"KDC" (space) message & send to 7575

اٹھارہویں ترمیم پارٹی سے انحراف کی ممانعت کرتی ہے!

وزیر اعظم کے مالیاتی مشیر حفیظ شیخ نے گزشتہ ماہ جب یہ انکشاف کیا کہ 2018 کے ٹیکس سال کے دوران قومی اسمبلی کے 311 ارکان اور 90 سینیٹرز نے مجموعی طور پر اپنی آمدنی پر صرف 80 کروڑ روپے بطور ٹیکس ادا کیے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جاری کردہ ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے ارکان نے اس سے بھی کم یعنی صرف چونتیس کروڑ روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے۔ بہت سے قانون سازوں نے‘ جن میں دو وفاقی وزرا فیصل وائوڈا اور زرتاج گل و دیگر شامل ہیں‘ کوئی بھی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جبکہ کچھ ارکان پارلیمنٹ مثلا سردار یار محمد رند نے چار سو روپے‘ ذوالفقار بچانی نے 388 روپے اور کنول شوزب نے 165 روپے قومی خزانے میں ٹیکس کے طور پر جمع کرائے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی آمدنی ہی اتنی نہیں نکلی کہ وہ ٹیکس ادا کرنے کے اہل ہوتے۔ بظاہر قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ارکان پر ٹیکس کی ادائیگی سے گریز کرنے کا الزام نا مناسب ہو سکتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ ان کی آمدنی اتنی زیادہ نہ ہو کہ اس پر ٹیکس ادائیگی کا اطلاق ہوتا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہو لیکن قانون سازوں کی بھاری اکثریت‘ جن کا تعلق حکومت اور اپوزیشن دونوں سے ہے‘ جس قسم کی پُر تعیش زندگی گزارتی ہے وہ ایک مختلف کہانی سناتی ہے۔ یہ بیش قیمت درآمد شدہ کار ڈرائیو کرتے ہیں‘ بڑے بڑے عالیشان محل نما مکانوں میں رہتے ہیں۔ ان کے بچے جن سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہاں لاکھوں روپے فیس وصول کی جاتی ہے۔ ان کے غیر ملکی دوروں اور متعدد زیارتوں کا بھی حساب ممکن نہیں۔ اس کے برعکس ملک کے وہ افراد جو ان سے کہیں زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے یا اچھے ہسپتالوں میں اپنا علاج معالجہ کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ یہ لوگ جب اپنے معیار زندگی کا تقابل ان ارکان پارلیمنٹ سے کرتے ہیں تو انہیں بہت گہرا اور نمایاں فرق نظر آتا ہے اور یہ چیز انہیں قانون سازوں سے برگشتہ کرتی ہے۔ ٹیکس ڈائریکٹری کا اجرا شفافیت اور احتساب کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے‘ لیکن صرف یہی کافی نہیں۔ ایف بی آر کا یہ بھی فریضہ ہے کہ وہ ان ارکان پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشواروں کا آڈٹ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ جتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کا معیارِ زندگی اس کے مطابق ہے۔ اگر وہ اپنی آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں تو ان مراعات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ اگر ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہے تو قانون بنانے والے خود اپنے حصے کا ٹیکس ادا کریں۔
نئی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق حکومت کے پانچ وزرا ایسے ہیں جو کوئی ٹیکس ادا نہیں کرتے اور پانچ ایسے ارکان پارلیمنٹ ہیں جو تمام عوامی نمائندگان کی جانب سے ادا کئے جانے والے ٹیکسوں کا تقریباً 60 فیصد ادا کرتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی 2018 میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے قانون ساز ہیں۔ انہوں نے 24 کروڑ 13 لاکھ سے زائد ٹیکس کی مد میں ادا کیے تھے حالانکہ ان پر مسلسل کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے سال 2018 میں دو لاکھ 82 ہزار روپے بطور ٹیکس ادا کیے۔ وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے تین کروڑ سے زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ ایف بی آر نے تقریباً دو سال کی تاخیر سے 2018 کی ٹیکس ڈائریکٹری عام کرنے کا فریضہ انجام دیا ہے جبکہ اس کا اجرا ہر سال ہونا چاہیے تاکہ عوام الناس کو بر وقت پتہ چل سکے کہ ان کے منتخب نمائندوں نے بھی اپنے معیار زندگی کے مطابق ٹیکس کی ادائیگی کی ہے یا نہیں۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے اور ان کے نتائج سامنے آنے میں جتنا زیادہ وقت گزرے گا شفافیت اتنی ہی زیادہ متاثر ہو گی۔ اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ پہلے اپنی پارٹی میں ان لوگوں کا احتساب کریں گے جو ٹیکس نہیں دے رہے ہیں۔ اب وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ 
اب کچھ بات سیاست کی کرتے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس سے ملک میں سیاسی درجہ حرارت نقطہ ابال کی طرف جاتا دیکھا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس پس منظر میں جنوری 2021 میں اسلام آباد کی جانب فیصلہ کن مارچ کیا جائے گا۔ قومی سیاسی قائدین نے کانفرنس سے خطاب میں حکومت کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیار کیا۔ اس موقع پر 26 نکات پر مشتمل جو قرارداد منظور کی گئی اس میں مطالبہ کیا گیا کہ انتخابی اصلاحات کے بعد آزادانہ اور منصفانہ نئے انتخابات کرائے جائیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر یہ اتحاد برقرار رہا تو حکومت مشکل میں پڑ سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر پاکستان جمہوری تحریک دھندلی ہو جائے گی۔ پاکستان جمہوری تحریک کے مستقبل کے حوالے سے میڈیا، دانشور حلقے اور سیاسی وزن رکھنے والے با اثر سیاست دانوں کو محتاط انداز اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی اور موجودہ حکومت میں پارلیمنٹ کے اندر عددی قوت رکھنے کے باوجود اپوزیشن اب تک اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے پانچ ارکان اسمبلی کو پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کئے گئے اور ان کو عجلت میں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ اصولی طور پر ان کو پارٹی سے نکالنے سے پہلے ان کا تحریری طور پر نقطہ نظر سامنے لایا جانا چاہیے تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن سے نکالے گئے رکن پنجاب اسمبلی جلیل شرقپوری نے کہا ہے کہ نواز شریف ان کے قائد ہیں‘ لیکن نواز شریف کی ٹکراؤ والی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال میں جمہوری طریقہ یہی ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ ان کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب سے انہوں نے اپنے حلقہ کے مسائل کے حل کے لئے ملاقات کی تھی۔ بظاہر مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر رانا ثنااللہ نے ان پانچ ارکان کے خلاف جو کارروائی کی ہے‘ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 205 کے تحت وہ اس کے مجاز ہیں‘ بس انہیں پارٹی کے قواعد و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا۔ اب اگر پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل ان کی نااہلیت کا ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوا دیتے ہیں تو الیکشن کمیشن الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ205 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مجاز ہوگا کیونکہ پارٹی کا آئین ان رکن اسمبلی پر بالادست ہے اور اسی کی روشنی میں پارٹی میں فارورڈ بلاک یا الگ گروپ بنا کر اپنی پارٹی کے آئین سے انحراف کی ممانعت ہے۔ اس طرح اٹھارہویں ترمیم کے تحت اگر ریفرنس صوبائی اسمبلی کے سپیکر کو بھجوایا جاتا ہے تو سپیکر دو روز کے اندر اندر یہ ریفرنس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوانے کے پابند ہیں۔ اگر وہ تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں تو مدت ختم ہونے پر خود بخود ریفرنس الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان 30 روز میں فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ لہٰذا جو پارٹی کے رہنما کو خاطر میں نہیں لاتے ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 a کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے بشرطیکہ پارٹی کا قائد اپنی پارٹی کے آئین کے مطابق فیصلہ کرے۔ اگر پارٹی کے آئین میں ابہام ہے تو ایسے ارکان نااہلیت کی زد میں نہیں آئیں گے‘ جس طرح تحریک انصاف کی سابق ممبر عائشہ گلالئی نااہلیت کی زد سے محفوظ رہیں۔ اس کے خلاف تیار کردہ ریفرنس میں فنی اور قانونی غلطیاں تھیں جن کے باعث الیکشن کمیشن کو فیصلہ عائشہ گلالئی کے حق میں دینا پڑا۔ یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں