"KDC" (space) message & send to 7575

وزیر اعظم کو نیک بندوں کی تائید حاصل ہے!

چند روز قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی کمیٹی نے اپنے اجلاس میں جمہوری طریقہ کار کے مطابق اپنے قائدین پر عدم اعتماد کرتے ہوئے پارٹی پالیسیوں پر تنقید کر کے اور پارٹی کے چار کے ٹولے کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو دشوار گزار راہوں سے باہر نکال لیا ہے۔ اجلاس میں شہباز شریف سے وطن واپسی کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ کمیٹی کا یہ مطالبہ تو فوری طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ شہباز شریف نہ صرف وطن واپس تشریف لا چکے ہیں بلکہ انہوں نے چند روز از خود تنہائی (قرنطینہ) میں رہنے کے بعد اب سیاسی سرگرمیوں کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شریف خاندان کی پُراسرار حکمت عملی سے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے اور قوم جب مہنگائی اور حکومت کی ناقص پالیسیوں سے بیزار ہوتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے تو اس کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ماضی میں سید خورشید احمد شاہ نے بھی اسی طرح اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ذاتی مفادات ہی کو مدِ نظر رکھا تھا‘ اور عوام کے بارے میں کم ہی سوچا تھا‘ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ پیپلز پارٹی صرف سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح اب شہباز شریف کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) آئندہ لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں اپنا وجود برقرار رکھتی نظر نہیں آ رہی۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ اس خلا کو پاکستان مسلم لیگ (ق) تیزی سے پُر کر رہی ہے اور متعدد قد آور شخصیات پاکستان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت اختیار کر رہی ہیں‘ جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ڈھانچے میں شگاف پڑ چکا ہے اور اس کے کئی صوبائی ارکانِ اسمبلی نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) سے فلور کراسنگ کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے‘ جو اس سیاسی جماعت کے قائدین کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
میری اطلاع یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کا چودھری پرویز الٰہی سے رابطہ برقرار ہے اور میرا مشورہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو سیاست کی اس گرمی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ سیاسی و پارلیمانی مفاہمت کے ذریعے ان ارکان کی اپنی جماعت میں شمولیت کے لیے ان سے مذاکرات کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان (ق) لیگ سے پارلیمانی مفاہمت کا معاہدہ کر لیتے ہیں تو ان کے خلاف آئینی طور پر تادیبی کارروائی نہیں ہو سکے گی کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پاکستان مسلم لیگ (ق) جون 2002ء سے باقاعدہ رجسٹرڈ ہے؛ چنانچہ نون لیگ کے ارکان مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان کرتے ہیں تو اسے ان کا قانونی حق ہی تصور کیا جائے گا۔ غالباً نون لیگ کے ارکانِ پارلیمنٹ کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کی جماعت کے قائدین لندن میں شاہانہ زندگی بسر کر رہے ہیں اور ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں کہ ایک دن بھی نواز شریف کسی ہسپتال میں داخل رہے ہوں۔ شہباز شریف کا بھی لندن میں طویل قیام کا کوئی جواز نہ تھا‘ لیکن وہ وہاں ٹھہرے رہے اور حال ہی میں واپس پاکستان لوٹے ہیں۔ اس طرح شہباز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ایک طرح سے شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے جبکہ اپوزیشن میں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا دم خم بھی نہیں رہا۔
میں اپنے کالموں میں اس حقیقت کی مسلسل نشاندہی کرتا رہا ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت مالیاتی امور پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ میں یہ بھی کہتا رہا ہوں اور اپنی بات پر اب بھی قائم ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان کی نیت صاف ہے اور ان کو ملک کی اہم روحانی شخصیات کی مکمل بھی حمایت حاصل ہے۔ اب عمران خان صاحب کو اگر اللہ کے نیک بندوں کی حمایت و تائید حاصل ہے تو انہیں اپنے وزرا اور مشیروں پر ضرور نظر رکھنی چاہیے۔ وزیر اعظم صاحب کو ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے وزرا اور مشیروں کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی سے حکومت نازک موڑ پر پہنچ سکتی ہے۔ دراصل یہی وہ کمزوری ہے جو عمران خان صاحب کے ویژن کو ٹھیس پہنچانے میں کردار ادا کر رہی ہے۔
تحریکِ انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد آغاز میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین یہ بات طے نہیں ہو پا رہی تھی کہ چین‘ ترکی‘ سعودی عرب‘ ملائیشیا اور دوسرے دوست ممالک سے ہاتھ ملانے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ ملک کے ممتاز ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے نہایت درد مندی کے ساتھ آئی ایم ایف کے جارحانہ معاہدہ کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کیا تھا‘ مگر جناب وزیر اعظم کی اقتصادی ایڈوائزری کونسل کے کسی فرد نے ان کے نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کی تھی۔ یہی صورت حال دیگر معاملات میں بھی درپیش ہے۔ آٹا‘ چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کی پراسرار مہنگائی کے اسباب کا سراغ نہیں لگایا جا سکا‘ حالانکہ ایف آئی اے کے غیر جانبدار ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے اپنی رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کر دی تھی کہ جناب وزیر اعظم کے دوستوں اور دشمنوں کی آرا میں ہم آہنگی پائی جانے لگی ہے۔
کورونا وائرس کے ساتھ مہنگائی کا وائرس کہاں سے اور کس کے ذریعے پاکستان میں داخل ہوا‘ وزیر اعظم صاحب کو بخوبی اس کا علم ہے‘ لیکن ایک ماہ سے قوم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ ایسے عناصر کو وہ نہیں چھوڑیں گے اور قوم وزیر اعظم سے توقع کر رہی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں گے تو انہیں پتہ چلے گا کہ اس میں تین دہائیوں سے اختیارات کا استعمال کرنے والے نیلی آنکھوں والے بیوروکریٹس کی نا اہلی شامل ہے یا ان کے وزرا اور مشیران کی دانستہ غفلت کہ ملک میں مصنوعی مہنگائی کا مسئلہ پیدا کر دیا گیا۔ دوسری جانب جناب وزیر اعظم کی اقتصادی ٹیم میں اختیارات کی رسہ کشی بھی سامنے آ جائے گی۔ مبینہ طور پر اسد عمر اور عمر ایوب کے مابین بھی سیاسی اختیارات کی جنگ شروع ہو چکی ہے‘ جس کی وجہ سے جناب وزیر اعظم شدید دباؤ میں ہیں۔ حالیہ دنوں‘ ڈالر کی قیمت میں ایک بار پھر تیزی سے اور حیران کن حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ڈالر کا بحران پیدا کر کے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا تھا‘ مگر اس کی انکوائری بھی آج تک نہیں ہو سکی۔
اسرار و رموز کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ نواز شریف نے کسی بھی دور میں اپوزیشن کے لیڈر کی حیثیت سے سرگرم کردار ادا نہیں کیا۔ جب بھی اپوزیشن میں آئے حکومت کے مخصوص اداروں سے مراعات خود لیتے رہے اور شہباز شریف کو نام نہاد اپوزیشن کے لئے آگے کر دیتے رہے۔ اس سارے تناظر میں مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر متحرک اور فعال ہونے کے خواہش مند ہیں۔ گزشتہ دنوں میں ایک انٹرویو میں انہوں نے واضح طور پر اشارہ دیا تھا کہ اسلام آباد کے احتجاجی دھرنے کے دوران چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی نے کسی اور قوت کے ایما پر مذاکرات میں حکومت کو فارغ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ چوہدری برادران نے تو بین السطور میں مڈل مین کا کردار ادا کیا‘ اصل میں ان سے وعدہ کسی اور نے کیا تھا‘ جس کی یقین دہانی پر انہوں نے دھرنا ختم کرنے کی راہ لی‘ مگر اب تک دوسری طرف سے وعدہ پورا نہیں کیا گیا اور اگر اس وقت طے پانے والے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہوا تو وہ معاہدہ کرنے والوں کے نام منظر عام پر لانے پر مجبور ہوں گے۔ اس معاملے کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہی کہا جائے گا راز ظاہر کرنے کی صورت میں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا؛ تاہم چوہدری برادران کی سیاست کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ کیا مولانا فضل الرحمن اپنے عزائم پورے کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اس کے لیے اب کورونا کے خاتمہ کا انتظار کرنا ہو گا۔ وزیر اعظم عمران خان کو فی الوقت سب سے پہلے جو کام کرنے چاہئیں‘ یہ ہیں کہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیں اور ان کے وزرا اور مشیروں نے جو حالات پیدا کر رکھے ہیں‘ ان کا ازالہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں