یہاں برسر اقتدار رہنے و الی حکومتوں کی جانب سے اختیار کی گئی معاشی و اقتصادی پالیسیوں کا‘ اور ظاہر ہے کہ ان سے نجات میں بھی کچھ وقت لگے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں