"KDC" (space) message & send to 7575

دُہری شہریت کے حامل معاونین خصوصی اور کابینہ

وزیر اعظم عمران خان کے سات معاونین خصوصی کے دُہری شہریت کے حامل ہونے کا معاملہ‘ جس کی تفصیلات کیبنٹ ڈویژن کے حوالے سے منظر عام پر آئی ہے‘ اس بنیاد پر قابلِ توجہ ہے کہ سپریم کورٹ آج سے ڈیڑھ سال پہلے اہم سرکاری مناصب پر دُہری شہریت کے حامل افراد کے تقرر کو سکیورٹی رسک قرار دے چکی ہے۔ دسمبر 2018 کے وسط میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے اپنے تحریری فیصلے میں قرار دیا تھا کہ دُہری شہریت رکھنے والے افراد کو پاکستان میں سرکاری عہدے دیئے جانے پر مکمل پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ فیصلے میں حکومت کو اس سلسلے میں پارلیمنٹ میں واضح قانون سازی کی ہدایات کی گئی تھی‘ لیکن حکومت نے ان ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے سات معاونین خصوصی‘ جو دُہری شہریت کے حامل تھے‘ کو اہم ذمہ داریاں سونپیں۔ کیبنٹ ڈویژن کے مطابق وزیر اعظم کے جو سات معاونین خصوصی دُہری شہریت کے حامل پائے گئے ہیں‘ ان سب کا تقرر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے اس فیصلے کے سامنے آ جانے کے بعد کیا گیا ہے۔ معاون خصوصی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل پاکستان‘ جن کے پاس کینیڈا‘ سنگا پور کی شہریت ہے‘ رواں سال فروری میں اس منصب پر فائز ہوئیں۔ گزشتہ دسمبر میں معاون خصوصی برائے قومی سلامتی مقرر کیے جانے والے ڈاکٹر معید یوسف‘ گزشتہ سال اپریل میں معاون خصوصی برائے پٹرولیم کے منصب پر فائز ہونے والے ندیم بابر اور ماہ رواں کے اوائل میں معاون خصوصی پاور ڈویژن کا عہدہ سنبھالنے والے شہزادہ قاسم امریکی شہریت کے حامل ہیں۔ معاون خصوصی برائے پارلیمانی رابطہ ندیم افضل کینیڈین رہائشی ہیں اور ان کا تقرر بھی عدالتی فیصلے کے بعد گزشتہ سال جنوری میں عمل میں آیا۔ سمندر پار پاکستانیوں کے معاملات کے لیے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برطانوی شہریت کے حامل زلفی بخاری 2019 میں 13 مئی کو اس منصب پر فائز ہوئے‘ جبکہ امریکی گرین کارڈ رکھنے والے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے بھی اپنا موجودہ منصب اسی تاریخ کو سنبھالا۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کی دعوے دار حکومت کی جانب سے اعلیٰ عدالت کے ایک واضح فیصلے کے باوجود اہم سرکاری مناصب پر دُہری شہریت رکھنے والے افراد کا مقرر کیا جانا نا قابل فہم ہے۔ عدالتی فیصلے کا تقاضا تو یہ تھا کہ نہ صرف یہ تقرر عمل میں نہ لائے جاتے بلکہ 19 ماہ کی مدت میں عدالت کی ہدایات کے مطابق پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جا چکی ہوتی۔ اس سمت میں پیش رفت کا نہ ہونا اس گمان کو تقویت دیتا ہے کہ حکومت فیصلے پر عمل درآمد کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اس کا اندازہ وزیر اعظم کے ایک معروف معاون خصوصی کے ایک سال پہلے منظر عام پر آنے والے اس بیان سے بھی ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نے دُہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور یہ لوگ آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے۔ اگر حکومت کی سوچ واقعی یہی ہے تو ایسی صورت میں ضروری تھا کہ فیصلے پر نظر ثانی کے لیے درخواست دائر کی جاتی اور اب بھی آئین اور قانون کی بالا دستی کا تقاضا ہے کہ یا تو اس حوالے سے کئے گئے فیصلے کی روح کے مطابق بلا تاخیر اس پر عمل درآمد کا آغاز کیا جائے یا قواعد و ضوابط کے مطابق اس پر نظر ثانی کے لیے عدالت سے رجوع کیا جائے۔ معاونین خصوصی کے کروڑوں اور اربوں کے اثاثوں کی تفصیلات بھی کیبنٹ ڈویژن کی رپورٹ میں شامل ہیں۔ بے لاگ احتساب کا تقاضا ہے کہ ان اثاثوں اور ذرائع آمدن میں مطابقت کے ثبوت و شواہد کا بھی جائزہ لیا جائے اور ظاہری آمدنی اور اثاثوں میں مطابقت ثابت نہ ہونے کی صورت میں قرار واقعی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
اس حقیقت کو تو سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ دُہری شہریت کے حامل افراد کو ملک سے وفا داری ترک کرنا پڑتی ہے اور نئے ملک کے آئین و قوانین کا وفادار رہنے کا حلفیہ اقرار کرنا پڑتا ہے۔ ایسا کرنے والا اپنی پہلی قومیت کو ایک طرح سے ختم کر دیتا ہے لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو معاونینِ خصوصی دُہری شہریت کے حامل ہیں‘ وہ پاکستانی شہریت اور پاکستانی قومیت ترک کر چکے ہیں۔ ہم اپنے معاملات کا بھارت کے ساتھ بہت تقابل کرتے ہیں‘ لیکن بھارت میں دُہری شہریت کا کوئی تصور نہیں ہے کیونکہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ دُہری شہریت کا دعویٰ دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ بھارتی آئین کے مطابق جب کوئی بھارتی شہری دوسرے ملک کا پاسپورٹ حاصل کر لیتا ہے تو اس کا بھارتی پاسپورٹ اسی لمحے ختم ہو جاتا ہے۔ بھارت کے کسی بھی شہری کے لئے بیک وقت دو پاسپورٹ رکھنے کی قانونی اور آئینی ممانعت ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک انتخابی اصلاحات کمیٹی قائم کی گئی تھی‘ جس کا مقصد انتخابی عمل میں ایسی تبدیلیاں تجویز کرنا تھا‘ جن کے تحت انتخابات کو زیادہ شفاف‘ غیر جانب دارانہ اور منصفانہ بنایا جا سکے تاکہ انتخابی عمل سب کے لئے قابلِ قبول ہو سکے اور کوئی بھی ما بعد از انتخابات یہ دھاندلی کا شور نہ مچا سکے۔ اس انتخابی اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین اسحاق ڈار کو میں نے اس وقت یہ تجویز پیش کی تھی کہ کاغذات نامزدگی کے فارم سے علیحدہ ایک کالم کا اضافہ کر کے انتخابی امیدواروں سے حلفاً اقرار کروایا جائے کہ ان کا تعلق کسی غیر ملکی شہریت سے نہیں ہے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ انتخابی اصلاحات کے لئے قائم 26 رکنی کمیٹی‘ جس میں تحریک انصاف بھی شامل تھی‘ نے اس تجویز کو نظر انداز کر دیا‘ جبکہ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام اور چھوٹی جماعتوں نے میری اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ 
وزیر اعظم عمران خان ان دنوں ایک نئی کشمکش میں ہیں۔ ان کی کابینہ کے ارکان ان سے سوال کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کا ایک ممبر ان کے نزدیک اہم ہے یا غیر ملکی شہریت کے حامل معاونین خصوصی؟ آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت پارلیمنٹ کے ممبر کے لیے اہم شرط یہ ہے کہ اس کی پاکستان کی شہری وفاداری لازمی ہے‘ جبکہ میرے تجزیے کے مطابق معاون خصوصی کابینہ کا حصہ ہیں‘ اس کے علاوہ یہ معاونین وزیر اعظم کے ہمراہ صدر ٹرمپ سے لے کر چینی صدر تک میٹنگز میں شرکت کرتے رہے ہیں اور اہم اداروں تک ان کی رسائی ہے۔ یہ لوگ حساس بریفنگ اور اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ تو ایسے افراد جو غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں اپنے ممالک کے آئین و قوانین کے مطابق اپنے ملک کے حساس اداروں کو ان مذاکرات کے بارے میں بتانے کے پابند ہیں کیونکہ انہوں نے اس ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔
اس طرح کاایک واقعہ 4 ستمبر 1965 کوپیش آیا تھا‘ جب دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ارشد نے ترکی کے ذریعے پاکستانی وزارت خارجہ کو آگاہ کیا تھا کہ بھارت 6 ستمبر کو پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے‘ تو وہ ٹیلی گرافک سائپر صدر مملکت ایوب خان کو نہیں پہنچایا گیا تھا اور بھارت نے چھ ستمبر کو پاکستان پر حملہ کر دیا تھا۔ کمانڈر ان چیف جنرل موسیٰ خان نے ان سازشی کردار کے خلاف انکوائری کا مطالبہ کیا‘ تو سیکرٹری وزارت خارجہ اپنے اثر و رسوخ کے باعث سے محفوظ رہے۔ آج پاکستان کا اہم حساس ادارہ 'نادرا‘ غیر ملکی شہریت کی حامل خاتون کے پاس ہے‘ جس سے پاکستان کے ایٹمی سٹریٹیجک تک رسائی آسانی سے ہو سکتی ہے۔ 22 کروڑ عوام کے اثاثہ جات جو نادرا خفیہ کوڈ کے ذریعے محفوظ ہیں‘ وہ اس خاتون کی دسترس میں ہیں۔ موجودہ حکومتی نظام میں اہم کلیدی عہدے غیر ملکی شہریت کے افراد کے سپرد ہیں اور انہوں نے غیر ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں