"KDC" (space) message & send to 7575

بلدیاتی انتخابات مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے!

وزیر اعظم عمران خان نے جمہوری سوچ کی روح کے مطابق خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج میں تحریک انصاف کی انتخابی ناکامی پر اپنے رد عمل میں حکمران جماعت کی شکست کی ذمہ داری قبول کر کے اچھی روایت قائم کی ہے۔ انہوں نے آئندہ انتخابات کی نگرانی خود کرنے کا عزم کیا ہے۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ پارلیمانی بورڈ‘ جس نے خیبر پختونخوا کے پہلے مرحلے میں ارب پتیوں کو ٹکٹ دے کر غریب اور متوسط سطح کے ورکروں کو نظر انداز کیا‘ کے بارے میں صحیح حقائق جاننے کے لیے ایجنسیوں کی خدمات حاصل کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ بلدیاتی انتخابات چونکہ نچلی سطح سے شروع ہوتے ہیں لہٰذا میرے خیال میں متوسط درجے کے ورکروں کو آگے لانا چاہیے تھا۔ اب وزیر اعظم نے ملک بھر میں تحریک انصاف کی تمام تنظیمیں تحلیل کر دی ہیں اور آئینی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ فیصلہ کیا گیا کہ آئندہ مقامی قیادت کسی امیدوار کے رشتے دار کی نامزدگی نہیں کرے گی جبکہ وزیر اعظم نے آئندہ ٹکٹوں کی تقسیم خود کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میرے خیال میں اگر وزیر اعظم براہ راست نگرانی کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ میرے مشاہدے کے مطابق ان کے ارد گرد ایسے ارب پتی ٹکٹ ہولڈرز موجود ہیں جو اپنے اثر و رسوخ سے ان کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں گے۔ خیبر پختونخوا تحریک انصاف کا مضبوط قلعہ تھا جس میں شگاف پڑ چکا ہے‘ لیکن خان صاحب اب بھی انتخابی سائنس کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔ پشاور، مردان، نوشہرہ، چارسدہ اور صوابی میں ان کی پارٹی کا جو حشر ہوا ہے دوسرے مرحلے میں صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔ روایت سے ہٹ کر خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ چالیس فیصد رہا اور ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں 22 فیصد ٹرن آؤٹ حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔
عمران خان اس صوبے میں اگلے مرحلے میں بہتری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ارد گرد موجود کچھ لوگوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ کیونکہ ایک وزیر صاحب نے مخالف پارٹی کے تحصیل میئر کو فنڈز نہ دینے کا اعلان کر کے دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن میں پارٹی کیلئے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں‘ اور ایک طرح سے ووٹرز اور عوام کو حیران کر دیا ہے۔ صوبائی خزانہ کسی کی ملکیت نہیں‘ یہ ریاست کا خزانہ ہے۔ فردِ واحد کی ملکیت میں نہیں ہے۔ وزیرِ موصوف نے اصولی طور پر آئین کے آرٹیکل 148(A) کی خلاف ورزی کی ہے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مفاہمت کی راہ اختیار کرتے ہوئے اعظم سواتی اور فواد چوہدری کی گستاخانہ روش کو معاف کر کے بادی النظر میں خوش آئند قدم اُٹھایا ہے۔ الیکشن کمیشن نے دونوں کا معافی نامہ قبول کر لیا ہے۔ اگلا سال بلدیاتی انتخابات کا سال ہے اور الیکشن کمیشن نے ان وزرا بشمول وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کے سپیکر کے ناپسندیدہ کنڈکٹ پر شدید رد عمل کا اظہار کر کے اس ادارے کے رعب، دبدبہ اور اتھارٹی کو فروغ دیا؛ تاہم معافی نامے قبول ہونے کی صورت میں یہ ادارہ اسی جگہ کھڑا ہو گیا جس طرح اس کی ماضی کی روایات تھیں۔ میرا خیال ہے کہ فواد چوہدری اور اعظم سواتی نے اپنے الزامات واپس نہیں لیے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر جس انداز میں بیانی حملے کیے تھے جس کا الیکٹرانک میڈیا پر سینکڑوں افراد نے مشاہدہ کیا۔ شاید اب دو سطری معافی نامے پر عوام نے غور نہیں کرنا۔ مذکورہ وزرا نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ساکھ کو جس انداز میں مجروح کیا وہ عوام کو ذہین نشین ہو چکا ہے۔ میری ناقص رائے میں فواد چوہدری اور اعظم سواتی نے خوبصورت انداز میں قانونی راستہ سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں اگر ان کے مفادات زد میں آئیں گے تو وہ یہی طرزِ عمل اختیار کریں‘اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کے سیاسی بیانات دیں کہ انہوں نے الزامات واپس نہیں لیے تھے۔
مستقبل قریب میں جو سیاسی اور انتخابی حکمت عملی کا فارمولہ تیار ہو رہا ہے‘ اس کے مطابق میری ناقص رائے میں پاکستان کی سلامتی، قومی معیشت اور جغرافیائی صورت حال کو بہتر انداز میں کرنے کے لیے مارچ‘ اپریل کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج سامنے رکھے جائیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم ان نتائج کی روشنی میں کوئی بڑا فیصلہ کریں۔ اسی طرح سندھ اور بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وزیر اعظم نے آئندہ جو بلدیاتی انتخابات کی خود نگرانی کا دعویٰ کیا ہے اس طرح وہ شاید ثابت نہ ہو سکے کیونکہ میری نظر میں پارلیمانی بورڈ کی کمان جن افراد یا فرد کے ہاتھ میں ہے ان کا فارمولہ من پسند افراد کو ہی ٹکٹ دینا لگتا ہے لہٰذا پنجاب کے بلدیاتی انتخابات چونکہ ایک ہی مرحلہ میں ہوں گے لہٰذا ان کے نتائج وہی آ سکتے ہیں‘ جیسے کنٹونمنٹ کے انتخابات میں دیکھنے میں آئے تھے۔ اب اگر پنجاب کے 34 اضلاع میں تحریک انصاف کے مخالفین کا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے تو پھر اکتوبر 2023 کے انتخابات میں تحریک انصاف نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور چوہدری برادران بلدیاتی انتخابات میں جس معاہدے کے اشتراک پر آگے بڑھ رہے ہیں تو میرا اندیشہ ہے کہ تحریک انصاف کو خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے لہٰذا یوں نظر آ رہا ہے کہ پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے مطلوبہ نتائج نہ آنے پر وزیر اعظم عمران خان اسمبلیو ںکی تحلیل کی طرف جائیں گے اور آئندہ انتخابات کے لیے جو نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائے گا وہ ہو گا تو 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی توسیع کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ریفرنس دائر کرنے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی جا سکتی ہے جس کے ٹرم آف ریفرنس میں حلقہ بندیوں میں مردم شماری، الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور بیرون ممالک پاکستانیوں کیلئے انٹرنیٹ ووٹنگ کی سہولت کیلئے انتخابات کرانا اور قومی احتساب بیورو کے ذریعے کرپشن کے مقدمات کا میرٹ پر فیصلہ کرنا شامل ہے۔ میرے اندازہ کے مطابق اس طرح نگران سیٹ اپ مقررہ مدت 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند نہیں ہو گا کیونکہ الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعات 103 اور 94 میں جو ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر انتخابات کرانے کا قانونی طور پر پابند ہو چکا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مجھے ملک کا سیاسی و جمہوری نظام کچھ خطرے کی زد میں نظر آتا ہے لہٰذا وزیر اعظم کو اس گرداب سے نکلنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انہیں صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کی قیادت کو تبدیل کرکے وفاقی کابینہ میں بھی اہم تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ ایسا کرنے سے وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنی سوچ کے مطابق بلدیاتی انتخابات کے اگلے مراحل اور اگلے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی جیت کی راہ ہموار کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں