"KDC" (space) message & send to 7575

تحریک عدم اعتماد: قواعد‘ اور سپیکر کے اختیارات

تحریک عدم اعتماد پراسرار انداز میں پارلیمانی سرنگ میں داخل ہونے کو ہے اور تحریک انصاف میں اختلافات رائے رکھنے والے گروپ بھی متحرک ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بین الاقوامی حالات ایسے بن چکے ہیں کہ خدشہ محسوس ہوتا ہے‘ عالمی قوتیں وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو اسی طرح غیرمستحکم کرنے کی کوشش کریں گی جس طرح 9 مارچ 2007ء کو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سبکدوشی کے وقت صدر پرویز مشرف کے خلاف منظم طور پر تحریک شروع کرائی گئی تھی‘ میرا خیال ہے کہ جس کی پشت پر واضح طور پر کچھ پراسرار عالمی طاقتیں تھیں۔ مارچ 1977ء کے الیکشن کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی الیکشن دھاندلی کو وجہ بنا کر ملک گیر تحریک شروع کر دی گئی تھی۔
حکمرانوں کو شاید ادراک نہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اتحادی جماعتیں میڈیا کے متعلق صدارتی آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے اس کی منسوخی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ غیر مستند اطلاعات ہیں کہ اتحادی جماعتوں نے حکومت سے علیحدگی کیلئے راستے متعین کر لیے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس کوئی واضح یا بھاری اکثریت اسمبلی میں موجود نہیں؛ چنانچہ ممکن ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر وزیراعظم عمران خان 172 ارکان یقینی نہ بنا سکیں۔ ان کے ارکان غیر حاضر ہونے کا استحقاق رکھتے ہیں‘ کورونا میں مبتلا ہو سکتے ہیں یا کوئی بھی بہانہ یا عذر تراش کر اجلاس سے غیر حاضر ہو سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین نے خان صاحب سے ملنے سے گریز کرتے ہوئے لندن جانے میں عافیت سمجھی۔ ممکن ہے وہ وہیں سے ہم خیالوں سے رابطے میں رہیں۔
میری اطلاع کے مطابق اپوزیشن وزیر اعظم‘ سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف بیک وقت تحریک عدم اعتماد لانے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔مشاورت ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کا نقطہ نظر یہ ہے کہ موجودہ سپیکر کی موجودگی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر سپیکر کی غیر جانبداری پر کچھ پارلیمانی حلقوں کو شک ہے؛ چنانچہ اس آپشن پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر تینوں کے خلاف بیک وقت تحریک عدم اعتماد کی قراردادیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی جائیں تو پھر فیصلہ کن مرحلے میں کامیابی بڑی حد تک یقینی ہو جائے گی۔ آئینی و قانونی طور پر وزیر اعظم‘ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف علیحدہ علیحدہ تحریک پیش کی جا سکتی ہے کیونکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک کا فیصلہ اوپن رائے شماری کے ذریعے ہونا ہوتا ہے‘ لہٰذا ایک ہی دن میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف بیک وقت تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ کرنا ناممکن ہے۔ وجہ یہ کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہو گی لیکن وہ دونوں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کی صدارت نہیں کر سکیں گے‘ اور صدر مملکت کو قومی اسمبلی میں سینئر ترین ممبر قومی اسمبلی کو صدارت کیلئے کہنا پڑے گا۔ ایسی کوئی صورت پیدا ہوئی تو سید فخر امام قومی اسمبلی کے اجلاس کی صدارت کر سکتے ہیں۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ موجودہ سپیکر قومی اسمبلی غیرجانبدارانہ حیثیت منوانے میں ناکام رہے ہیں‘ اس لیے اپوزیشن کو یہ احساس ہے کہ وہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد طویل وقت تک ٹالنے کی کوشش کریں گے کیونکہ قومی اسمبلی کے بعض قواعد و ضوابط میں وقت کا تعین ہونے کے باوجود کچھ خامیاں موجود ہیں؛ چنانچہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے رائے شماری کے عمل میں طویل وقت لگ سکتا ہے‘ جس میں سپیکر قومی اسمبلی اپنی مرضی سے اضافہ کر سکتا ہے اور اس دوران پارلیمنٹ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہارس ٹریڈنگ کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد میں وقت بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جتنا وقت گزرے گا حکومت کو فائدہ ہوگا۔ وفاداریاں تبدیل ہونے کے امکان کو مدِنظر رکھتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کیلئے وقت کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کے رُول 37 کے مطابق تحریک عدم اعتماد کا تحریری نوٹس قومی اسمبلی کے سیکرٹری کو جمع کروانا ہوتا ہے‘ جس پر اسمبلی کی مجموعی تعداد کے کم از کم 20 فیصد ارکان‘ جن کی تعداد 65 کے لگ بھگ بنتی ہے‘ کے نام اور دستخط لازمی ہیں۔ نوٹس سپیکر کو موصول ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 14 دنوں میں طلب کیا جائے گا‘ جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کے اجلاس میں قرارداد پر بحث کیلئے وقت مقرر کرے گا۔ نومبر 1989ء میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو بھی مدنظر رکھا جائے گا جس کے مطابق لیڈر آف دی اپوزیشن اور لیڈر آف دی ہاؤس قرارداد کے حق میں اور مخالفت میں اظہارِ خیال کریں گے۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں غلام مصطفی جتوئی نے بطور اپوزیشن لیڈر خطاب کیا تھا‘ جبکہ جواب میں بے نظیر نے بطور لیڈر آف دی ہاؤس قرارداد کی مخالفت میں دلائل پیش کئے تھے جبکہ سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد نے غیر جانبدارانہ طور پر ہاؤس کو چلنے دیا اور تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن نے تسلیم کرتے ہوئے بینظیر بھٹو کو مبارکباد پیش کی تھی۔ نواز شریف نے بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے تحریک کی ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔ غلا م مصطفی جتوئی نے بے نظیر بھٹو کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے میں نے سپیکر قومی اسمبلی کی گیلری سے یہ سارا منظر بچشم خود دیکھا تھا۔
عدم اعتماد کے حوالے سے تحریک اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد تین روز گزرنے سے قبل اور سات روز کے بعد ووٹنگ نہیں ہو سکتی۔ آئین کا دوسرا شیڈول ڈویژن کے ذریعے ووٹ ریکارڈ کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے۔ اس کے ذریعے ارکان کو گن کر ووٹ لیا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ پر ہوتا ہے۔ عام طور پر وزیراعظم کے حامیوں سے حکومت کہتی ہے کہ وہ ایسی ووٹنگ کے عمل میں موجود نہ ہوں کیونکہ اکثریت قائم کرنے کی ذمہ داری ایسی صورت میں اپوزیشن جماعتوں پر ہوتی ہے‘ تاہم حکومت اپنے کچھ ارکان کو اس عمل میں شامل کرتی ہے تاکہ قانونی معاملات اور سوالات کو دیکھ سکیں۔ سپیکر قومی اسمبلی قرارداد پڑھتا اور ارکان سے کہتا ہے کہ وہ جس کے حق میں چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ جب سپیکر کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام ارکان جو ووٹ دینا چاہتے ہیں ووٹ دے چکے ہیں تو وہ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کا اعلان کر دیتا ہے‘ جس کے بعد سیکرٹری قومی اسمبلی ڈویژن لسٹ جمع کرتا ہے‘ ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کرتا ہے اور سپیکر کو نتیجہ جمع کرا دیتا ہے جس کے بعد سپیکر دو منٹ تک گھنٹی بجانے کی ہدایت دیتا ہے تاکہ تمام ارکان چیمبر میں واپس آ جائیں‘ گھنٹی رکنے کے بعد سپیکر نتائج کا اعلان اسمبلی میں کر دیتا ہے۔
تحریک عدم اعتماد میں منحرف ارکان کے خلاف آئینی طور پر کارروائی کرنے کا طریقہ بہت طویل ہے‘ جس کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی پارلیمانی لیڈر کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوائے گا اور الیکشن کمیشن 90 روز میں فیصلہ کرنے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن نے عائشہ گلالئی کیس میں تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا ریفرنس مسترد قرار دے دیا تھا۔ عائشہ گلالئی نے پارٹی فیصلے کے برعکس شاہد خاقان عباسی کے حق میں ووٹ دیا تھا جس پر چیئرمین عمران خان نے عائشہ گلالئی کے خلاف ریفرنس قومی اسمبلی کے سپیکر کی وساطت سے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا جسے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا نے بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں