"KDC" (space) message & send to 7575

نعیم الحق ناقدری کا شکار ہوئے

وزیراعظم عمران خان کے دیرینہ ساتھی اور معاون خصوصی نعیم الحق مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا اور مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔قرآن خوانی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘ وزیر اعظم‘ چند وزرا اور ارکانِ اسمبلی نے شرکت کی۔ اصولی طور پر قرآن خوانی اور دعائے مغفرت سے پہلے وزیراعظم اور صدرِ مملکت کو تحریک انصاف کے لیے نعیم الحق صاحب کی شاندار خدمات اور کارکردگی پر تقاریر کرنی چاہیے تھیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے تھا‘جس سے تحریک انصاف کے نچلی سطح کے کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ علاوہ ازیں مرحوم کی دعائے مغفرت کیلئے ایوان وزیراعظم کے دروازے عوام کے لیے کھول دینے چاہئیں تھے‘ جیسا کہ 25 ستمبر 1996ء کو مرتضیٰ بھٹو کے ایصال ثواب کے لیے ایوان وزیراعظم میں دعائیہ تقریب منعقد کروائی گئی تو وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ایوان وزیراعظم کے دروازے عوام کیلئے کھولنے کا حکم دیاتھااور انہوں نے تعزیت کے لیے آنے والے ہر شہری سے تعزیت قبول کی تھی۔ پاکستان تحریکِ انصاف میں نعیم الحق کی حیثیت صرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی کے طور پر ہی نہیں پہچانی جاتی تھی‘ بلکہ پارٹی میں ان کا قد و قامت بہت بڑا تھا۔وہ عمران خان صاحب کے قریبی دوست ہی نہیں ‘بلکہ بھائی کے مرتبہ کو پہنچے ہوئے تھے؛چنانچہ وزیر اعظم صاحب کو اپنے دوست کی جدائی کا درد محسوس کرتے ہوئے کھلے دل سے ان کی خدمات کا اعتراف کرنا چاہیے تھا۔حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ ان کا رفاقت کا قریب 36 سال پرانا رشتہ تھا ‘اس کے باوجود وزیر اعظم کا ان کے جنازے میں شرکت نہ کرسکناباعث حیرت ہے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو تو اہم سرکاری مصروفیات کی وجہ سے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے‘ کیونکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ان دنوں اسلام آباد میں موجود تھے اور ان سے ان کی ملاقات بھی طے تھی‘ مگر وزیر اعظم تو انتہائی قریبی سیاسی ساتھی کے لیے چند گھنٹے نکال سکتے تھے‘تاہم نعیم الحق کے جنازے میں سربراہ مملکت اور سربراہ حکومت کی عدم شرکت کوتحریک انصاف کے اندرونی ڈھانچے اور مختلف کارکنوں کیلئے لمحہ فکریہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
نعیم الحق مرحوم‘ مجھ سے انتخابی اصلاحات یاالیکشن کمیشن کے معاملات اور دیگر آئینی و قانونی پہلوؤں پر مشاورت کرتے رہتے تھے ۔ جب الیکشن کمیشن عمران خان کو نوٹسز جاری کرتا اور ایک بار ہتھکڑی لگانے کا حکم بھی جاری کر دیا تھا‘ تو نعیم الحق کی خواہش پر میں نے الیکشن کمیشن کے معاملات میں پی ٹی آئی کی مشاورت کی تو مجھے الیکشن کمیشن کے ایک اہم عہدیدار نے بتایا تھا کہ عمران خان کی اپنی قانونی ٹیم کے بعض ارکان الیکشن کمیشن کو مشتعل کرنے کی راہ پر لگے ہوئے ہیں اور تاثر یہ دیا گیا ہے کہ عمران خان الیکشن کمیشن کے احکامات کی پروا نہیں کرتے۔میں نے نعیم الحق کو حالات سے آگاہ کیا تو انہوں نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی۔نعیم الحق اپنی شیریں گفتگو سے ہر مخالف کو اپنا گرویدہ بنانے کا ہنر جانتے تھے‘ بعض دفعہ ٹیلی ویژن چینلز کے پروگراموں میں جب ہم اکٹھے ہوتے تھے تو دیکھا کہ ان کے مخالف بالخصوص طلال چوہدری‘ دانیال عزیز‘ عابد شیرعلی وغیرہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے تو نعیم الحق بڑے تحمل اور دلائل کے ساتھ جواب دیتے ۔ایسے موقع پر میں ان کی معاونت کرتا تھا۔ نعیم الحق کو میں نے انتخابی اصطلاحات کے حوالے سے کئی بریفنگز بھی دیں‘ لیکن ان کے اردگرد ارکانِ اسمبلی عوام کی روح کے مطابق انتخابی اصلاحات کمیٹی کو قائل کرنے میں ناکام رہے ‘ مگر اس دوران نعیم الحق میرے ساتھ رابطے میں رہے۔وزیر اعظم عمران خان نے نعیم الحق کو گورنر سندھ بنانے کا بھی ارادہ کیا تھا‘ مگر اس منصوبے کی راہ میں بھی کانٹے بچھائے گئے۔ مجھے انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے ان دوستوں نے مخالفت کی‘ جن کو وہ خود پارٹی میں لائے تھے اور کراچی کی لابی نے وزیر اعظم کو مس گائیڈ کیا۔ نعیم الحق کو معاون خصوصی مقرر کیا گیا تو میں ان کو مبارکباد دینے نہیں گیا‘ اور نہ ہی کبھی ملنے ان کے دفتر گیا۔ ایک مشترکہ دوست کی بیٹی کی شادی کی تقریب میں ان سے آمنا سامنا ہوگیا تو مجھ سے گلہ کیا کہ میں انہیں مبارکباد دینے نہیں گیا تو میں نے کہا کہ رولز آف بزنس کے تحت معاون کی حیثیت گریڈ گیارہ کے برابر ہی ہوتی ہے‘ جبکہ آپ کو گورنر سندھ یا وفاقی وزیر کے مساوی کوئی عہدہ ملنا چاہیے تھا ۔نعیم الحق نے فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے جب میرے انٹرویوز ملکی چینلز پر دیکھے تو انہوں نے مجھے فون کیا اور تمام خدشات کی تصدیق کی اور بڑے ہی شفیق انداز میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے آپ کے انٹرویو سے نقاط حاصل کیے ہیں اور بتایا ہے کہ اُن کے آئینی ماہرین کے مطابق تو فارن فنڈنگ کیس بے جان کیس ہے ‘جبکہ کنور دلشاد الارمنگ صورتحال بتا رہے ہیں۔اس موقع پر نعیم الحق نے وزیراعظم کے آئینی ماہرین کے بارے میں جو الفاظ ادا کیے ان کا دہرانا مناسب نہیں ہے۔ 
اللہ تعالی اُن کو غریق رحمت فرمائے۔ تحریکوں کے بانی ارکان ہی تحریکوں کی روح ہوتے ہیں۔ یہ چمکتے ہوئے ستارے غروب ہو جائیں تو تحریکوں کے عزم میں فرق ضرور پڑتا ہے۔ مصر کے مردِ آہن کہلانے والے صدر جمال عبدالناصر نے اپنے ایسے ہی ساتھیوں کی ذہانت‘ قابلیت اور دیانت کی بدولت 1951ء سے 1970ء تک مثالی حکومت کی‘ لیکن جب انہوں نے اپنے قریبی ساتھی فیلڈ مارشل حکیم عبدالعامر کو مئی 1967ء کی جنگ کے نتیجے میں برطرف کر دیا تو اُس وقت کے تجزیہ نگاروں نے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ جمال عبدالناصر کا زوال شروع ہوگیا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم بھٹو نے پیپلز پارٹی کے بانی ارکان کو یکے بعد دیگرے نکالنا شروع کیا تو نظر آ رہا تھا کہ مسٹر بھٹو کا زوال شروع ہو چکا ہے۔ نواز شریف کے معاملے میں بھی یہی منظر سامنے آنے لگا تھا؛ اگرچہ انہوں نے عدالتی سزا کے باوجود پارٹی پر مکمل کنٹرول برقرار رکھا اور سوائے چوہدری نثار علی خاں کی لاتعلقی کے‘ مسلم لیگ (ن) کے کسی اہم ساتھی نے اُن سے بے وفائی نہیں کی۔
اِدھر وزیراعظم عمران خان کو مفاہمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اسی ماحول سے حکومت کمزور ہوتی بھی نظر آرہی ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کا سوشل میڈیا حکومت کے خلاف ماحول بنا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیے اقتدار کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر آگے چل کر وزیر اعظم عمران خان کے متبادل کے طور پر سامنے آ رہے ہیں۔مگر ایسی صورتحال بادی النظر میں بنتی نظر نہیں آتی۔یقینا یہ صورتحال عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے اچھا شگون نہیں ہو گی‘ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ان کی حکومت سیاسی‘ معاشی‘ داخلی اور خارجی طور پر ایک کمزور حکومت ہے اور نواز شریف کی رائے بھی یہ ہے کہ عمران خان کو مزید موقع دیا جائے تا کہ اپنی کارکردگی کی وجہ سے وہ دن بدن مزید غیر مقبول ہوتے جائیں۔ دنیا کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی کہیں معیشت بحران سے گزرتی ہے تو نفرت کی سیاست شروع ہوجاتی ہے۔اس وقت ہمارے ملک کی معیشت بھی بُرے وقتوں سے گزر رہی ہے ‘حکومت تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی آمدنی کا سب سے بڑا حصہ سود کی ادائیگیوں پر خرچ کر رہی ہے۔ایک خبر کے مطابق حکومت سود کی ادائیگیوں پر تین ہزار 125 ارب روپے خرچ کر رہی ہے جو حکومت کی ٹیکس آمدنی کے آدھے سے بھی زیادہ اور دفاعی بجٹ کا دُوگناہے۔ اور یہ سب کچھ حکومت کی اپنی پالیسیوں اور فیصلوں کا نتیجہ ہے جو کہ ملکی مفاد کے لیے کسی بھی لحاظ سے سود مند نہیں۔ اس سے غیرملکی سرمایہ کاری بھی خطرے میں پڑ رہی ہے۔ ملک میں ہاٹ منی کے فروغ سے معاشی عدم استحکام کا شدید خطرہ ہے اوربلاجواز شرح سود کی وجہ سے انڈسٹری‘ تجارت‘ ٹرانسپورٹ اور تعمیراتی شعبہ جات بند ہو رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں