"KDC" (space) message & send to 7575

اجتماعی استعفے مسائل کا حل نہیں!

اجتماعی استعفے مسائل کا حل نہیں‘ ان سے کئی نئے مسائل جنم لے سکتے ہیں اور پیچیدہ بحران کی صورتحال سامنے آسکتی ہے۔مسائل سے نمٹنے کیلئے جون 1977ء کی طرز پر وزیر اعظم ہاؤس میں مذاکرات کی میز کا بندوبست کرنا پڑے گا‘ جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کے مابین مذاکرات ہوئے تھے‘ یا پھر 15 جولائی 1993ء کی تاریخ دہرائی جائے جب جنرل وحید کاکڑ‘ صدر اسحاق خان اور نواز شریف کے درمیان آئندہ کے سیٹ اَپ پر گفتگو ہوئی تھی اور جنرل وحید کا کڑ آرمی کا مو ٔقف بیان کر رہے تھے تو نواز شریف نے ان کی گفتگو میں مداخلت کی ‘اس موقع پرآرمی کے چیف آف سٹاف جنرل غلام محمد نے اپنی سٹک نواز شریف کے گھٹنوں پر لگائی کہ جب آرمی چیف گفتگو کر رہے ہوں تو مداخلت نہیں کی جاتی۔نواز شریف حیران و پریشان ہو گئے اور اسی وقت مستعفی ہونے کی پیش کش کردی‘ ساتھ ہی صدر اسحاق خان کو بھی پانچ ماہ کی رخصت پر بھیجنے کا فیصلہ ہو گیا‘ چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد کو قائم مقام صدر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا اوراکتوبر 1993ء کے انتخابات افواجِ پاکستان کی نگرانی میں کرانے کا فیصلہ ہوا۔
میرے خیال میں اب سیاسی‘ معاشی اور انتخابی مسائل کتنے ہی سنگین ہوں‘ بہرحال مذاکرات کرنا ہوں گے اور میری تجویز ہے کہ اس ٹرائیکا میں جناب چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی شامل کرنا بہترہو گا تا کہ آئینی و قانونی ابہام پیدا نہ ہو اور تفصیل سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے قابل ِقبول مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے ریاست کے مفاد میں ایسا لائحہ عمل تشکیل دیاجائے جو سب کیلئے قابل ِقبول ہو۔ ملک اس وقت جس نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اس کا احساس سبھی کو ہے‘ اس لئے فروری کے ممکنہ لانگ مارچ سے قبل پاکستان کی ٹرائیکا کا اہم اجلاس بلایا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں تمام فریقوں کے درمیان رابطوں میں تاخیر نہیں ہونی چاہئے‘ اس کیلئے وزیر اعظم عمران کو این آر او کے کہانی سے بھی باہر آنا ہو گا۔اس بنیادی حقیقت کو کسی بھی جانب سے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ جمہوری نظام کی روح جہاں فلاحِ عامہ کو ملحوظ رکھنا اور معاملات کو عوامی ا منگوں سے ہم آہنگ کرنا ہے‘ وہاں سیاست مشکل ترین صورتحال میں بہتری کے امکانات تلاش کرنے کی صلاحیت کا نام بھی ہے‘ اور یہ بھی اہم ہے کہ وزیر اعظم کو آئینی‘ قانونی طور پر ضمنی انتخابات کرانے کے اختیارات نہیں ہیں‘ ضمنی انتخابات الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 224‘ 218 اور 219 اور ملک کے اندر لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال دیکھ کر کروانے ہیں۔
ملک میں اجتماعی استعفوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو تحریک انصاف نے اکتوبر 2014ء میں سپیکر قومی اسمبلی کو اجتماعی استعفے پیش کئے تھے جو 28 ارکان پر مشتمل تھے( قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 33 ارکان تھے جن میں سے پانچ ارکان نے مستعفی ہونے سے گریز کیا تھا) اور قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے آئین کے آرٹیکل 64 اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے اجتماعی استعفیٰ منظور نہیں کئے تھے۔ مذکورہ فیصلے میں قرار دیا گیا تھا کہ مستعفی ہونے والے رکن کو ذاتی طور پر سپیکر کے سامنے پیش ہو کر انہیں مطمئن کرنا ہو گا کہ وہ رضا کارانہ استعفیٰ دے رہا ہے اور پارٹی یا کسی کا کوئی جبر یا دباؤ نہیں۔ اُس وقت سپیکر نے عمران خان سمیت تحریک انصاف کے ارکان کو اپنے چیمبر میں باری باری پیش ہونے کا کہا اور مستعفی ہونے والے ہر رکن کیلئے پندرہ منٹ رکھے ‘ لیکن تحریک انصاف کے ارکان لاؤنج میں بیٹھے رہے اور انہوں نے باری باری پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ آٹھ ماہ چلتا رہا‘ بعد ازاںسپیکر نے استعفے مسترد کر دئیے‘ صرف جاوید ہاشمی کا استعفیٰ منظور ہوا کیونکہ انہوں نے ایوان میں کھڑے ہو کر اپنے استعفے کا اعلان کیا تھا۔ بعد میں اسحاق ڈار کے فارمولا کے تحت اور الیکشن جوڈیشل کمیٹی‘ جس کے سربراہ چیف جسٹس ناصرا لملک تھے‘ کے فیصلے کے بعد عمران خان کے 28 ارکان واپس ایوان میں آ گئے اور پارلیمانی بزنس کا حصہ بن گئے۔ اسی طرح نبیل گبول کو متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان ساتھ لے کر سپیکر قومی اسمبلی کے پاس گئے اور نبیل گبول کا استعفیٰ پیش کر دیا‘ بعد ازاں نبیل گبول دوبارہ سپیکر قومی اسمبلی کے پاس گئے اور کہا کہ انہوں نے دھمکی‘ دباؤ کے تحت استعفیٰ دیا ہے اور سپیکرنے ان کی استدعا منظور کرتے ہوئے ان کا استعفیٰ مسترد کردیا۔اجتماعی استعفے ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہونے پر 1992-93 میں بھی دئیے گئے تھے‘ مگر اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان نے سوال اٹھایا تھا کہ جب تک سپیکر ذاتی طور پر مطمئن نہ ہو کہ استعفیٰ کسی دباؤ کا نتیجہ نہیں اور رضا کارانہ طور پر د یا گیا ہے‘ کوئی استعفیٰ منظور نہیں کیا جا سکتا۔یہ معاملہ پونے دو سال تک چلتا رہا اور اس دوران قومی اسمبلی تحلیل ہو گئی۔ اسی طرح 1990ء کے اوائل میں بیگم عابدہ حسین نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف اپنا استعفیٰ ملک معراج خالد کو پیش کیا تھا‘ جسے سپیکر نے نا منظور کر دیا‘ جس پر اُس وقت کے پارلیمانی امور کے وزیر ڈاکٹر شیر افگن نے سپیکر کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرا دی کہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 69کی خلاف ورزی کی ہے۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو معراج خالد کو سپیکرشپ سے برطرف کرنا چاہتی تھیں کہ 5 اگست 1990ء کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی ہی تحلیل کر دی اور حیرانی یہ ہے کہ حسب ِروایت سپیکر قومی اسمبلی معراج خالد نے صدر اسحاق خان کے اقدام کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی۔
بہرکیف متحدہ اپوزیشن استعفے پیش کرتی ہے تو پارلیمانی بزنس کسی حد تک متاثر ضرور ہو گا ‘ تمام کمیٹیاں غیر فعال ہو جائیں گی اور ایوان میں ویرانی چھا جائے گی‘ جس سے ملکی اور غیر ملکی معاہدات بھی متاثر ہوں گے کیونکہ حکومت یک طرفہ کسی قسم کی قانون سازی نہیں کر سکے گی‘ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے نتیجے میں پورے کا پورا نظام ہی بیٹھ جائے گا۔ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ اس وقت وزیر اعظم کو 180ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ اپوزیشن 155 سے زیادہ ارکان نہیں رکھتی‘ اس لیے اپوزیشن اپنے حامیوں کا مورال بلند کرنے کی نفسیاتی جنگ کا سہارا لے رہی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک اعتماد منظور نہیں ہو سکی۔ 
ملکی سیاست میں افہام و تفہیم‘ تحمل‘ رواداری اور برداشت کی جگہ اشتعال انگیزی‘ مبارزت طلبی اور ایک دوسرے کی توہین‘ تضحیک کی جو روایت چل پڑی ہے اس کے مستقبل کے نظامِ حکومت پر اثرات کے بارے کچھ کہنا مشکل بھی ہے اور قبل از وقت بھی‘ لیکن واضح ہے کہ یہ جمہوری سسٹم کیلئے نیک فال نہیں کیونکہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ خود کو دہراتی ہے‘ موجودہ اور سابقہ انتخابی نظام اور جمہوری سسٹم‘ پارلیمنٹ کی کارکردگی‘ وزرااورباہر سے آئے معاونینِ خصوصی اور دیگر اہم اداروں کی کارکردگی کے بارے میں باریکی بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہے‘ کیونکہ پاکستان کی حفاظت کیلئے کوئی نہ کوئی صورت تو نکالنا ہی ہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے نظامِ حکومت کا بھی بغور جائزہ لینے کے امکانات پائے جاتے ہیں ‘ایسے جمہوری اور انتخابی سسٹم پر تھنک ٹینک کام کر رہے ہیں جو پاکستان کیلئے آئندہ چند برسوں میں فلاحی ریاست کی طرف انقلابی قدم ہو گا اور ایسا بے رحم احتساب ہو گا جس کا خواب پاکستان کے عوام نے حالیہ چند برسوں میں دیکھا ہے۔ ملک کی معروضی صورتحال کا تقاضا ہے کہ سیاست کی سمت بدلی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں