"KDC" (space) message & send to 7575

وزیراعظم نے اسلام آباد کے دروازے کھول دیئے

تاریخ ماضی‘ حال اور مستقبل کی کنفیوژن کو سامنے رکھ کردرپیش مشکلات کی نشاندہی کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرتی۔ تاریخ حیران کن اور غیر متوقع واقعات سے بھری پڑی ہے۔حیران کن اور غیر متوقع واقعات کا احوال قدرت کا قانون ‘ہے جس کے تحت دنیا کی چھوٹی طاقتیں بڑی طاقتوں کو شکست دیتی ہیں۔ یہ آج ایک تاریخی سچائی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جو تحریک اس وقت کے طاقتور حکمران کے خلاف14اگست2014ء کو شروع کی تھی‘ اسی طرح کا منظر نامہ اب دیکھنے میں آرہا ہے۔ قدرت کا دوسرا اہم قانون دو ایک جیسی اور ملتی جلتی طاقتوں کا بیک وقت پیدا ہونا اور بیک وقت ان کاایک دوسرے میںمداخلت کرنا ہے۔ سمندر کی دو ملتی جلتی لہریںپیدا ہوتے ہی ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتی ہیں‘دونوں میںبیک وقت ابھار اور نشیب وقوع پذیر ہوتا ہے اور عام زبان میں اسے اتفاقاتِ زمانہ کہتے ہیں۔اسی کیفیت سے وزیراعظم عمران خان گزر رہے ہیں۔وزیراعظم نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے نوجوانوں کو متحرک کرنے کیلئے غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کے نظام کے تحت فروری 2020ء کونئے انتخابات کرانے کا اعلان کیاہے ۔وزیر اعظم نے ممکنہ قباحتوںسے بچنے کیلئے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوںکو اعتماد میںلئے بغیر اور الیکشن کمیشن سے مشاورت کو بھی نظر انداز کرکے یک طرفہ اعلان کردیا‘ جبکہ الیکشن کمیشن نے فروری 2020ء میںبلدیاتی انتخابات کرانے پر قانونی تحفظات کا اظہار کردیاہے۔ قارئین کی توجہ کیلئے میںیاد کرانا چاہتا ہوں کہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدارکی کشتی ہچکولے کھا رہی تھی تو9اپریل1977ء کو شاہراہ قائداعظم پرپولیس کی فائرنگ سے 30 افرادجاں بحق ہوگئے اور ان کے صوبائی وزیراعتزازاحسن نے حکومت اور پیپلزپارٹی سے استعفیٰ دے دیا تو وزیراعظم بھٹونے اپنے سیاسی مشیر ملک محمد حیات ٹمن کے مشورے سے اپوزیشن کی تحریک میں مفادات کی جنگ شروع کرانے کیلئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا۔اسی طرز سیاست کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب اور پختونخوا میں الیکشن کمیشن سے بالا بالا غیر جماعتی بنیادوںپر بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا ہے‘ جس کی ہوا الیکشن کمیشن نے نکال دی ہے۔ 
وزیراعظم عمران خان بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان خطرات کا تدارک کرنے کی بجائے کسی کے مشورے کو درخوراعتنانہیں سمجھتے۔ بطورریٹائرڈ سیکرٹری الیکشن کمیشن مجھے سیاستدانوں کی نبض کا بخوبی اندازہ ہے‘ ہر حکومت میںایسے لوگ موجود ہوتے ہیںجو وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی مہارت رکھتے ہیںاور کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت اپنی حکمرانی کی کشتی میں سوراخ کر لیتے ہیں۔ وزیراعظم بھٹو کی کابینہ کے چند اہم وزرا کا تعلق اپوزیشن سے جڑ چکا تھا اور وہ لمحہ لمحہ وزیراعظم کی کمزوریوںاور پریشانیوںکی خبریںاپوزیشن کو مہیا کرتے تھے۔ ان پراسرارسرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے راؤ عبدالرشید خان‘ جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو تھے‘نے 28اور 30جون 1977ء کے درمیان ایک خفیہ سمری وزیراعظم بھٹوکو بھجوائی کہ پانچ جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق ٹیک اوور کر رہے ہیں‘لیکن وزیراعظم بھٹو نے ان کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کو جنرل ضیاالحق پر پورا اعتماد ہے۔جب قدرت کا قانون حرکت میں آتا ہے تو حکمرانوں کی سوچ‘ صلاحیتوںاور ویژن پر مہر لگ جاتی ہے۔اسی تناظر میںوزیراعظم عمران خان کو اپنی کابینہ کے اہم ساتھیوں سے خطرات لاحق ہیں‘جو اِن کی حکومت کو عوام کی نظروں میںگرا رہے ہیں۔ اس سیاسی تقسیم کا ادراک نہ کیا گیا تو بہت خوفناک مسائل جنم لے سکتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے نیم دلی سے مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے اپنی اتحادی جماعت کے رہنماؤں پر مشتمل کمیٹی بنائی ‘جس نے حکومت کی جانب سے اپوزیشن سے مذاکرات کئے‘ بادی النظر میںاس کمیٹی میںایسے جہاندیدہ سیاستدان نہیں تھے جو مولانا فضل الرحمن کو قومی مفاہمت پر قائل کرسکتے ‘ جبکہ اہم سیاسی قوتیں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ تھیں ‘کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے دکھوں میں اضافہ ہوا ہے اور عوام میں حکومت مخالف جذبات شدت سے موجود ہیں۔پاکستان کے دانشوروںاور غیر جانبدارتجزیہ نگاروں کو قومی مفاد میں‘ اس سیاسی صف بندی کے بارے کھل کر عوام کو آگاہ کرناچاہیے‘ کیونکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یہ تاثر پھیلا رکھا ہے کہ تحریک انصاف کو مخصوص حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں عوام کو یہ احساس بھی دلایا جا رہا ہے کہ ملک میں چین کی طرز پر ون پارٹی سسٹم بنائے جانے کاامکان ہے۔ یہ سوچیں مسلسل پروان چڑھ رہی ہیںاور ان کا ادراک نہ کیا گیا ‘تو بحران زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔
حکومت کے مشیر احتجاج یا آزادانہ سیاسی عمل کو روکنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں‘جس سے معاملات حکومت کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔اس سیاسی محاذ آرائی سے ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں‘جو پہلے ہی بہت سست روی کا شکار ہے۔ سیاسی کشیدگی کی یہ فضا 25جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد سے قائم ہے ‘کیونکہ انتخابی عمل پر بے اطمینانی کا اظہار کیا گیا تھا اوربیشتر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا تھا۔ بعد میںاگرچہ جمہوری تسلسل کو قائم رکھنے کی خاطر انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو تسلیم کر لیا گیا‘مگر پھر بھی سیاسی مفاہمت کا ماحول اس لئے تشکیل نہ پاسکا کہ حکومت نے انتخابی دھاندلیوںکے خلاف کمیشن بنانے کی راہ میںرکاوٹ کھڑی کردی اور آئین کے آرٹیکل 225کا سہارا لیتے ہوئے انتخابی دھاندلیوں اور بے قاعدگیوںکی انکوائری کرانے کیلئے کمیشن نہ بننے دیا۔ اگر اسی وقت حکومت اپوزیشن کو راضی کرنے کیلئے پارلیمانی کمیشن بنا دیتی اور اپوزیشن کے مطالبات تسلیم کر لیتی تو الیکشن کی شفافیت پر مہر لگ جاتی اور آج مولانا فضل الرحمن جلوس نہ نکال رہے ہوتے ۔ میں نے اپنے تجربے کی روشنی میں2013ء کے انتخابات کے تناظر میںاور بعدازاں2015ء کے الیکشن انکوائری کمیشن‘ جس کی سربراہی چیف جسٹس (ر)ناصر الملک کر رہے تھے‘ کے فیصلے کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان کو سفارشات بھیجیں کہ اپوزیشن کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے ا نکوائری کمیشن بنانے میں کوئی آئینی اور قانونی رکاوٹ حائل نہیں ‘ بد قسمتی سے وزیراعظم اور نوکر شاہی نے میرے مشاہدے کو در خور اعتنا نہ سمجھا‘لیکن اب بھی موقع ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے خدشات اور تحفظات کے ازالے کیلئے سپریم کورٹ کے توسط سے اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور ان وزرا کو سبکدوش کر دیا جائے جنہوں نے ستمبر 2018ء میںانتخابی کمیشن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی تھیں۔ 
مولانا فضل الرحمن نے دانش اور منطق سے سازشی سوچ کو ناکام بنا یا‘ لیکن جو انہوں نے مطالبات پیش کئے ہیںاس نے آزادی مارچ کی سوچ کو گرہن لگنے کیلئے موادمہیا کر دیا گیاہے۔ وزیراعظم سے استعفٰی کا مطالبہ جمہوری طور پر درست نہیں ہے‘ لیکن یہاں بھی قدرت کا قانون سامنے آ رہا ہے کہ جب 25اگست 2014ء کو وزیراعظم نواز شریف کے ایما پرجنرل راحیل شریف نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری سے ملاقات کی تھی اس وقت بھی آرمی چیف نے عمران خان کو واضح طور پر آگاہ کیا تھا کہ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ آئینی طور پر درست نہیں ہے اور ان کے دیگر پانچ مطالبات پر غور کرنے کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب بھی حالات اسی ڈگر پر چل رہے ہیں‘ اپوزیشن نے اپنے رویے میں لچک پیدا کی اور بات چیت سے پہلے وزیراعظم کے استعفے جیسے انتہائی مطالبے کو نظر اندازکرکے مذاکرات کوآگے بڑھایا‘ کیونکہ دوسری صورت میںجمہوری تسلسل کو خطرات لاحق ہو سکتے تھے ۔بہرکیف وزیراعظم عمران خان نے 31اکتوبرلانگ مارچ اسلام آباد آنے کیلئے اسلام آباد کے دروازے کھول دیئے ہیںجو خوش آئند ہے‘ مولانا فضل الرحمن کی تحریک میں اب وہ جوش وجذبہ نہیں رہے گاجو پابندی کے باعث ہو سکتا تھا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں