"KDC" (space) message & send to 7575

کراچی الیکشن اور الیکٹرانک ووٹنگ کا سوال

کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 249 کے ضمنی الیکشن کے بعد ایک اور تنازع اُٹھ کھڑا ہوا ۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ایک مرتبہ پھر آمنے سامنے آ گئے۔ جولائی 2018ء میں چھٹے نمبر پر آنے والی پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل اپریل 2021ء کے ضمنی انتخاب میں کامیاب قرار پائے ‘ مگر پیپلز پارٹی کے علاوہ انتخاب میں حصہ لینے والی کوئی جماعت بھی ان نتائج کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اعتراض اُٹھایا گیا کہ ٹرن آؤٹ بہت کم تھا ‘ صرف 65 ہزار ووٹ کاسٹ کیے گئے‘ باوجود اس کے انتخابی نتائج کا اعلان رات پونے چار بجے تک کیوں تاخیر کا شکار ہوا؟ الیکشن میں حصہ لینے والی بعض سیاسی جماعتوں کے رہنما گیلپ سروے کا ذکر بڑے فخریہ انداز میں کر رہے ہیں جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ الیکشن سے پہلے سروے کرانا ویسے ہی ضابطہ اخلاق کے منافی ہے ‘مگراس قسم کے سروے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کرائے جاتے ہیں اور ان کو بعض سیاسی جماعتیں خفیہ طور پر مالی معاونت بھی فراہم کرتی ہیں۔ ماضی میں مبینہ طور پر میاں شہباز شریف نے ایسے سرویز اپنے حق میں کروائے اور پنجاب حکومت نے اپنے مالی ذرائع سے ان کی مدد کی۔ میرے خیال میں اگر ایسی تنظیموں کے بارے میں انکوائری کرائی جائے تو چشم کشا حقائق سامنے آئیں گے۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر عمران خان صاحب نے ماضی میں اس طرز کے سرویز کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
کراچی کے حلقہ این اے 249 میں ضمنی انتخاب توہو چکا ہے مگر یہ انتخاب اپنے پیچھے کئی تنازعات چھوڑ گیا ۔ 1988ء کے بعد یہ حلقہ عمومی طور پر پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی کا حلقہ تصور کیا جاتا رہا ہے‘ جہاں سے معروف صنعت کار میاں اعجاز شفیع کامیاب ہوتے رہے ہیں‘بعد میں کسی وقت ابوبکر شیخانی بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور جولائی 2018ء میں شہباز شریف نے اسی حلقے سے قسمت آزمائی کی لیکن تقریباً چھ سو ووٹوں کے فرق سے فیصل واوڈا کے ہاتھوں شکست کھا گئے ‘ بعد میں الیکشن ٹربیونل نے بھی شہباز شریف کے خلاف فیصلہ دیا۔ اب مفتاح اسماعیل کی شکست بھی کم و بیش اتنے ہی ووٹوں کے فرق سے ہوئی۔ اب انتخابی جنگ کا دوسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے۔ غیر جانبدار ماہرین اس ضمنی انتخاب میں حکومتِ سندھ کی پراسرار مداخلت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے مقامی افسران سے ملی بھگت کر کے سو سے زائد پریذائیڈنگ آفیسرز انتخاب سے ایک ہفتہ قبل تبدیل کروا دیے گئے اور ان کی جگہ جو پریذائیڈنگ افسران لگائے گئے مبینہ طور پر انہیں اندرون سندھ سے لایا گیا تھا اور وہ پیپلز پارٹی کے خیرخواہ تھے اور وہ پولنگ ختم ہونے کے آٹھ گھنٹے بعد تک غائب رہے۔ یہ بھی اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ پریذائیڈنگ افسران نے دوپہر کے وقت ہی پولنگ ایجنٹوں سے فارم 45 پر دستخط کرالئے تھے جس کی اطلاع پر الیکشن کمیشن کے حکام نے متعلقہ پریذائیڈنگ افسران کی سر زنش کی اور دستخط کرائے گئے فارمز منسوخ کر دیے۔ ان پریذائیڈنگ افسران نے افطاری کا جواز پیش کیا تھا۔مگر پریذائیڈنگ افسران کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے پیدا ہونے والی سنگین صورتحال کے پیش نظر امیدواروں کے کارکن آمنے سامنے آ گئے تو ریٹرننگ افسرسید ندیم حیدر نے موقع پر پہنچ کر صور تحال کو کنٹرول کیا ۔ غیر حتمی رزلٹ کے فارم بھی رات بارہ بجے تک ریٹرننگ افسر کے دفتر نہیں پہنچائے گئے تھے۔ میرے خیال میں الیکشن کمیشن کو ابتدائی طور پر تحقیق کرانی چاہیے کہ انتخاب سے ایک ہفتہ قبل ریٹرننگ افسر نے سو سے زائد پریذائیڈنگ افسران کیسے تبدیل کر دیے جبکہ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق پولنگ سے پندرہ دن قبل پولنگ سکیم کی منظوری کے بعد عملے کی تبدیلی کا اختیار صرف الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حاصل ہے۔ اسی طرح جن پریذائیڈنگ افسران نے افطاری کا جواز پیش کرتے ہوئے فارم 45 پر پولنگ ایجنٹوں سے قبل از وقت دستخط کرائے تھے یا کرانے کی کوشش کی تھی الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10 کے تحت ان پریذائیڈنگ افسران کے خلاف بھی تادیبی کارروائی ہونی چاہیے۔
حلقہ این اے 249 میں تین لاکھ کے لگ بھگ ووٹرز رجسٹرڈ ہیں مگرپیپلز پارٹی کے امیدوار قادر مندوخیل نے 16 ہزار سے کچھ زائد ووٹ لیے‘ یہ کل ووٹوں کا محض پانچ فیصد ہے یعنی صرف پانچ فیصد ووٹ لینے والا امیدوار پورے حلقے کے عوام کی نمائندگی کرے گا۔ دراصل یہی اس انتخابی نظام کی بنیادی خرابی ہے ؛چنانچہ میرا مشورہ یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات میں رن آف الیکشن کا فارمولہ اختیار کرتے ہوئے 51 فیصد ووٹوں کی شرط نافذ کی جانی چاہیے جس طرح دیگر ترقی پذیر ممالک مثلاً انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ اور ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ‘ کینیڈا ‘ جرمنی اور دیگر کئی ممالک میں ہوتا ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے یہ حیران کن بیان دے کر سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے کہ حکومتی کام میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وزیراعظم اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ ان کے ریمارکس سے گورنمنٹ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ بین الاقوامی حلقے حیرت زدہ ہیں کہ ملک میں ایسا کوئی انتشار یاخلفشار بھی نہیں جس کی بنا پر حکومت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو۔ اپوزیشن تقسیم ہو چکی ہے‘ پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھر چکا ہے‘ شہباز شریف مفاہمت کے قائل ہیں اور بلاول میں ایسا دم خم نہیں کہ عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچا سکیں۔ جہانگیر ترین کے ہم خیال دوستوں نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے معاملے کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے‘مہنگائی کا سیلاب تو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اور عوام میں اس پر کوئی تحریک نہیں اُبھر رہی‘ ایسے حالات میں اسد عمر نے اسمبلیوں کی تحلیل کا عندیہ کیوں دیا؟
وفاقی کابینہ نے انتخابی اصلاحات کے دو آرڈیننسز کی منظوری دی‘ جس کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین استعمال کرسکے گا اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ دینے کی سہولت کا بندوبست کرے گا۔ وزیراعظم عمران خان ہر صورت آئندہ انتخابات الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے کرانے کی خواہش مند ہیں‘ مگر اس کام میں اصولی طور پر وفاقی حکومت کو الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے آئینی ادارے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ بعض وفاقی وزرا کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کے بارے میں تحفظات ہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے آئینی ترمیم لازمی ہے۔ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اگر یہ سسٹم لاگو کیا گیا تو اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا جائے گا۔ پھر اگر یہ سسٹم آر ٹی ایس کی طرح ناکام ہو گیا تو الیکشن کمیشن کے پاس کوئی متبادل نظام نہیں ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں بھارتی اپوزیشن بھی شدید تحفظات کا اظہار کر چکی ہے جبکہ پاکستان میں چالیس فیصد ناخواندہ ووٹرز ہیں‘ بجلی کی سپلائی بھی غیر یقینی ہے ؛چنانچہ اس سسٹم کو اختیار کرنے سے ایک دن میں الیکشن کرانا ناممکن نظر آتا ہے کیونکہ 12 کروڑ ووٹرز کے لیے قومی و صوبائی اسمبلی کے لیے ایک دن میں انتخابات کرانا مشکل مرحلہ ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ کے مضمرات اور اثرات کے بارے میں راقم الحروف نے وزیراعظم پاکستان‘ صدر مملکت‘ قومی اسمبلی کے سپیکر‘ چیئرمین سینیٹ‘ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اوراہم قومی اداروں کو رپورٹ بھجوا ئی ہے اور شنید ہے کہ بعض وزرا نے الیکٹرانک مشین پر عدم تحفظ کا اظہار بھی کیا ہے کیونکہ اس سسٹم میں رازداری کا عنصر نہیں پایا جاتا جو آئین کے آرٹیکل 2018ء سے انحراف ہے۔ اس طرح الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ پر تقریباً ایک کھرب روپے کے اخراجات بھی ہوں گے‘ اس کے باوجود شفافیت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں