"KDC" (space) message & send to 7575

خیبر پختونخوا، بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ

خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں انتخابات ہوئے ۔منگل کی صبح تک 64 میں سے 58 نشستوں کے غیر حتمی اورغیر سرکاری نتائج سامنے آ چکے تھے‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے دو میئرز سمیت 21 تحصیل چیئرمینوں کی سیٹیں حاصل کر لیں۔ کوہاٹ اور پشاورسے میئر کا الیکشن جمعیت علمائے اسلام (ف)نے جیت لیا ہے۔ پہلے مرحلے کی 64 نشستوں میں سے 58 نشستوں کے نتائج پر پارٹی پوزیشن کچھ یوں بنتی ہے:جمعیت علمائے اسلام (ف): 21‘ پاکستان تحریک انصاف: 14‘ آزاد: 9‘ عوامی نیشنل پارٹی: 7‘ مسلم لیگ (ن): 3‘ جماعت اسلامی: 2‘ پاکستان پیپلز پارٹی: 1
خیبر پختونخوا ضلع باجوڑ میں بلدیاتی انتخابات میں ووٹنگ کے روز خواتین نے بڑھ چڑھ کر حق رائے دہی استعمال کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قبائلی اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات ضلع مہمند‘ خیبر اور باجوڑ میں ہوئے۔بظاہر ان انتخابات میں خواتین کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس الیکشن میں نوجوان خواتین امیدواروں نے بھی حصہ لیا تھا۔ بلدیاتی انتخابات میں230 خواتین امیدوار میدان میں اُتری تھیں جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد پونے تین لاکھ سے زائد رہی۔ خواتین اور مردوں کیلئے الگ الگ پولنگ سٹیشن قائم کیے گئے تھے جبکہ 348 پولنگ سٹیشنزمرد و خواتین کے لیے مشترکہ تھے‘ پولنگ کا عمل دن بھر بغیر وقفے کے جاری رہا۔ اس الیکشن میں حکمران جماعت حسب توقع نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔خیبر پختونخوا کے وزرا نے ان نتائج کو مہنگائی کے سبب عوام میں حکومت کی عدم مقبولیت کا نتیجہ قرار دیا ہے تاہم وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں غلط امیدواروں کا انتخاب شکست کا کلیدی سبب تھا۔ اصل وجہ کوئی ایک تھی یا بہت سی وجوہ کا مجموعہ حکمران جماعت کیلئے اس شکست کا سبب بنا؟ اس کا کھوج لگانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور یہ کام کھلے دل کے ساتھ کیا جانا چاہیے نہ کہ پہلے سے بنائے گئے ذہن کے ماتحت۔اس طرح حکمران جماعت کسی صورت میں حقائق تک نہیں پہنچ پائے گی اور مزید غلطیاں کرتی رہے گی۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پشاور‘ مردان‘ کوہاٹ‘ صوابی‘ نوشہرہ اور بنوں میں سخت مقابلہ دیکھنے میں آیا اور حکمران جماعت کو انتخابی عمل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ‘ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سینیٹر شبلی فراز پر کوہاٹ سے واپسی پر درہ آدم خیل کے مقام پر نامعلوم افراد کا حملہ بھی قابلِ مذمت اور صوبائی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صوبائی حکومت درّہ آدم خیل میں ہجوم کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی کیونکہ پولیس موقع پر موجود ہی نہیں تھی۔اسی طرح تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے رکن فضل حکیم کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ دراصل صوبائی اور وفاقی وزراکو زمینی حقائق کا اندازہ ہی نہیں ہوا اور وزیراعظم پاکستان کو بھی صوبے میں عوامی اضطراب سے اندھیرے میں رکھا گیا ۔ وزیراعظم کو سب اچھا کی رپورٹ دی جا تی رہی ۔صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے اس مرحلے کے نتائج کا اثر ملک کے دیگر حصوں پر بھی پڑے گا۔
ان بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کو نظرانداز کرنے سے امن و امان کی صورتحال بگڑتی چلی گئی۔ اگر صوبائی حکومت اور وزراالیکشن کمیشن کے احکامات پر من و عن عمل کرتے تو امن و امان کی صورت حال بہتر رہتی۔ وزیراعظم نے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نوٹسز پر دھیان نہیں دیا‘ اگر وہ اپنے وکیل کی وساطت سے مناسب انداز میں جواب داخل کرا دیتے اور وفاقی وزرا سے بھی ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کراتے تو ان کے وقار میں اضافہ ہوتا ۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی شق 233 اور 234 کو قانونی تحفظ حاصل ہے اور الیکشن کمیشن ان شقوں پر عمل درآمد کرانے کا قانونی حق رکھتا ہے۔بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی آڈیو تحقیقی مرحلے میں ہے‘ اسی طرح وزیراعظم کو تین بار یاددہانی کے نوٹسز جاری ہو چکے ہیں اور ان کی طرف سے جواب داخل نہ ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان باقاعدہ تادیبی کارروائی کرنے کے لیے شوکاز نوٹس بھجوانے کا قانونی حق الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعات 167‘ 168اور 174 حق رکھتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے تحریک انصاف کے منحرف رہنما‘سابق نائب صدر تحریک انصا ف جسٹس (ر) وجیہ الدین کے الزامات پر ردعمل روک دیا ہے۔اصولی طور پر ان کے سیاسی الزامات پر دھیان نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ پارٹی سے انحراف کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنما سابقہ پارٹی کے خلاف عموماً ایسی گفتگو کر کے میڈیا میں جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض سیاستدان اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ۔ تحریک انصاف کے اندرونی معاملات پر جو سوالات اٹھائے گئے عوام کی بڑی اکثریت نے انہیں مسترد کر دیا‘ لہٰذا جسٹس صاحب کے الزامات پر حکومتی ترجمانوں نے جس طرح ان کا مذاق اڑایا اور ان کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں ہتک عزت کے مقدمات چلانے کی دھمکیاں دی گئیں اس سے حکمران جماعت کو ہی پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کامیاب حکمت عملی کے تحت ایم کیو ایم کے مرکزی ہیڈ کوارٹر میں اپنے موقف پر قائم رہنے کا اعلان کر کے وزیراعظم کو زچ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بنی گالہ کے ماہانہ اخراجات پر بات باقاعدہ سوچ سمجھ کر کی اور ان کے پاس باقاعدہ ثبوت موجود ہیں۔ جسٹس صاحب کی ذاتی حیثیت اور ساکھ بہت مضبوط ہے اور اگر ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا گیا تو حالات پارٹی کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے‘ لہٰذا جن وفاقی وزرانے ان کے خلاف مقدمات چلانے کی دھمکی دی تھی ان کو سرزنش کرنا وزیراعظم کیلئے پارٹی مفادات کے تحت بہت ضروری ہے۔ حکومت وجیہ صاحب کے خلاف مقدمات دائر کر تی ہے تو بنی گالہ کے اخراجات کے علاوہ پارٹی کے سابق رہنما کے الزامات اور آڈیو‘ وڈیو اور الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں جو مواد خان صاحب کے خلاف شائع ہوتا رہا وہ بھی مقدمے کی زینت بنے گا۔ اب جبکہ حکومت نے پسپائی اختیار کر لی ہے تو وجیہ صاحب کو کھلا راستہ مل گیا ہے ۔ عائشہ گلالئی کیس بھی ابھی پارلیمنٹ کی کمیٹی میں مدفون ہے۔ وزیراعظم کی سوشل میڈیا ٹیم کو احتیاط کے ساتھ پارٹی مفادات کے معاملات کو آگے لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس صاحب کے ریمارکس کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا جاتا ہے تو حامد خان ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور دیگر آئینی و قانونی ماہرین جسٹس وجیہ الدین کے کیس کی پیروی کریں گے اور عائشہ گلالئی اور ریحام خان اور کئی نامور شخصیات بھی عدالت میں موجود ہوسکتی ہیں‘ لہٰذا جس وفاقی وزیر نے وزیراعظم کو وجیہ صاحب کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ دیا تھا اور میڈیا میں ان کے خلاف مہم چلائی میری نظر میں وہ وزیر اعظم کانادان دوست ہے۔وزیراعظم نے مسلم وزرائے خارجہ کانفرنس میں اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا منوا لیا اور اُمت ِمسلمہ کے ترجمان کی حیثیت سے سامنے آئے‘مگر نادان دوستوں نے وزیراعظم کے خلاف پنڈورا بکس کھلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب ہر فورم پر جسٹس وجیہ اپنے موقف کو سامنے لائیں گے‘ اگر ابتدا میں ہی حکومتی حلقوں کی طرف سے خاموشی اختیار کر لی جاتی تو چند روز کے بعد وجیہ صاحب کے ریمارکس تحلیل ہو جاتے اور عوام نے بھی اس طرف دھیان نہیں دینا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں