"KDC" (space) message & send to 7575

حالات کس کروٹ بیٹھیں گے؟

ہمیشہ کی طرح حکومت اور اپوزیشن کے مابین اختلافات برقرار اور رسہ کشی جاری ہے۔ گورننس کے بارے میں عدالتی ریمارکس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ عزیر بلوچ اور دیگر با اثر جرائم پیشہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی جے آئی ٹی اپنے اپنے مفادات کے تحت متنازعہ بنا دی گئی ہے۔ ایسے غیر واضح حالات کی وجہ سے جمہوریت کو خطرہ رہتا ہے کیونکہ سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا موقف ہے کہ عمران خان صاحب کو اقتدار میں لانے والے غالباً ان سے مایوس ہو چکے ہیں لیکن شاید ابھی متبادل نہیں مل رہا ہے۔ ان حالات میں اٹھارہویں ترمیم میں اہم تبدیلیاں لانے کے لیے پس پردہ خاموشی سے حکمت عملی کا روڈ میپ تیار کیا جا رہا ہے۔ دو دہائیاں قبل جن دنوں پرویز مشرف اور نواز شریف کے مابین شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے تو پرویز مشرف صاحب نے آئندہ کے لیے روڈ میپ اپنے خصوصی معاونین کے تعاون سے خاموشی سے تیار کر لیا تھا۔ بعد میں اس پر عمل بھی ہوا۔ میں نے اپنی سرگزشت میں ان تمام واقعات سے پردہ اٹھایا ہے جو عنقریب منظرِ عام پر آنے والی ہے۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ متبادل قیادت ہمیشہ نظروں سے اوجھل رہتی ہے لیکن جب اچانک ماحول تبدیل ہو جاتا ہے تو وہ فوراً سامنے آ جاتی ہے۔ موجودہ حالات میں ملک کا جمہوری نظام جمود کا شکار دکھائی دے رہا ہے۔ صوبے 18ویں ترمیم کے نتیجے میں بادی النظر میں زیادہ خود مختار ہو چکے ہیں‘ مگر حالات قابو میں آتے محسوس نہیں ہوتے۔ نا اہلی اور کرپشن نے عوام کو اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پیشہ ور ترجمانوں کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن پر سے ان کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ صدارتی نظام کے فوائد اور خامیوں پر مبنی اصلاحات پر خاموشی سے کام ہو رہا ہے اور انتخابی اصلاحات کی اہم اور پوشیدہ آئینی شقوں کا بھی از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن پورٹ میں صدارتی نظام اور ملک کے انتخابی نظام کا اجمالی خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ اگر ایسا کچھ ہو رہا ہے تو اس رپورٹ سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ بعض اپوزیشن رہنمائوں کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ چودھری شجاعت حسین‘ چودھری پرویز الٰہی‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی رہنماؤں میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا ابھی کوئی دم خم نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ گورنر جنرل غلام محمد سے لے کر صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف تک کی تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کو تحریکِ عدم اعتماد کے بجائے دوسرے طریقوں سے بر طرف کرنے یا پھر ان سے استعفیٰ لینے کا رواج رہا لیکن یہی تاریخ بتاتی ہے کہ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی بنا پر فارغ ہونا پڑا؛ البتہ وزیر اعظم‘ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی ماضی میں روایت رہی ہے۔ 1990 کے اوائل میں بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی تھی؛ چنانچہ اب اگر اپوزیشن جماعتیں عمران خان اور سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہیں تو اس کے حق میں 172 ووٹوں کی اکثریت ثابت کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہو گی‘ جو پوری کرنا محال نظر آتا ہے۔ بظاہر اپوزیشن وزیر اعظم‘ سپیکر قومی اسمبلی یا دونوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور کر رہی ہے؛ اگرچہ موجودہ صورتحال میں ایسی تحریک پیش کرنا مشکل ترین فیصلہ ہو گا۔ آئین کے آرٹیکل 91 کی شق 4 کے تحت وزیر اعظم کو 172 کی اکثریت حاصل کرنا لازمی تصور کیا جاتا ہے اور آئین و پارلیمنٹ کے ضابطۂ کار کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا طریقہ کار موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے کل ارکان کی تعداد کے 20 فیصد ارکان کے دستخط ضروری ہیں۔ اگر تحریکِ عدم اعتماد ارکان کی اکثریت کی حمایت سے منظور ہو گئی تو ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کو سبکدوش ہونا پڑے گا؛ تاہم وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا منظور ہونا بڑا دشوار عمل ہے۔ میری اطلاع کے مطابق اپوزیشن کی بعض جماعتیں پس پردہ اہم شخصیات سے رابطے میں ہیں اور بین الاقوامی حالات‘ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال‘ لیبیا میں بیرونی مداخلت کی بڑھتی ہوئی خبریں عالمی امن کے لیے تشویش ناک ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا امکان نہیں ہے؛ تاہم حکومت کو آئندہ چند مہینوں میں اندرونی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
کورونا وائرس اور دوسرے عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والا بد ترین معاشی بحران اداروں کی بنیادیں ہلا رہا ہے۔ اس کے ساتھ اگر سیاسی بحران پیدا ہوا تو سیاسی قوتوں نے اب تک جو حاصل کیا ہے وہ بھی ان کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کی سبکدوشی کے لیے کوئی آئینی اور جمہوری طریقہ اختیار نہ کریں۔ ان کے پاس آئینی راستہ موجود ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لے آئیں اور اگر تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کا یقین نہیں ہے تو پھر 2023 کے الیکشن کا انتظار کریں۔ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ کورونا وبا نے عمران خان صاحب کو احتجاجی تحریک سے بچائے رکھا ہے۔ دوسری جانب یہ امکان بھی ہے کہ عوام اب سیاسی رہنماؤں کے مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھیں گے۔ اس لیے اگر اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو اس حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ آئینی اور جمہوری طریقے سے جو بھی حالات پیدا ہوں گے نہ صرف سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں رہیں گے بلکہ ان معاملات پر ان کی گرفت بھی مضبوط ہو گی۔ موجودہ حالات میں نئے انتخابات کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔ اپوزیشن جن حلقوں کی طرف دیکھ رہی ہے‘ شیخ رشید احمد نے کھلے الفاظ میں سارا ماجرا بیان کردیا ہے کہ وہ اور شہباز شریف ایک ہی پارٹی کا حصہ ہیں۔ شیخ رشید کورونا کے حصار سے باہر آ گئے ہیں اور ان کے بیڈروم پر ان دنوں شاہ محمود قریشی براجمان ہو چکے ہیں اور واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ عنقریب شہباز شریف بھی ساتھ والے روم میں کورونا وائرس کا کورس پورا کریں گے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر اپوزیشن کوئی آئینی یا سیاسی راستہ اختیار کرتی ہے توپاکستان تحریک انصاف اس کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی کیونکہ وزیراعظم کے غیر منتخب مشیران اور معاونینِ خصوصی ہر معاملے پر چھائے ہوئے ہیں اور سیاسی و نظریاتی عناصر کی بہت کم چلتی ہے۔ ان کے 18 ارکان دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان قوتوں پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہیں کیونکہ وہ صرف عمران خان کو نہیں بلکہ ریاست کے مستقبل کے معاملات کو دیکھیں گے۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر تکنیکی بنیاد پر روک دی گئی ہے۔ اس کا پس منظر یوں ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف‘ جو اپنے دور حکومت میں پاکستان کی نظریاتی اساس پر مسلسل حملے کر رہے تھے‘ نے 2017 میں حکومت کی طرف سے پاکستان ہندو کونسل کی ایما پر مندر کے لیے چار کنال زمین الاٹ کر دی تھی مگر سیاسی حالات‘ پاناما کیس کی سماعت اور نااہلیت کی بنیاد پر تعمیر کا کام شروع نہ ہو سکا۔ اب اس مندر کی مخالفت پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے بھی کر دی ہے۔ اس کے سیاسی محرکات بڑی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت نے ان کے موقف کو مسترد کر دیا تو صورتحال ایسی پیدا ہو سکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ قاف حکومت کی اتحادی نہیں رہے گی اور دونوں کے تعلقات میں پہلے سے جو سرد مہری پائی جاتی ہے‘ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں