"KDC" (space) message & send to 7575

نئی کابینہ کی تشکیل قومی مفادات میں ہے

ملکی مسائل کا حل موجودہ پارلیمانی نظامِ حکومت میں ہے یا ایسے نظامِ حکومت میں جہاں صدر براہ راست منتخب ہو اور ارکانِ پارلیمنٹ اس پر دباؤ ڈالنے کی پوزیشن میں نہ ہوں؟ سینیٹ میں اس بحث میں صدارتی نظام کے نفاذ کی گونج پر اپوزیشن طیش میں آ گئی۔ اسی ضمن میں گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے اٹھارہویں ترمیم کو نظرثانی کے قابل اور قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کو ناقابلِ عمل قرار دیا تھا۔ اسی حوالے سے جب متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے سینیٹ میں آئینی ترمیم بل پیش کیا تو اپوزیشن نے یہ تحریک کثرت رائے سے مسترد کر دی۔ پاکستان کی بہتر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ملک میں صدارتی نظامِ حکومت بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر 1947ء سے 1958ء تک اور 1958ء سے 1971ء تک جاری رہا ‘ جبکہ 1977ء سے 1988ء اور 1999ء سے 2008ء تک کسی نہ کسی صورت میں نیم صدارتی نظام جاری رہا ۔یہ حقیقت ہے اور بلاخوف ِتردید اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ صدر ایوب خان کے صدارتی نظامِ حکومت میں ملک معاشی‘ خارجی اور اندرونی طور پر مضبوط و مستحکم ہوتا جا رہا تھا جبکہ جمہوریت برائے نام ہی تھی ۔ صدر ایوب خان کا نافذ کردہ صدارتی آئین جسٹس شہاب الدین کمیشن کی روشنی میں نافذ کیا گیا تھا‘ اس کمیشن کی سفارشات کے مطابق صدر کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہونا قرار پایا تھا اور بنیادی جمہوریت کے ارکان سے صرف لوکل گورنمنٹ نظام کو چلانا مقصود تھا‘ ان کو الیکٹورل کالج کا درجہ نہیں دیا گیا تھا۔تاہم صدر ایوب خان نے جسٹس شہاب الدین کمیشن کی سفارشات میں ان تجاویز کو ذوالفقار علی بھٹو‘ منظور قادر اور جسٹس منیر احمد کی سفارشات پر حذف کر دیا تھا اور ان کا صدارتی نظامِ حکومت بنیادی جمہوریت کے 80ہزار ارکان کے گرد گھومتا رہا اور امریکی طرزِ حکومت کا چربہ بن گیا تھا۔ امریکی صدر کے انتخابات میں300 ارکان ہی صدر مملکت کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ پاکستان کے صدارتی انتخاب میں 80 ہزار اراکین کے الیکٹورل کالج کے نمائندگا ن پر مشتمل ادارہ بنایا گیا تھا۔ ان ادوار کا گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو صدارتی نظامِ حکومت کو عوام کی حمایت حاصل نہ ہو سکی کیونکہ اس کے بنیادی ڈھانچے میں گہرائی نہیں تھی اور وہ ہوا میں معلق رہا‘ جونہی صدر مملکت سے کرسی چھینی گئی سا را سسٹم ہی زمین بوس ہو گیا۔ لہٰذا صدارتی نظامِ حکومت سے کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ حالات خرابی بسیار کی طرف چلے گئے۔ شیخ مجیب الرحمن نے 1975ء میں آئین میں ترامیم کر کے صدارتی نظامِ حکومت نافذ کیا تو چند مہینوں کے بعد 15 اگست 1975ء کو فوجی بغاوت کے نتیجے میں قتل کر دیے گئے۔ ہمارے ہاں جو حلقے صدارتی نظامِ حکومت کے بارے سوچتے ہیں‘ انہیںچاہیے کہ شیخ مجیب الرحمن کے صدارتی سسٹم کی ناکافی کے اسباب کا جائزہ لیں۔ شیخ مجیب الرحمن نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے اردگرد غیر منتخب معاونین اور مشیر جمع کرلیے تھے جو ناتجربہ کار‘ کرپٹ‘ موقع پرست اور عوام میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور انہوں نے رشوت ستانی کا بازار گرم کر دیا اور شیخ مجیب الرحمن ان کے ہاتھوں میں یرغمال بن گئے ۔ بالآخر انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ پاکستان میں جو حلقے صدارتی نظام کے خواہشمند ہیں انہیں1975ء کے بنگلہ دیش کے آئین کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔بعد ازاں بنگلہ دیشی جنرل ارشاد کا جو حشر ہوا وہ بھی پیش نظر رکھیں۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں صدارتی نظامِ حکومت رائج ہے‘ ان ممالک کا حال سب کے سامنے ہے۔ امریکہ جیسا سپر پاور ملک دو ایوان ہونے کے باوجود اپنے صدارتی نظامِ حکومت کی وجہ سے صدر ٹرمپ کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے ۔ اگرچہ ہمارے پارلیمانی ارکان نے عوام کو ریلیف نہیں دیا اور کرپشن نے ملک کو دیوالیہ کی حد تک پہنچا دیا ہے‘جبکہ ہمارے پارلیمانی نظامِ حکومت میں صدر مملکت کا عہدہ نمائشی ہے‘ وہ وزیراعظم پاکستان کو معاشی بدحالی‘ امن و امان‘ خارجہ امور میں ناکامی اور پارلیمنٹ میں غیر معیاری تقاریر پر بھی اپنی رائے دینے کے روادار نہیں ‘ لہٰذا حکومت پر چیک اینڈ بیلنس قائم رکھنے کے لیے کوئی بندوبست ضرور ہونا چاہیے۔ اس طرح قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پانچ سال کے بجائے چار سال کر دینی چاہیے۔ سینیٹ کے انتخابات براہ راست کروانے سے فیڈریشن مضبوط ہو گی‘ جبکہ اٹھارہویں ترمیم میں جو ابہام پایا جاتا ہے اس کو دور کرنے کے لیے اصلاحات کمیٹی دوبارہ تشکیل دی جائے اور تعلیم اور صحت کی وزارتیں وفاق کو واپس کرنا ہوں گی۔مملکت کا تعلیمی نظام صوبوں کو ملنے سے ملک کی نظریاتی اساس کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ایسے بلاگرز جو ملک اور مذہب کی بے حرمتی کر کے بیرون ممالک پناہ کی تلاش میں رہتے ہیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ ایسے مفکر جو غیر ممالک میں بیٹھ کر پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہے ہیں اور اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت فتنہ پیدا کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو فعال کرنا چاہیے۔ پارلیمانی نظام کومضبوط کرنے کے لیے قومی احتساب بیورو کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے حضرت عمر ؓفاروق کے دور کی مثل مضبوط اور بے لاگ احتسابی نظام لاگو کرنا ہو گا اور لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت آئین کے آرٹیکل 140-A کے مطابق اختیارات عوام کو منتقل کرنا ہوں گے۔
حکومت اپنے موجودہ اندازِ حکمرانی سے نہ صرف عوام کو متاثر نہیں کر سکی بلکہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کی توقعات کے برعکس عمل ہورہا ہے۔ دو سال میں مہنگائی‘ بے روزگاری اور غربت میں بے تحاشا اضافے نے لوگوں کو بدحال کر دیا ہے۔ مایوسی کی ایسی خوفناک لہروں نے ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا کر دیے ہیں‘ سٹریٹ کرائمز میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے‘ معیشت پہلے سے زیادہ تباہ ہوئی‘ قرضوں میں ماضی کے مقابلے میں غیر معمولی اضافہ ہوا‘ کارکردگی بہتر نہ ہونے اور ناکام حکمرانی کا اعتراف نہ صرف حکمران جماعت کے پارلیمانی اجلاسوں میں ہو رہا ہے بلکہ کابینہ کے اجلاس میں بھی خراب کارکردگی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جا رہی ہے۔شاید اسی بحران کا نتیجہ ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا سارا منصوبہ اب افواج پاکستان کی نگرانی میں دیا جا رہا ہے‘ اسی طرح نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے نظام کے تحت چلنے والے ادارے بھی پاک فوج کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں‘ کیونکہ مملکت کے محافظ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لے چکے ہیں۔اس میں کیا شبہ ہے کہ وزراء‘ معاونین اور مشیران بظاہر ناکام ہو چکے ہیں‘ اس سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ پارٹی اور کابینہ کے اندرونی اختلافات بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا ہے کہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی تو بہتر نہیں ہے‘ لیکن اسے آئندہ بہتر بنانے کیلئے وہ مؤثر ٹیم بھی نہیں ہے جو پارٹی کے منشور سے مخلص ہو۔ میں اپنے سرکاری ملازمت کے تجربے کی روشنی میں بڑے اضطراب سے محسوس کر رہا ہوں کہ وفاقی کابینہ کے لوگ سیاسی اور ذہنی آسودگی سے قابلِ رحم حد تک محروم ہیں۔کسی وزیر یا ترجمان کی سوچ سیاسی اور دانشوارانہ نہیں ‘ جبکہ بعض ترجمانوں کے بارے میں عوام شک و شبے میں مبتلا ہیں۔ حکومت اس بحران اور بے پناہ مسائل کے باوجود اپنے پانچ سال پورے کر سکتی ہے‘لیکن اگر وزراء کے مابین اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی گئی تو پاکستان سیاسی عمل کی شاہراہ سے اُتر بھی سکتا ہے۔ خوش آئند بات ہے کہ وزیراعظم عمران کے خلاف کرپشن کے الزامات نہیں ہیں‘ اس لیے انہیں نئی کابینہ تشکیل دینے پر غور کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں